ہزاروں سال تک چارج رہنے والی ہیرے سے بنی تابکاری بیٹری

علیم احمد  جمعـء 2 دسمبر 2016
اس ایجاد نے ماہرین کو لاکھوں ٹن تابکار فضلہ ٹھکانے کا ایک نیا، مفید اور مؤثر راستہ دکھایا ہے۔ فوٹو؛ فائل

اس ایجاد نے ماہرین کو لاکھوں ٹن تابکار فضلہ ٹھکانے کا ایک نیا، مفید اور مؤثر راستہ دکھایا ہے۔ فوٹو؛ فائل

لندن: یونیورسٹی آف برسٹل، برطانیہ کے سائنسدانوں نے ایٹمی فضلے کو مصنوعی ہیرے میں بند کرکے 100 سال تک چارج رہنے والی بیٹری کے طور پر استعمال کرنے کا انوکھا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

یہ ایجاد اس لحاظ سے منفرد ہے کیونکہ تابکار ایٹمی فضلے کی تلفی ایک بڑا دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں ہزاروں ٹن تابکار فضلہ موجود ہے جسے تلف کرنے کا کوئی کم خرچ طریقہ فی الحال ہمارے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے زمین کی بہت زیادہ گہرائی میں انتہائی محفوظ جگہوں پر دفن کرنا پڑتا ہے جس پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں مگر یہ لاگت برداشت کرنا امیر اور ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی بہت مشکل ہے۔

موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کے 30 ممالک میں 444 ایٹمی بجلی گھر (نیوکلیئر ری ایکٹرز) کام کررہے ہیں جب کہ 15 ملکوں میں مزید 63 نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر جاری ہے یعنی تابکار فضلہ نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ اس میں اضافے کی رفتار مزید بڑھنے کا بھرپور امکان بھی ہے۔

سائنسندانوں کی تیار کردہ تابکار بیٹری (جس کے پروٹوٹائپ میں تابکار ’’نکل 63‘‘ پر مشتمل مصنوعی ہیرا استعمال کیا گیا ہے) اس ضمن میں دُہرے فائدے کی حامل ہوسکتی ہے۔ اوّل یہ تابکار فضلے کو ٹھکانے لگانے کا محفوظ طریقہ ہے اور دوم اس سے توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت پوری کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ البتہ تابکار نکل کے ہیرے والی اس بیٹری میں توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ’’صرف‘‘ 100 سال بعد نصف رہ جائے گی۔

100 سال تک چارج رہنے کا راز:

تابکار ایٹموں کے مرکزے (نیوکلیائی) غیر قیام پذیر ہوتے ہیں اور اسی لیے ان میں مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی جاری رہتا ہے جس کی بدولت وہ خود کو قیام پذیر اور غیر تابکار عناصر میں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے کسی تابکارعنصر کے ایٹموں کی تعداد بتدریج کم ہوتی رہتی ہے اور ایک خاص مدت کے بعد اس عنصر کے نمونے میں تابکار ایٹموں کی تعداد نصف رہ جاتی ہے جسے اس عنصر کی ’’نصف عمر‘‘ (ہاف لائف) بھی کہا جاتا ہے، نکل 63 کی نصف عمر 100 سال ہے۔

البتہ اسی دوران وہ حرارت کی شکل میں بھی توانائی خارج کرتے ہیں جسے ’’انحطاطی حرارت‘‘ (decay heat) کہا جاتا ہے اور جیسے جیسے کسی عنصر کے نمونے میں تابکار ایٹموں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے خارج ہونے والی یہ حرارت بھی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس عنصر کی نصف عمر پوری ہونے پر وہ حرارت آدھی رہ جاتی ہے۔

سو سال تک ’’چارج‘‘ رہنے والی بیٹری کا راز بھی یہی ہے۔

ہیروں کے قیدی:

انحطاطی حرارت سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ تابکاری کے مضر اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اسکاٹ اور سائنسدانوں  نے فیصلہ کیا کہ تابکار مادّوں کی معمولی مقداروں کو کاربن پر مشتمل مصنوعی ہیروں میں بند کردیا جائے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ کم مقدار والے تابکار مادّے سے خارج ہونے والی خطرناک شعاعیں ہیرے کے اندر ہی دوبارہ جذب ہوجائیں گی جب کہ صرف حرارت ہی باہر نکل سکے گی۔ یعنی ایسے ہیروں کو توانائی حاصل کرنے میں بہ آسانی استعمال کیا جاسکے گا۔

اس تصور کی حقیقت اور افادیت ثابت کرنے کے لیے ماہرین کی اس ٹیم نے ابتدائی طور پر تابکار ’’نکل 63‘‘ کا انتخاب کیا جسے مصنوعی ہیرے میں بند کرنے کے بعد پروٹوٹائپ بیٹری کے طور پر اس کا کامیاب تجربہ بھی کرلیا گیا۔ لیکن یہ تو صرف ابتدائی تجربہ تھا ورنہ ان کا اصل ہدف تو اس سے بھی کہیں زیادہ عرصے تک چارج رہنے والی بیٹریاں تیار کرنا ہے اور ان کی آئندہ کوششیں اسی بارے میں ہوں گی۔

ہزاروں سال تک چارج رہنے والی بیٹری:

بات عجیب لگتی ہے لیکن حقیقت ہے کہ تابکار ’’کاربن 14‘‘ کی نصف عمر 5730 سال ہے۔ (یہ وہی کاربن ہے جس سے ’’ریڈیو کاربن ڈیٹنگ‘‘ نامی تکنیک میں آثارِ قدیمہ کی عمر معلوم کی جاتی ہے۔) یعنی اگر اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے، تابکار کاربن استعمال کرنے والی بیٹری تیار کرلی جائے تو اس کی چارجنگ 5730 سال کے بعد آدھی ہوگی۔

ایٹمی بجلی گھروں کے تابکار فضلے میں ’’کاربن 14‘‘ کی بھی کوئی کمی نہیں کیونکہ آج سے تقریباً 40 سال پہلے تک ایٹمی بجلی گھروں میں گریفائٹ (کاربن کی بہروپی شکل) کی سلاخیں نیوٹرون جذب کرنے کے لیے (موڈیریٹر کے طور پر) استعمال کی جاتی تھیں۔ نیوٹرون جذب کرنے سے پہلے یہ عام اور غیر تابکار ’’کاربن 12‘‘ پر مشتمل ہوتی تھیں لیکن نیوٹرون جذب کرنے کے نتیجے میں وہ کاربن 14 میں تبدیل ہوجایا کرتی تھیں۔

دنیا کے کئی ملکوں میں اس وقت ایٹمی بجلی گھروں کے تابکار فضلے میں لاکھوں ٹن کاربن 14 کی دیوقامت سلاخیں بھی شامل ہیں۔ اگر صرف برطانیہ کی بات کریں تو وہاں کاربن 14 والے بلاکوں کا مجموعی وزن 95000 ٹن سے زیادہ ہے جو آج تک اپنی محفوظ تلفی کے منتظر ہیں۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عام بیٹریوں سے 700 جول فی گرام کے حساب سے توانائی خارج ہوتی ہے اور چھوٹی ٹارچ میں عام استعمال ہونے والی ڈبل اے (AA) بیٹری اس شرح پر صرف 24 گھنٹے میں مکمل ڈسچارج ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس کاربن 14 سے نکلنے والی انحطاطی حرارت صرف 15 جول فی گرام ضرور ہوتی ہے لیکن تابکار ہونے باعث یہ اسی شرح پر آہستہ آہستہ کرکے مسلسل ہزاروں سال تک خارج ہوتی رہتی ہے۔ کاربن 14 کا صرف ایک گرام اپنی نصف عمر کے دوران مجموعی طور پر 1500 ارب جول کے لگ بھگ توانائی خارج کرتا ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی روایتی بیٹری نہیں کرسکتی۔

یعنی اگر کاربن 14 کی انحطاطی حرارت سے استفادہ کرنے والی کوئی بیٹری تیار کرلی جائے تو وہ کم از کم چھوٹے اور کم توانائی استعمال کرنے والے آلات کو ہزاروں سال تک مسلسل توانائی فراہم کرتی رہے گی۔

سائنسدانوں کی ٹیم کا اگلا ہدف ایسی ہی ایک بیٹری کی تیاری ہے اور انہیں امید ہے کہ یہ نکل کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوگی کیونکہ مصنوعی ہیرا اور تابکار گریفائٹ (کاربن 14) دونوں کاربن ہی کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ توقع ہے کہ اس منصوبے پر بھی وہ جلد ہی کام شروع کردیں گے اور شاید آنے والے چند سال میں ایسی کوئی ’’ہیرا بند تابکار بیٹری‘‘ تجارتی پیداوار کےلئے تیار بھی ہوگی… ایک ایسی  بیٹری جسے عملاً کبھی ری چارج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔