ذکر مولوی عبدالغفور سیتائی صاحب کا

سردار قریشی  بدھ 30 نومبر 2016

1960ء کا ذکر ہے، میں روزنامہ نوائے سندھ، حیدرآباد کے ادارتی عملے میں نیا نیا شامل ہوا تھا۔ دو خان بہادروں، محمد ایوب کھوڑو اور غلام محمد وسان کا یہ اخبار پکا قلعہ سے نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر مولوی عبدالغفورسیتائی تھے۔ موصوف کا شمار اس دورکے نامورایڈیٹروں میں ہوتا تھا۔ اونچا سنتے تھے، آلہ سماعت وغیرہ بھی نہیں لگاتے تھے مگر کسی کو اپنی یہ کمزوری محسوس نہیں ہونے دیتے تھے۔

کلین شیوآدمی تھے لیکن سنتے تھے کہ دارالعلوم دیو بند کے فارغ التحصیل، دستاربند مولوی تھے۔ ادارتی عملے کے ساتھ میٹنگ میں کہی ہوئی ان کی ایک بات مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ یہ میٹنگ اس روزکے شمارے میں اندرونی صفحات پر شایع ہونے والی ایک چھوٹی سی سنگل کالمی خبر کی وجہ سے بلائی گئی تھی۔ انھوں نے سیدھی طرح پوچھنے کی بجائے کہ یہ خبرکس نے اورکیوں لگائی ہے، ہماری طرف دیکھ کر فرمایا آپ لوگوں میں سے کوئی مجھے بتائے گا کہ اس خبر میں ایسی کیا بات تھی جس کی وجہ سے اسے شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ انھوں نے شفٹ انچارج سے کوئی باز پرس بھی نہیں کی جو اس کا براہ راست ذمے دار تھا۔ شاید وہ اسے صرف اپنی غلطی کا احساس دلانا چاہتے تھے۔

پھر انھوں نے یکسر گفتگو کا موضوع ہی بدل دیا اور سوالیہ لہجے میں فرمایا آپ لوگ جانتے ہیں خبرکیا ہوتی ہے۔ ایک سب ایڈیٹر بولے ہر وہ بات جو لوگوں کو بتائے جانے کے قابل ہو اور ایسا واقعہ جس کی اطلاع لوگوں کے لیے باعث دلچسپی ہو، خبرکہلائے گی۔ مولوی صاحب نے اس کی بات سے اتفاق نہیں کیا اور فرمایا اگر کتا کسی آدمی کو کاٹ لے توکیا خبر بن جائے گی، نہیں نا۔ کتے کا آدمی کوکاٹ لینا معمول کی بات ہے، ہاں اگر آدمی کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے کیونکہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔

نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد مولوی صاحب کی بیان کردہ خبر کی یہ تشریح مجھے آج اس وقت یاد آئی جب آن لائن خبروں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دلچسپ خبر میری نظر سے گزری کہ ہیکرز بھارتی ہوابازوں کو مقبوضہ کشمیر میں اترتے (لینڈ کرتے) وقت مقبول ملی نغمہ ’’دل دل پاکستان‘‘ سننے پر مجبورکر دیتے ہیں۔ خبر میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی ہیکرز مقبوضہ کشمیر میں اترنے والے بھارتی ہوائی جہازوں کے پائلٹوں کو نشانہ بنا کر ان کا کنٹرول ٹاور سے رابطہ منقطع کر دیتے ہیں اور انھیں مقبول عام پاکستانی ملی نغمے مثلاً ’’دل دل پاکستان سننے پر مجبورکر دیتے ہیں۔

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اگر مولوی صاحب یہ خبر دیکھتے تو ان کا رد عمل کیا ہوتا، لیکن وہ اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہتے کیونکہ یہ بھارتی حکومت اور فوج دونوں کے منہ پر زوردار طمانچے کے مترادف ہے جو مقبوضہ کشمیر میں وحشت اور بربریت کا بازارگرم کیے ہوئے ہیں اور انھوں نے معصوم کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنے لیے حق خود ارادیت مانگتے ہیں جس کا بھارت نے اقوام متحدہ سے وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ سو بات ہو رہی تھی اپنے وقت کے ایک دبنگ ایڈیٹر، مولوی عبدالغفور سیتائی کی، جن کے بڑے پن اور منفرد طریقہ کار کا ایک اور مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب اخبار کے پروف ریڈر نے ان کی قابلیت اور اختیار دونوں کو چیلینج کیا اور انھوں نے اسے انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے بلا چوں چرا اپنی غلطی تسلیم کر لی۔

ہوا یوں کہ مولوی صاحب کو، جو ایڈیٹوریل نوٹ خود لکھتے تھے اور خود ہی اس کی پروف ریڈ نگ بھی کرتے تھے، کسی ضروری میٹنگ میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ وہ ایڈیٹوریل نوٹ نہ صرف لکھ چکے تھے بلکہ اس کا فرسٹ پروف بھی پڑھ چکے تھے۔ سیکنڈ پروف اور فائنل پروف چیک کیے جانے باقی تھے جس کے لیے ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ تب آج کل کی طرح آفسٹ پرنٹنگ نہیں ہوتی تھی اور چھپائی کا پرانا (لیتھو) طریقہ رائج تھا جس میں کمپوزنگ سیکشن کے فورمین کا کلیدی کردار ہوا کرتا تھا کہ وہی پیج میکنگ بھی کرتا تھا۔

انھوں نے فورمین کو بتایا کہ وہ ایک ضروری میٹنگ میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں لہذا وہ ایڈیٹوریل نوٹ کا سیکنڈ اور فائنل پروف منشی صاحب (پروف ریڈر) کو دکھائے۔ فورمین کی پروف ریڈر سے نہیں بنتی تھی لیکن وہ یوں مطمئن تھا کہ مولوی صاحب فرسٹ پروف خود دیکھ کر گئے ہیں، منشی صاحب زیادہ سے زیادہ زبر زیرکی دوچار معمولی غلطیاں نکالیں گے۔

مگر جب اسے منشی صاحب کا دیکھا ہوا سیکنڈ پروف کریکشن کے لیے ملا تو وہ یہ دیکھ کر چکرا کر رہ گیا کہ املا کی چھوٹی موٹی کئی دوسری غلطیاں نکالنے کے علاوہ منشی صاحب نے ایک پورا پیراگراف بھی قلم زد کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پیراگراف میں غیرضروری طور پر پہلے کی ہوئی باتوں کا اعادہ کیا گیا ہے۔

اس زمانے میں ایڈیٹوریل نوٹ پورے دوکالم (عمودی) لکھنے کا رواج تھا، جہاں دوکالم پورے ہوئے وہیں ایڈیٹوریل نوٹ بھی ختم کرنا پڑتا تھا۔ منشی صاحب سے بات کرنے کا یوں کوئی فائدہ نہ تھا کہ ان کا کہا گویا پتھر پہ لکیر تھا، اور پیراگراف نکالنے سے نوٹ کے دوکالم پورے نہیں ہو رہے تھے، آٹھ دس سطورکم پڑتی تھیں۔ جگہ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی تھی اور ادارتی عملے میں ایسا کوئی نہ تھا جو یہ خالی جگہ بھرنے کی حامی بھرتا۔ منشی صاحب کو بتایا تو کندھے اچکا کر بولے یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ ادھر فورمین دہائی دیتا تھا کہ کاپی وقت پر نہ گئی تو اخبار نہ چھپ سکے گا۔

ایک ہنگامہ بپا تھا۔ سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے کہ ایک دم سناٹا چھا گیا، مولوی صاحب تشریف لے آئے تھے۔ فورمین نے مسئلہ بتایا تو انھوں نے پروف منگوا کر دیکھے ، اپنا لکھا ہوا ایڈیٹوریل نوٹ ایک دو نہیں پورے چار بار پڑھا، پھرسر اٹھا کر فورمین کی طرف دیکھا اور فرمایا منشی صاحب نے پیراگراف ٹھیک نکالا ہے، میں دوسری دس سطریں لکھ دیتا ہوں، تم باقی کام نمٹا لو۔ کاپی جانے کے بعد انھوں نے ادارتی عملے کو ہی نہیں، کمپوزیٹروں سمیت سارے اسٹاف کو جمع کرکے لیکچر دیا جسکا خلاصہ یہ تھا کہ اخبارکا عملہ بشمول ایڈیٹر غلطیاں کرتا ہے اور پروف ریڈر ان غلطیوں کو ٹھیک کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ اخبار کے عملے کا اہم ترین فرد ہوتا ہے، ظاہر ہے وہ ہم سب سے زیادہ قابل آدمی ہوتا ہے اور ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

میں نے ایپرینٹس شپ شیخ علی محمد کی زیرادارت حیدرآباد سے شایع ہونے والے قاضی برادران ( قاضی اکبر اور قاضی عبدالمجیدعابد ) کے اخبار ’’عبرت‘‘ میں کی تھی لیکن نوائے سندھ پہلا اخبار تھا جس میں پہلی بار بحیثیت سب ایڈیٹر میرا تقرر ہوا۔ یہ مولوی عبدالغفور سیتائی ہی تھے جنہوں نے مجھے اس کا اہل سمجھا۔ مجھے ان کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں ملازمت کی تلاش میں ان کے پاس پہنچا تھا۔

جب میں نے انھیں اپنی تین مہینوں کی ایپرینٹس شپ کے بارے میں بتایا تو باقی باتیں مجھے انھوں نے خود بتائیں کہ پھر قاضی صاحب نے یہ کہا ہو گا وغیرہ، اور حیران ہوتا دیکھ کر انھوں نے کہا تھا کہ وہ سب ایپرینٹس شپ کرنے والوں کو یہی کہتے ہیں۔ پھر انھوں نے اپنے کیبن میں ہی لگے ہوئے اے پی پی کے ٹیلی پرنٹر سے کریڈ کی ایک خبر مجھے پھاڑ کر دی اور کہا اسے ترجمہ کرو۔ میں نے خبر ترجمہ کر کے دی تو مولوی صاحب نے پہلے گھڑی دیکھی، پھر خبر۔ انھیں ترجمہ پسند آیا اور مجھے نوکری مل گئی۔ مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے جو خبر ترجمہ کی تھی وہ ایوب خان کی کابینہ کے ایک بنگالی وزیر خان عبدالصبورخان کا کوئی سیاسی بیان تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔