لندن گردی

امجد اسلام امجد  جمعرات 1 دسمبر 2016
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

1984ء کے نومبر کے آخری دنوں میں پہلی بار لندن یاترا کا موقع ملا تھا اگرچہ اس کے بعد سے یہ اس شہر کا تقریباً چودھواں چکر ہے مگر امر واقعہ یہی ہے کہ پہلے سفر کے بعد سے یہاں جتنا بھی قیام رہا اس میں شہر اور اس کے اہم مقامات کو دیکھنے کا موقع کم کم ہی مل سکا کہ پہلے سے طے شدہ مصروفیات اور اس شہر کی بے ہنگم وسعت نے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ تمام کے تمام اسفار مشاعروں یا کسی ادبی کانفرنس کے حوالے سے تھے۔ اولین سفر کے ہمسفر جمیل الدین عالیؔ اور پروین شاکر تھے جب کہ میزبانوں اور احباب میں مکرم جاوید سید‘ افتخار احمد بٹ‘ ڈاکٹر جاوید شیخ‘ عارف وقار‘ عارف افتخار‘ ساقی فاروقی‘ فیضان عارف‘ اعجاز احمد اعجاز‘ جسٹس صمدانی اور مشتاق احمد یوسفی صاحب کے نام فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں اس وقت اس شہر میں ان میں سے صرف ڈاکٹر جاوید شیخ‘ فیضان عارف اور ساقی فاروقی ہی موجود ہیں۔

بقیہ سب کے سب یا تو دنیا سے پردہ کر گئے یا کسی نہ کسی وجہ سے اس نواح کو چھوڑ کر کہیں اور جا بسے ہیں۔ موجودہ سفر کی غائت الخدمت فاؤنڈیشن کے ترتیب دیے ہوئے ان پروگراموں میں شمولیت ہے جو یتیم بچوں کی مدد اور پرورش کے لیے ایک بہت نیک اور اہم پروگرام چلا رہی ہے جس کا ایک حصہ ’’آغوش‘‘ کے نام سے جدید طرز کے یتیم خانوں کا قیام ہے جہاں ان بے سہارا بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ عمدہ تعلیم کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے وطن عزیز کے طول و عرض میں کئی ’’آغوش‘‘ سینٹر قائم ہو چکے ہیں۔

اب ان کا ارادہ (UKIM) یوکے اسلامک مشن کے ساتھ مل کر پنڈی اور مری کے درمیان ایک ایسے یتیم خانے کا قیام ہے جس کے لیے 56 کنال زمین نہ صرف خریدی جا چکی ہے بلکہ 750 بچوں کے لیے ایک ہاسٹل اور ایک تعلیمی بلاک کی تعمیر مکمل بھی ہو چکی ہے۔ یہاں مختلف آغوش سینٹرز میں مقیم سب سے زیادہ ذہین بچوں کو ایک جگہ جمع کر کے چھٹی سے بارہویں جماعت اور بعدازاں اس سے آگے تک ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے دوسرے اور زیر تکمیل حصے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے UKIM اور الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان نے مل کر اس فنڈ ریزنگ منصوبے کا اہتمام کیا ہے جس کے لیے میں اور انورؔ مسعود یہاں پہنچ چکے ہیں اور ایک دو دن میںبرادرم جنید سلیم بھی شریک سفر ہو جائیں گے۔

الخدمت کے صدر میاں عبدالشکور اور نائب صدر احسان اللہ وقاص بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہیں۔ تادم تحریر دو پروگرام (کارڈف اور لیوٹن بھی) ہو چکے ہیں جو حسب توقع بہت کامیاب رہے ہیں، جب کہ 6 دسمبر تک ہمیں آٹھ مزید شہروں میں اس مقصد کے لیے جانا ہے۔ اس بیچ میں صرف ایک دن یعنی 29 نومبر منگل وار خالی تھا وہ بڑی محبت سے ہمارے ہائی کمشنر سید ابن عباس نے لندن کے پاکستان سفارت خانے کے نام کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً تین سو مقامی مہمانوں کو میرے اور انورؔ مسعود کے لیے ترتیب دیے گئے ایک خصوصی ڈنر میں مدعو کیا گیا ہے کہ انھوں نے گزشتہ برس مبین رشید کی مرتب کردہ میڈیا کانفرنس کے دوران اس ارادے کا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان ہائی کمیشن میں بھی ایک دعوت کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں تا کہ لندن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے منتخب افراد کے لیے ایک ادبی محفل کا اہتمام کیا جائے جیسا کہ میں نے گزشتہ برس اس میڈیا کانفرنس کے حوالے سے لکھے گئے کسی کالم میں یہ ذکر کیا تھا کہ سید ابن عباس کا شمار ان گنتی کے چند سفارتکاروں میں ہوتا ہے جن کی تعریف لوگ ان کے منہ پر ہی نہیں ان کی عدم موجودگی میں بھی کرتے ہیں۔

انگلستان رقبے کے اعتبار سے کوئی زیادہ بڑا ملک نہیں۔ جنوب سے شمال یعنی لندن سے گلاسگو تک تقریباً چھ گھنٹے کے زمینی سفر میں آپ پورا ملک دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی بارہ سو برس قبل جب مسلمان فوجیں یورپ میں داخل ہو رہی تھیں اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آیندہ چند صدیوں میں یہ سرد کُہر زدہ غیر ترقی یافتہ اور دور افتادہ علاقہ ایک ایسی سلطنت بن جائے گا جس کی حدود میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ یہاں کے حکمرانوں‘ دانشوروں‘ مفکرین‘ موجدوں‘ سائنسدانوں اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے سر جاتا ہے۔ جنہوں نے مل جل کر اپنے عوام کو ایک ایسی ریاست کا شہری بنا دیا جو نہ صرف اس کرہ زمین پر انسانی ترقی کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے بلکہ اس مختصر رقبے اور آبادی والے ملک نے اپنے سے کئی سو گنا بڑے آبادی والے ملکوں پر کم و بیش دو صدیوں تک  حکومت بھی کی اور آج بھی یہاں کی زبان دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور بولی جانے والی زبان ہے۔

صنعتی انقلاب سے شروع ہونے والا یہ سفر مذہبی اور فکری آ زادی‘ اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں‘ سائنسی اور معاشرتی علوم کی ترقی‘ فنون لطیفہ اور علم و ادب کی شاہراہوں سے گزرتا ہوا اب ایک ایسے موڑ پر آ پہنچا ہے کہ یہاں کے سوشل سیکیورٹی جیسا سسٹم ساری دنیا کے لیے ایک مثال بن گیا ہے۔ ایک نکتہ نظر کے حوالے سے یہ سب کچھ ان لوگوں نے تیسری دنیا میں لوٹ مار کر کے حاصل کیا ہے۔ اس بات میں جزوی صداقت تو ہو سکتی ہے مگر اس کی بنیاد پر اس ملک کی ترقی کے بے شمار مظاہر سے چشم پوشی کرنا بھی درست نہ ہو گا۔

مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک سے قطع نظر انگلستان کی آبادی میں بھی غالب حصہ ان قومیتوں کا ہے جو برطانوی کولونیل آبادیوں کے افراد یا ان کی اولادوں پر مشتمل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت صرف برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے برطانوی شہریوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔1960ء سے قبل یہاں پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم تھی مگر منگلا ڈیم کی تعمیر کے دنوں میں یک دم ہم لوگ یہاں سیلاب کے پانی کی طرح داخل ہوئے اور اب یہ حال ہے کہ لندن‘ برمنگھم‘ مانچسٹر‘ بریڈ فورڈ اور گلاسگو سمیت شائد ہی اس ملک کا کوئی ایسا حصہ ہو جہاں پاکستانی کمیونٹی کی واضح موجودگی نہ ہو۔

ان آباد کاروں میں ہر طرح کے لوگ ہیں لیکن امریکا کی نسبت یہاں تعلیم یافتہ پاکستانیوں کی اوسط واضح طور پر کم ہے۔ اس کے باوجود مذہب‘ خیرات اور شعر و ادب کے حوالے سے ترتیب دی جانے والی تقریبات کی رونق روز افزوں ہے۔ یہاں مقیم پاکستانی یا پاکستانی نژاد دوسری اور تیسری نسل کے لوگ وطن عزیز میں ہونے والی ہر کارروائی سے نہ صرف واقف اور آشنا رہتے ہیں بلکہ ہر مشکل یا تعمیری کام میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہاں کی حکومت کو بھی اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کو ترویج دینے والی کارروائیوں سے قطع نظر کسی قسم کے اصلاحی اور خیراتی عمل پر کوئی پابندی نہیں لگاتی اور نہ صرف ملک کے اندر مختلف قومیتوں اور تہذیبوں کی مخصوص ضروریات کا خیال رکھتی ہے بلکہ اس حوالے سے انھیں اپنے چھوڑے ہوئے وطن کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے سے بھی نہیں روکتی۔

الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان اور UKIM کے اشتراک سے پنڈی اور مری کے درمیانی راستے کے وسط میں ’’آغوش سینٹر‘‘ کے قیام اور تعمیر سے متعلق اخراجات کی فراہمی کے لیے یہ موجودہ فنڈریزنگ مہم بھی اسی سلسلے کی ایک کی کڑی ہے۔ UKIM نے ہمارے سفر‘ قیام و طعام اور جلسہ نما مشاعروں کا انتظام بہت خوش اسلوبی اور حسن نیت سے کیا ہے۔ لیکن اس نوع کا پہلا منصوبہ ہونے کی وجہ سے بعض کام ناتجربہ کاری کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ سب لوگ اپنے اپنے تجربات سے کچھ نہ کچھ سیکھیں گے۔ UKIM کے والنٹیئر اور ہمارے سہولت کار راجہ قیوم کی معاونت اور حسن انتظام سے ہر آنے والے دن میں حالات بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس سفر کی روداد اور مقامی پاکستانیوں کے اہم مسائل پر انشاء اللہ آیندہ تین چار کالموں میں بات ہوتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔