ملکی سیاست میں اتار چڑھاؤ

ایڈیٹوریل  جمعرات 1 دسمبر 2016
 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

بڑے عرصہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’پرانی سیاست گری خوار ہے ، زمیں میر و سلطان سے بیزار ہے‘‘ جیسی صورتحال ابھرتی نظر آرہی ہے ۔ سیاسی موسم بدلنا شروع ہوگیا ہے، ایک طرف امکانی طور پر جمہوری عمل اور انصاف و قانون کے وسیع تر ادارہ جاتی تناظر میں ملک ایک فیصلہ کن موڑ پر آپہنچا ہے جہاں ملکی سیاسی تعمیر میں مضمر جملہ انتظامی ، معاشی اور سماجی خرابیوں کی اصلاح کی قوم کو ایک نوید ملنے والی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پانامہ لیکس کے حوالے سے دائر کئی درخواستوں کی سماعت کررہی ہے۔

جس میں وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو پانامہ لیکس کیس میں اپنی شفاف ، فالٹ فری اور بے داغ حکمرانی اور مالیاتی ٹرانزیکشنزکو ثابت کرنے کی ایک بڑی آزمائش کا سامنا ہے ، پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، عوامی مسلم لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے درخواستیں دی ہیں ان سب کی سماعت ہو رہی ہے ، قوم عدلیہ کے ذمے ایک تاریخ ساز کردار کی ادائیگی اور ایک سنگ میل فیصلہ کی منتظر دکھائی دیتی ہے ، اس سارے عمل میں ایک منطقی تسلسل ہے ،کہیں کوئی شور شرابا اور عدم اعتماد کی لہر نہیں ، ہر شخص مسلمہ جمہوری اور عدالتی پراسیس کی روشنی میں کسی امید افزا نتیجہ کی فکر میں ہے، بادی النظر میں کوئی بحرانی کیفیت کا شائبہ تک نہیں ملتا اگرچہ میڈیا میں ہنگامہ سا ہے برپا مگر یوں لگتا ہے کہ ملکی افق پر ایک نئے سیاسی موسم کی نوید ملنے والی ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سپریم کورٹ میں متحرک نظر آئے ، مسرور تھے کہ ان کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل نے کیس میں جان ڈال دی ہے ، عمران نے استعارتاً یہ تک کہہ دیا کہ ان کی نظر میں کیس ختم ہوگیا۔ بلاشبہ کیس زیر سماعت ہے ،کسی قسم کی رائے زنی یا پیشگی تبصرہ کی کوئی گنجائش نہیں، عدلیہ کے ریمارکس صائب تھے جن سے کئی قانونی الجھنیں حل ہونگی ، جب کہ سب سے اہم بات سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں تیزی ہے، عدالتی و قانونی اور سیاسی و جمہوری عمل کے تناظر میں آیندہ انتخابات کی تیاری بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے جو خوش آیند ہے۔ پی ٹی آئی کے دھرنے اور لاک آؤٹ سے سیاسی تھر تھلی مچی جس کی جمود شکن سیاسی لہر نے پی پی سمیت دوسری جماعتوں کو بھی الرٹ کردیا ہے کہ وقت بہت کم ہے، اس لیے نئی سیاسی و انتخابی صف بندی ضروری ہے ان کے لیے آیندہ الیکشن ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلاول ہاؤس لاہور میں پیپلز پارٹی کے 49 ویں یوم تاسیس کی مرکزی تقریب سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر اپنے چار مطالبات دہراتے ہوئے کہا ہے کہ میاں صاحب 27دسمبر زیادہ دور نہیں ہمارے مطالبات مان لیں ورنہ سب مل کر جمہوری طریقے سے تخت رائے ونڈ کی آمریت کو گرائیں گے، آیندہ عام انتخابات میں دھاندلی نہیں ہونے دیں گے ، پی پی ایک نیا منشور اور نیا ایجنڈا لے کر آئے گی جو پاکستان کے لیے مکمل عملی وترقی پسندانہ پلیٹ فارم فراہم کریگا، انھوں نے پارلیمنٹ کو طاقت دینے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بات کی۔ ادھر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود کمیشن آف انکوائری بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

بل ارتعاش انگیز ثابت ہوا جس کے تحت مفاد عامہ کی اہمیت کے پیش نظر کسی بھی خاص معاملے کی انکوائری کا انعقاد کرانا ہو تو وفاقی حکومت سرکاری اعلامیہ کے ذریعے اس ایکٹ کی شرائط کی مطابقت میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے سکے گی۔ میڈیا کے مطابق وفاقی حکومت کو کمیشن قائم کرنے اور اس کے ارکان کی تقرری کا اختیار ہوگا۔ تاہم زاہد حامد نے جب بل ایوان میں پیش کیا تو اپوزیشن ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔ پیپلزپارٹی کے اعجاز حسین جاکھرانی نے کہا آپ پھر آمر اور بادشاہ بننے جا رہے ہیں، ایک کیس عدالت عظمیٰ میں چل رہا ہے اور آپ اس عدالت عظمیٰ کی کارروائی سے بچنے کے لیے یہ متنازعہ بل پاس کرا لیتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد میڈیا میں فریقین کے سیاسی رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف بھی خوب عدالتیں لگائیں اور میڈیا ٹرائل کا سماں پیدا کیا ، اس معاملہ میں  بھی دو مکاتب فکر سامنے آئے جس میں ایک انداز نظر عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہائی پروفائل کیس کے متوازی غیظ وغضب سے لبریزمیڈیا کی پرشور اور بے ہنگم بحث سے گریزکا مشورہ تھا جب کہ دوسری جانب اسے آزادی اظہار اور عدلیہ کی فعالیت ، شفافیت کے جمہوری اور میڈیا کے ناگزیر مظہر کے طور پر جاری رکھنے کی دلیل دی گئی ، اس لیے جمہوری عمل کے تسلسل کے پیش نظر اسے بھی ملکی سیاست و عدلیہ کے نئے باب میں تاریخی پیش رفت کا مقام حاصل ہوگیا ہے، دوسری جانب اسے سیاسی رواداری ، پارلیمانی اور عدالتی کلچر کے خوش آیند تجربے کا نام دیا گیا ہے۔ اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نوازشریف کے ایک تہنیتی فون کال پر ایسی غیر متوقع بات کہہ دی ۔

جس کا ان کے پورے انتخابی مہم کے فسانے میں ذکر نہ تھا ، میڈیا کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹیلیفون کر کے دورہ پاکستان کی دعوت دی تو ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان جیسے شاندار ملک کا دورہ کرنا چاہیں گے اور موجودہ مسائل کے حل کے لیے پاکستان کی مرضی کے مطابق ہر ممکن کردار ادا کرنے کو بھی تیار ہیں ،دریں اثنا امریکی ذرایع ابلاغ نے پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جمہوریت پسند قرار دیتے ہوئے ان کا زبردست خیرمقدم کیا ہے اور سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف کو ملک میں امن کی بحالی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قائدانہ کردار اور ان کے پروفیشنلزم پر زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالہ سے پاکستان کے استحکام پر اپنے یقین کا اظہار کیا۔

حقیقت میں پاکستان کی کثیر جہتی سیاسی ، عدالتی و اقتصادی پیش قدمی پر عالمی قوتوں کا اعتبار بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اب ضرورت ایک بے مثال سیاسی اشتراک عمل اور جمہوری رویوں کی استقامت اور رواداری کا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کے منتظر عوام بھی ہیں اور وہ جمہوری ممالک بھی جو خطے میں معاشی طور پر مستحکم اور سیاسی اعتبار سے متحرک و فعال پاکستان کے نئے تزویراتی کردار کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔