جسم لطیف کی پرواز

شبنم گل  جمعرات 1 دسمبر 2016
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

طبعی زندگی کے ساتھ، غیر محسوس دنیا ساتھ چلتی ہے، یہ تصور واحساس کی وسیع دنیا ہے، اگر انسان کے پاس تصوراتی طاقت نہ ہوتی تو آج زندگی محدود اور بے رنگ ہوتی۔ انیسویں صدی نے وجود، زندگی اورکائنات کے حوالے سے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا۔ بہت سے پراسرار علوم دریافت ہوئے، جن کا محرک خیال کی گہرائی ہے۔ ان علوم میں مستقبل بینی، غیب بینی، ٹیلی پیتھی (عمل تنویم) خوابوں کا علم، جسم لطیف کی پرواز وغیرہ شامل ہیں۔کوانٹم فزکس اور مابعد از نفسیات جیسے منفرد شعبوں میں بے پناہ پیشرفت ہوئی، لاما، یوگی، راہب وصوفی ابدی سچ کو ڈھونڈتے رہے۔ کوئی سوچ کے داخلی زاویے سے کائنات کی تہہ تک اترا توکہیں خارجی دنیا کی حقائق و منطقی سوچ نے ترتیب وتوازن کے اصول وضع کیے۔

انسان بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل میں سفرکرتا رہتا ہے۔ خیال کی پرواز کے ذریعے وہ مختلف ادوار میں پہنچ جاتا ہے۔ کبھی ماضی کے لمحوں کا کھوج لگاتا ہے توکبھی مستقبل کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگتا ہے۔ یہ سفر وہ حال (لمحہ موجود) میں رہتے ہوئے طے کرتا ہے۔ لہٰذا وقت اکائی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وقت کی آگہی کے عرفان سے ملتا ہے۔ وقت اور واقعات کا ازخود ادراک، سوچ کو پڑھ لینا، ذہنی پیغام رسانی، ذہنی قوت سے طبعی دنیا کو تسخیر کرنا جدید علوم کی صورتیں ہیں۔

مابعد از نفسیات نے extra sensory perception (غیر معمولی حسیاتی سوچ) کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جسے چھٹی حس کہا جاتا ہے۔ ماہر نفسیات J.B Rhine نے اس ضمن میں ٹیلی پیتھی (عمل تنویم) سے لے کر پیرا نارمل (ورائے طبعی) تک مختلف مخفی زاویوں کو متعارف کروایا جنھیں سائنس مسترد کرچکی ہے کیونکہ یہ علوم ٹھوس تجربے کی بنیاد پر نہیں بلکہ حسیاتی محرکات (سوچ سمجھ، سوجھ بوجھ) کی بنیاد پر دریافت کیے جاتے ہیں۔ ہالی وڈ نے اس موضوع پر کافی فلمیں بنائی ہیں۔ اسٹار وارز، آئرن مین سے لے کر ڈاکٹر اسٹرینج تک لاتعداد فلمیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ گزشتہ مہینے ریلیز ہونے والی فلم ڈاکٹر اسٹرینج میں ڈاکٹر اسٹینن اسٹرینج کو ضدی اور انا پرست سرجن دکھایا گیا ہے۔

ایک حادثے میں سرجن کے ہاتھوں میں لرزش پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کی بنا پر وہ اپنا کیریئر کھو دیتا ہے۔ مگر ایک اپاہج شخص جوناتھن کو چلتے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے جسے وہ لاعلاج قرار دے چکا ہوتا ہے۔ جواب میں اسے کھٹمنڈو نیپال کا پتہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر اسٹرینج اس پتے پر کھٹمنڈو پہنچتا ہے جہاں پراسرار علوم کی ماہر مورڈو اسے جسم مثالی اور مرر ڈائمینشن کے بارے میں آگاہ کرتی ہے۔مورڈو ڈاکٹر اسٹرینج کو یہ بات سمجھاتی ہے کہ انسان ان کے جال میں الجھ کر ابدی سچ کو نہیں پاسکتا۔ حق و باطل کی جنگ کو Psychedelic Effect (فعال نفسی) کے ساتھ مہارت سے اجاگرکیا گیا ہے۔ جس کے مطابق نشے کے عادی افراد لوگوں کو ہیلونیسیشن (وہم و پرفریب خیال) کی وجہ سے عجیب چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔

ان واہمہ زا ادویات کی وجہ سے، ان کے ذہن کا تخیل کشادہ ہوجاتا ہے اور انسان حقائق سے دور چلا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسی کیفیت میں کولرج نے شہرہ آفاق نظم قبلائی خان تخلیق کی تھی۔ فعال نفسی پر مبنی تیز رنگ اور موسیقی انسانی ذہن اور مزاج کو متحرک کردیتی ہے اور تصور کی بند دنیا کے دروازے وا ہوجاتے ہیں۔ گوکہ تصور اور منطق کے بیچ جنگ ازل سے جاری ہے مگر دنیا کا بہترین ادب تصوراتی اڑان پر مبنی ہے۔ ادب کا بہت بڑا حصہ ہیلوسی نیشن کے پس منظر میں تخلیق کیا گیا۔ سائیکیڈیلک لفظ برطانیہ کے ماہر نفسیات Humphry Osmondنے ایجاد کیا تھا۔ جس کا مطلب Mind Manifesting (ذہنی تصریح) ہے۔ لہٰذا سائیکیڈیلک گیم ہو یا رنگ ذہن پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ بچوں یا نوجوانوں کو حقائق سے دور لے جاتے ہیں۔

جب کہ سائنس فکشن فلمیں، ٹین ایجرز کی تصوراتی قوت میں اضافہ کرتی ہیں۔ انھیں اخلاقی طور پر مضبوط کرتی ہیں، کیونکہ ان فلموں میں مثبت سوچ اور اخلاقی پہلو موجود ہوتا ہے۔ ان فلموں کے دیکھنے سے جسم کا کیمیائی عمل بدل جاتا ہے۔ Adrenaline اور Cortisol کا تناسب جسم میں بڑھ جاتا ہے۔ ایڈرنیلن جسم کا اسٹریس کیمیکل ہے۔ اس کا تیز اخراج دل کی دھڑکن میں اضافہ کرتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق، ذہنی تناؤ یا پریشانی میں گھرے ہوئے افراد میں، ماورائی خیال یا سائنس فکشن فلمیں، جسم کے اس ہارمون کو تحرک میں لے آتی ہیں۔

جس کا ذہن و جسم پر اچھا اثر مرتب ہوتا ہے۔ خون میں موجود سفید اجزا میں تحرک اور روانی آجاتی ہے۔ یہ سفید اجزا وائرس، بیکٹیریا سے لڑنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ایک لحاظ سے جوش اور تحرک انسان کو خوش اور فعال رکھتا ہے۔ یہ تحرک، زندگی میں دلچسپی لینے کی وجہ بنتا ہے۔ ایک لحاظ سے 2D یا 3D فلموں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ ان میں شایقین محو ہوجاتے ہیں، مگر ان کے مضر اثرات بھی ہیں۔ جن کیفیات میں سر درد، چکر آنا یا متلی کی کیفیت وغیرہ شامل ہیں جو لوگ مستقل اس طرح کی فلمیں دیکھتے ہیں اور تھری ڈی گلاسز استعمال کرتے ہیں انھیں صحت کے مسائل لاحق ہوسکتے ہیں خاص طور پر بصارت متاثر ہوسکتی ہے۔

جدید فلموں میں ایسٹرل پروجیکشن (جسم مثالی کی منتقلی یا سفر) ایسے موضوعات ہیں، جو لوگوں کا دھیان اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر کرنگٹن نے اپنی کتاب Projection of the Astral Body میں کئی لوگوں کا حوالہ دیا ہے جو جسم لطیف کے سفر کے عادی تھے۔ علاوہ ازیں اس موضوع پر کئی مصنفین نے کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں لیڈبیٹر، اینی بسنت، آرتھر۔ای۔پاویل شامل ہیں۔ دنیائے ایثر (کاسمک یا آسٹرل ورلڈ) دکھائی نہیں دیتے۔ روحانی ماہر و مصنف اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’حساس دماغ دو طرح کے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق ایثر سے کسی قسم کی ریاضت و عبادت کے ذریعے قائم ہوجاتا ہے۔ اور دوسری صورت میں برسوں کی ریاضت و عبادت کے بعد رابطہ ممکن ہو پاتا ہے۔‘‘ انسانی خیال سفر کرسکتا ہے۔ لہٰذا خیال کے ساتھ جسم لطیف بھی ایک ماحول سے دوسرے مقام تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

ہم گھر میں بیٹھے ہوئے سمندرکی سیر کرسکتے ہیں۔ لہٰذا سوچ کے سفر کے مختلف زاویے ہیں۔ یہ انسانی تصور کی قوت ہے، جو اسے زمان و مکان کی قید سے آزاد کردیتی ہے۔ منظر تیزی سے بدل جاتے ہیں۔ جب ہم آگے نکل جاتے ہیں تو بھی وہ مناظر اپنی جگہ پر موجود رہتے ہیں۔ نگاہ سے اوجھل ہونے سے چیزوں کی حقیقت نہیں بدلتی۔ ذہن کی تخلیقی طاقت اثیری پیغامات کی حامل ہوتی ہے۔ مثال آپ کسی سے محبت کرتے ہیں۔ وہ آپ سے بہت دور ہو۔ کسی اور ملک میں رہتا ہو، مگر آپ کا خیال یا سوچ اس کے اردگرد گھومتی رہے گی۔ اس کا دکھ یا تکلیف ازخود محسوس کرتے رہیں گے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ماں کا خیال یا سوچ ہے۔ جس خیال کے پیچھے شدید جذبہ کارفرما ہو، وہ رابطے کا ہنر دریافت کرلیتا ہے۔

خیال کی یکسوئی اور مرکز، کرشمہ ہیں۔ منفی یا مثبت خیال دونوں اپنی جگہ طاقتور ہیں۔ منفی خیال جسم کو محصور کردیتا ہے جب کہ مثبت خیال روح کو بے کراں،اگر خیال کو صحیح سمت مل جائے تو بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ تمام تر مخفی علوم خیال کی وحدت کے اردگرد گھومتے ہیں۔ سوچ یا خیال کی یکسوئی اور سچائی انہونی کو ہونی میں بدل دیتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیماری یا کسی حادثے کے وقت بہت سے لوگ جسم لطیف کی پرواز کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔

جدید علاج کے حوالے سے وژیولائزیشن تکنیک ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں تصور کے ذریعے آپ کسی باغ، دریا کے کنارے یا کسی پرفضا مقام کی سیر کرسکتے ہیں اور اس خوبصورت ماحول سے تازگی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مضبوط تصوراتی طاقت کے حامل افراد جسم لطیف کی پرواز کے انوکھے سفرکی طرف نکل سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔