حاکم و محکوم، محتاج و غنی

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 1 دسمبر 2016
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے معاشرے صدیوں سے جمود کا شکار ہیں حاکم و محکوم محتاج و غنی کا جو کلچر برصغیر میں ہزاروں سالوں تک پھولتا پھلتا رہا، اسے منطقی طور پر آزادی یا قیام پاکستان کے بعد بدل جانا چاہیے تھا لیکن اسے ہم بدقسمتی نہیں کہیں گے بلکہ عوام کی ذہنی پسماندگی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں سالہ حاکم و محکوم محتاج و غنی کا کلچر ماضی کی طرح آج بھی ملک و قوم کی تقدیر بنا ہوا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد کہا جاتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کا آغاز ہوا اور جمہوریت کا مطلب عوام کی حکمرانی ہی ہوتا ہے، اگر عوام کی حکمرانی ہو تو منطقی طور پر عوام کے مسائل حل کرنے کے راستے نکل آتے ہیں لیکن ملک کے تمام سیاستدان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ عوام کے مسائل حل کرنا تو درکنار ان میں معمولی کمی بھی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوتا رہا۔ جب یہ کھردری حقیقت سامنے آتی ہے تو لازماً ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟ اس ایسا کیوں کا جواب ڈھونڈنا ان لوگوں کی ذمے داری ہے جو ماضی کے سلاطینی نظام کو حقیقی جمہوری نظام میں بدلنا چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے سب سے پہلے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’جمہوریت‘‘ کی موجودگی میں ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ملک میں جمہوریت موجود ہے ہر پانچ سال بعد انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور عوام اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے نمایندے منتخب کرتے ہیں۔ پھر۔۔۔؟ پھر یہ کہ عوام جن لوگوں کو منتخب کرتے ہیں وہ اصل میں ان کے نمایندے ہوتے ہی نہیں بلکہ یہ اشرافیہ یعنی نئے جمہوری سلاطین کے نمایندے ہوتے ہیں اور منتخب ہونے کے بعد ان کا پہلا کام اور پہلی ترجیح اپنے طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تعریف ایک فلمی گانے میں کی گئی ہے جس کے بول ہیں ’’باپ بڑا نہ بھیا… سب سے بڑا روپیا‘‘ یہ روپیہ ہی ہمارے منتخب حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہوتا ہے۔

اس حوالے سے تازہ مثال ہمارے سامنے پانامہ کیس کی ہے۔ اس اسکینڈل میں ویسے تو ملک کے 400 افراد ملوث بتائے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں اس اسکینڈل کی مشہوری کی وجہ یہ ہے کہ اس اسکینڈل میں اپوزیشن کی جانب سے عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم کے خاندان پر الزامات لگائے جا رہے ہیں،اب یہ اسکینڈل بڑے دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے سپریم کورٹ میں تادم تحریر اس کی شنوائی ہو رہی ہے۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ حکمران اپنے دفاع کے لیے جو ثبوت اور گواہ لا رہے ہیں وہ عوام میں شاید ٹھوس حیثیت نہیں حاصل کر پا رہے ہیں بلکہ عوام اس پورے جمہوری نظام کا چہرہ دیکھ رہے ہیں اور جمہوریت کھل کر ان کے سامنے آرہی ہے۔ جو 400 افراد اس اسکینڈل میں ملوث ہیں وہ نہ مزدور ہیں نہ کسان نہ ان کا غریب طبقات سے کوئی تعلق ہے یہ سب وہ مراعات یافتہ لوگ ہیں جنھیں بھاری کرپشن کے بھرپور مواقعے حاصل ہیں اور وہ ان مواقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ہم نے اپنے کالم کا آغاز سلطانی دورکے حوالے سے کیا تھا، اس دور میں حاکم ومحکوم محتاج وغنی کا کلچر مضبوط اور مستحکم تھا، لیکن جب سلطانی جمہورکا آغاز ہوا اور حق حکمرانی سلطانوں سے عوام کے ہاتھوں میں آیا تو پھر پانامہ لیکس جیسے اسکینڈلزکا سرے سے وجود ہی نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن پانامہ اسکینڈل موجود ہے اور اس میں حکمران طبقے کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ حکومتی مصاحبین کا زور اس بات پر ہے کہ پانامہ میں وزیر اعظم کا نام نامی اسم گرامی نہیں بلکہ ان کے خاندان کا نام ہے۔

اب اس مسئلے کا رخ اس طرف موڑ دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کی اولاد وزیر اعظم کے زیرکفالت ہے یا نہیں؟ وزیراعظم کے بچوں نے یہ حقیقت تسلیم کرلی ہے کہ وہ ان آف شورکمپنیوں کے مالک ہیں جو اس سارے فساد کی جڑ بنی ہوئی ہیں۔اس حوالے سے آگے کیا ہوگا یہ سوال اس ملک کے 20 کروڑ عوام کے ذہنوں میں کھلبلی مچا رہا ہے۔ چونکہ ہمارا عدالتی نظام گواہ اور ثبوت کی ٹانگوں پر کھڑا ہوا ہے لہٰذا منطقی طور پر اسی حوالے سے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔عوامی حلقے الزام لگاتے ہیں کہ معاوضے کے عوض جھوٹے گواہ جھوٹے ثبوت ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ پانامہ اسکینڈلزکیوں وجود میں آتے ہیں؟ پانامہ لیکس کا تعلق صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی سے نہیں بلکہ اس میں بے شمار جمہوری ملک شامل ہیں اور ان ملکوں کے منتخب حکمران اس اسکینڈل میں ملوث ہیں۔ ان حکمرانوں کو بلاشبہ عوام نے ہی منتخب کیا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ یہ حکمران عوام کو بھوک ، بیماری، غربت، بے روزگاری سے بچانے کے بجائے اربوں روپوں کی لوٹ مار میں مصروف ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام جن لوگوں کو منتخب کر رہے ہیں ان کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ لوگ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں اشرافیہ کا بنیادی کام عوام کی دولت کی لوٹ مارکے علاوہ کچھ نہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو کچھ عوامی کام ہوجاتے ہیں لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں تو عوامی مسائل حکومتیں ایک دوسرے کو ورثے میں دیتی رہتی ہیں۔

بلاشبہ آج کی دنیا میں جمہوریت ہی ایک معقول سیاسی نظام ہے لیکن جمہوریت کا مطلب ’’عوام کی حکومت عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ جب تک نہیں ہوگا نئی دنیا کی نئی جمہوریت پرانی دنیا کے سلطانی نظام سے بدتر ہوگی اگر اس حقیقت کو ہمارے اہل علم، اہل دانش، اہل قلم سمجھنے لگیں تو پھر وہ اس مکروہ جمہوریت کی بھی حمایت نہیں کرسکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔