میں نے شادی کیوں کی؟

سید عارف  جمعرات 1 دسمبر 2016
میاں شکر کرو، لوگ اب تک یہی پوچھ رہے ہیں کہ شادی کب کر رہے ہو، مگر ڈرو اُس وقت سے جب لوگ یہ پوچھنا شروع کردیں گے کہ جناب آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟ فوٹو:فائل

میاں شکر کرو، لوگ اب تک یہی پوچھ رہے ہیں کہ شادی کب کر رہے ہو، مگر ڈرو اُس وقت سے جب لوگ یہ پوچھنا شروع کردیں گے کہ جناب آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟ فوٹو:فائل

مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ انسان کی زندگی میں دو وقت ہی ایسے آتے ہیں جب وہ اپنی تمام تر ناعملی کے باوجود لوگوں کی مکمل توجہ کا مرکز ہوتا ہے ایک اسکی شادی کا دن اور دوسرا جب وہ راہی ملکِ عدم ہوتا ہے۔

چونکہ ہمیں یوسف صاحب کی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ زیادہ خبر نہیں اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پر وہ شادی اور مرگ کو ایک ہی جملہ میں تمام کرگئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ابھی شادی شدہ زندگی کی اس منزل پر ہیں جہاں ہر دن، دن عید اور ہر شب، شبِ براٰت ہوتی ہے، اور یوسفی صاحب کی بات کی گہرائی کو نہ سمجھ سکے ہوں۔

بہرحال بڑوں کی بات جو پہلے ہم نے نہ سنی تھی اور نہ شادی کی تھی، اس کی ایک وجہ تو وہ ہیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہی بیٹھی ہیں، ہماری نصف بہتر کہ ’’جن کے دیکھنے سے آجاتی ہے منہ پر رونق‘‘ اور چونکہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ خواتین اپنی تعریف کروانا اور سننا اپنا جائز حق سمجھتی ہیں، اس لئے ہم یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ،

وہ اعجاز، وہ ہی تمکنت، وہ ہی رہنمائی
ایک پل اُسے دیکھیں کہ ہزار پل دیکھیں

شادی کرنے کی دوسری وجوہ میں ایک یہ بھی تھی کہ ہم جس سے ملتے وہ سلام بعد میں کرتا اور پہلے یہ پوچھتا کہ بھئی شادی کب کررہے ہو؟ ایک دن ان سوالوں سے تنگ آکر ہم نے اپنے ایک دیرینہ کرم فرما سے پوچھا کہ اس کا بھی کوئی حل بتائیے کہ ہم تو اب شادی کے بارے میں سوالات سن سن کر تنگ آگئے ہیں۔ ہماری بات سن کر موصوف پہلے تو ایک لمحہ کے لئے خاموش ہوگئے اور پھر بڑی راز داری سے گویا ہوئے کہ میاں پھر کرلو شادی۔ ہم نےعرض کیا حضرت ہم تو آپ کو اپنے مہربانوں میں سمجھتے تھے اور اُمید تھی کہ آپ اس مسئلہ کا کوئی ایسا حل بتائیں گے جو جان لیوا نہ ہوگا، مگر آپ بھی اسی حلقہ دام خیال نکلے کہ شادی کب کررہے ہو۔

ہماری بات سُن کر موصوف ایک بار پھر خاموش ہوگئے۔ اس دفعہ یہ خاموشی قدرے طویل تھی۔ ہماری بے چینی دیکھ کر انہوں نے اپنی خاموشی توڑی اور اپنی زندگی کے تمام تر تجربہ کو آنکھوں کے زریعے ہم پر مرتکز کرتے ہوئے بولے میاں شکر کرو، لوگ اب تک یہی پوچھ رہے ہیں کہ شادی کب کر رہے ہو، مگر ڈرو اُس وقت سے جب لوگ یہ پوچھنا شروع کردیں گے کہ جناب آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟ اس ’کیوں نہیں کی‘ پر انہوں نے اتنا زور لگایا کہ باوجود اس کے ابھی ہمارا ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نا، پا ہے رکاب میں‘‘ والا دور نہیں آیاتھا لیکن ہم گھبرا گئے۔

اپنے ان مہربان سے مات کھانے کے بعد ہم نے سوچا کہ واقعی شادی کرلینی چاہیئے۔ اس ارادہ پر عمل ہونے تک کن کن مقامات سے گزرنا پڑا، اسے وہ ہی لوگ جان سکتے ہیں جنہیں اس بات کا ادراک ہے کہ ’’کیا گزرتی ہے شبنم پہ قطرہ سے گہر ہونے تک‘‘ اور کئی دفعہ یہ بھی ہوا کہ،

ارادہ باندھتا ہوں، سوچتا ہوں اور توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے

بہرحال اِس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہمیں ابھی مزید مشوروں کی ضرورت تھی اس لئے اپنے ایک اور دوست سے رجوع کیا جو کافی شادی شدہ تھے (تین کا تو ہمیں پتا ہے باقی واللہ عالم) ہماری خواہشِ شادی سُن کر کہنے لگے میاں ویسے تو کافی سمجھدار لگتے ہیں اور کچھ ادبی ذوق بھی ہے پھر بھی شادی کا ارادہ ہے، لگتا ہے ادبی ذوق اور مطالعہ سے سیکھا کچھ نہیں۔ ہم نے عرض کیا حضرت شادی سے ادبی ذوق اور مطالعہ کا کیا تعلق؟ کہنے لگے اجی چھوڑیئے سارا ادب ایک طرف اگر آپ نے غالب کو ہی صحیح معنوں میں پڑھا ہوتا تو ہرگز شادی کا ارادہ نہ کرتے۔ ہم نے عرض کیا جو تھوڑا بہت ہم نے پڑھا ہے اس میں خلافِ شرع تو کچھ کچھ ہے لیکن خلافِ شادی کچھ نظر نہیں آیا۔ ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا میاں دیکھئے،غالب نے تو صاف کہا ہے کہ،

ہوگئی غالب سب بلائیں تمام
بس اک شریکِ حیات باقی ہے

(غالباً چوتھی کا ارادہ لگتا ہے)

ہم نےعرض کیا یہ تو معلوم نہیں یہ شعر غالب کا ہے یا نہیں ہاں اگر بھابھی نے کہا ہے تو بہت خوب ہے۔

بہرحال مختلف لوگوں کی متضاد باتوں اور نئے نئے مشوروں سے تنگ آکر ہم نے فیصلہ کیا کہ زندگی کے اس اہم فیصلے کے لئے اس علم و حکمت والی کتاب سے رجوع کیا جائے جسکے فیصلے زندگی کے ہر پہلو کے لئے اٹل ہیں اور یقینًا ہمارے لئے بھی کوئی نہ کوئی حل ہوگا، اور وہاں صاف صاف لکھا تھا کہ، (مفہوم)

’’ہم نے مرد و عورت (میاں بیوی) کو ایک دوسرے کا لباس بنایا ہے‘‘۔

(سورہ البقرہ: 187)

اس لطیف استعارہ کو سمجھتے ہوئے ہم نے سوچا کہ شادی ضرور کی جائے اور اس لئے شادی کر بھی ڈالی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔
سید عارف

سید عارف

سید عارف پچھلے کئی سالوں سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ آپ اِن سے ٹوئٹر پر arifsyed@ اور میل پر [email protected] پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔