بھارت ہوشمندی کا ثبوت دے

ایڈیٹوریل  بدھ 30 نومبر 2016
۔ فوٹو: فائل

۔ فوٹو: فائل

مقبوضہ کشمیر میں جموں کے علاقے نگروٹہ میں بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ہیڈکوارٹرز کے نزدیک واقع کیمپ پر پولیس کی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد کے حملے میں میجر سمیت دو افسر اور5اہلکار ہلاک جب کہ 9زخمی ہوگئے، جوابی کارروائی میں4حملہ آور بھی مارے گئے۔

ستمبر میں اڑی ایئر بیس پر حملہ کے بعد بھارتی فوجی کیمپ پر برسر پیکار مسلح گروہوں کا یہ دوسرا حملہ تھا ، دریں اثنا ورکنگ باؤنڈری پر سانبھہ کے رام گڑھ سیکٹر میں مجاہدین اور بی ایس ایف کے مابین شدید جھڑپ ہوئی، بھارتی فورسز نے دعویٰ کیا کہ جھڑپ میں شامل تینوں جنگجوؤں کو جھڑپ میں مار دیا گیا تاہم  بی ایس ایف اہلکاروں نے الزام تراشی میں روایتی سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور پاکستانی شہری تھے جب کہ اس زمینی حقیقت کا ادراک آج تک نہیں کیا کہ ہندوستان کا سیاسی ، عسکری، سماجی، معاشی ، مذہبی ، نسلی اور لسانی منظر نامہ اگرچہ برسوں سے ایک گہری تپش رکھتا تھا ، بے شمار حکومت مخالف تحریکیں زیر زمیں چل رہی تھیں البتہ انڈین اسٹبلشمنٹ کے جبر اور کانگریس ،بی جے پی یا دیگر مخلوط حکومتوں کے برسر اقتدار آنے سے آتش فشاں نہ بن سکیں مگر اب جب کہ کشمیر کی نئی نسل نے بزرگ سیاست دانوں کی رہنمائی میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک محشر بپا کردیا ہے اور وادی کشمیر کے عوام اپنے خون سے حریت پسندی اور بھارتی تسلط سے نجات کی نئی تاریخ  رقم کررہے ہیں اس سے بھارتی حکومت بوکھلا گئی ہے چنانچہ ہر واردات یا دہشتگردی کا الزام بھارت مکمل ڈھٹائی اور غیر ذمے دارانہ طریقے سے پاکستان پر عائد کرنے کی عادت بد میں مبتلا ہوگیا ہے۔

لیکن مذکورہ نگروٹہ واقعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بدنیتی کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر صورتحال کو خراب رکھنے پر تلی ہوئی ہے جب کہ پاکستان کو صائب مشورہ دیا گیا ہے کہ اس مکروہ بھارتی جال میں پھنسنے سے گریز کرے۔ بلاشبہ لائن آف کنٹرول پر دانستہ پیدا کردہ خطرناک کشیدگی بھارتی مذموم عزائم کی چغلی کھاتی ہے حالانکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر دیرینہ مسائل و تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کا راستہ اپنائے۔آیندہ دو تین روز میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھارت کے شہر امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے جا رہے ہیں، پاکستان میں کمان کی تبدیلی عمل میں آچکی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سرتاج عزیز4دسمبر کوکانفرنس میں شرکت کے لیے واہگہ کے راستے سے بھارت جائیں گے ۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کے لیے ان کی جائز جدوجہد کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کے خلاف طاقت کا استعمال بند کرے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق جموں و کشمیر سے متعلق او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمایندے عبداللہ العلیم نے جدہ میں کشمیر سے متعلق سیمینار اور تصویری نمائش کے موقع پر کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے۔ او آئی سی نے کشمیری عوام کی آزادی کے لیے جدوجہد کی مکمل حمایت کا اعادہ بھی کیا۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت پانی کی تقسیم کا معاملہ باہمی طور پر حل کر لیں گے۔ ترجمان سیکریٹری جنرل کے مطابق بان کی مون پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے معاملے کا جائزہ لیں گے۔ اس قسم کی پیش رفت سے بھارت فائدہ اٹھائے، اسے اپنی غلط پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے، کم از کم پاکستان مخاصمانہ بیانات کا سلسلہ روک کر بھارت سرکار کرنسی نوٹوں کی بندش کے 8  نومبر کے اعلان کے بعد سے پیدا ہونے والے بحران پر توجہ دے ،  لاکھوں شہری حکومت کی کرنسی پالیسی کے خلاف ملک گیر مظاہروں میں حصہ لے رہے ہیں، حزب اختلاف کی مرکزی جماعت نے ان عوامی مظاہروں کو ’’یوم غضب‘‘ کا نام دیا ہے، یہ مظاہرے خاص طور پر ان بھارتی ریاستوں میں کامیاب رہے جہاں صوبائی حکومتیں ملکی اپوزیشن جماعتوں کی ہیں۔ منگل کو بھی یہ مظاہرے کولکتہ، نئی دہلی، ممبئی اور بنگلور جیسے ملک کے بڑے بڑے شہروں اور ان ریاستوں میں ہوئے جن پر حزب اختلاف کی حکومتیں ہیں جیسا کہ اتر پردیش‘ مشرق میں مغربی بنگال اور جنوب میں کیرالا کی ریاستیں ہیں۔

ہزاروں افراد نے بینکوں کے باہر مظاہرے کیے اور مودی کے خلاف نعرے لگائے، اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ پچھلے20 دنوں سے ملک بھر کے شہریوں میں حکومتی اقدام کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے‘ ملک کے کسان، عورتیں اور بزرگ شہری غصے سے بھرے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے احتجاج کیا ہے۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے کولکتہ میں مظاہرین سے خطاب کے دوران دھمکی دی کہ مودی نے نوٹوں کی تبدیلی کا فیصلہ واپس نہ لیا تو وہ حکومت کے خاتمے تک مودی کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کرتی رہیں گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ مودی حکومت ہوش مندی اور حقیقت پسندی سے کام لے گی۔ کشمیر کی سلگتی ہوئی صورتحال اس کے لیے ایک ’’ ویک اپ ‘‘ کال ہے جب کہ بھارت میں چلنے والی مختلف النوع تحریکوں کو دبانا اب آسان نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔