میں سونیا گاندھی سے متفق نہیں!

کلدیپ نئیر  جمعرات 1 دسمبر 2016

کاش کہ میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے اس بیان سے اتفاق کر سکتا کہ ان کی ساس مسز اندرا گاندھی کے کردار کی سب سے نمایاں خوبی ان کی شفقت اور ہمدردی تھی۔ جو انسان شخصی آزادی کو اولین اہمیت دیتا ہو وہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں نہیں ڈال سکتا جیسا کہ مسز گاندھی نے 1975ء کی ایمرجنسی کے دوران کیا، نہ صرف یہ کہ اندرا نے پریس کا گلا گھونٹ دیا بلکہ معاشرے کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ صحیح اور غلط ، اخلاقی اور غیر اخلاقی کے درمیان جو باریک سا خط امتیاز ہوتا ہے وہ بالکل ہی معدوم ہو کر رہ گیا۔

یہ درست ہے کہ اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کے لیے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ سونیا گاندھی نے ٹیلی ویژن پر راجدیپ سرڈیسائی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس وقت کی وزیراعظم نے انھیں کھانے کی میز پر بتایا تھا کہ بنگلہ دیش میں لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

شاید بنگلہ دیش کو پاکستان سے توڑنا ہی اندرا کا سب سے بڑا کارنامہ تھا جس پر اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے اندرا کو درگا دیوی کا خطاب دیا کہ جس نے پاکستان کو تقسیم کر دیا۔ اس کے بعد مشرق کی جانب سے بھارت پر حملے کا خطرہ ختم ہو گیا البتہ یہ حقیقت بدستور موجود ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے فارمولے میں پاکستان کے مشرقی اور مغربی دو بازئوں کو تسلیم کیا گیا تھا۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کی علیحدگی پر بھارت کو کبھی معاف نہیں کیا حالانکہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ مغربی پاکستان نے بنگلہ دیشیوں سے دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کیا۔ ممکن ہے یہی اصل وجہ ہو کہ بنگلہ دیشی علیحدگی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

ان دنوں مسز گاندھی کی 100 ویں سالگرہ کی تقریبات منائی جا رہی ہیں۔ اس موقع پر اندرا کے بارے میں دو چیزیں یاد رکھی جانی چاہئیں جن میں ایک قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت ہے۔ پہلی کا تعلق بنگلہ دیش کی آزادی سے ہے جب کہ دوسری کا تعلق اندرا کی ایمرجنسی سے ہے۔ راجدیپ کے ساتھ انٹرویو سے پہلے اس بات پر اتفاق کر لیا گیا تھا کہ راجدیپ سونیا سے ایمرجنسی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرے گا۔ ایک مرتبہ اس نے باتوں میں سنجے گاندھی کا ذکر کرنے کی کوشش کی لیکن سونیا نے اس کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ یہ انٹرویو اندرا گاندھی کے بارے میں ہے۔ سونیا نے وزیراعظم نریندر مودی کا اندرا گاندھی سے موازنہ کرنے سے انکار کر دیا بس اتنا کہا کہ وہ دونوں مختلف انسان تھے۔ اگرچہ راجدیپ نے یہی سوال دوبارہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن سونیا نے پھر اس کو خاموش کرا دیا۔

ایک وقت تھا جب خود میرے مسز گاندھی کے ساتھ ذاتی تعلقات تھے۔ میری ان سے ملاقات ہوئی جب اس وقت کے وزیر داخلہ لال بہادر شاستری سٹیزن کمیٹی کے رکن تھے جو جواہر لعل نہرو نے اندرا کی زیر قیادت عوام کا حوصلہ بحال کرنے کے لیے تشکیل دی تھی کیونکہ 1962ء میں چین سے شکست کے بعد بھارتی عوام بہت کبیدہ خاطر ہو گئے تھے۔ اگرچہ میں محض ایک انفارمیشن افسر تھا لیکن اندرا گاندھی سب لوگوں سے برابر کا سلوک کرتی تھیں۔

میرے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایمرجنسی کے دوران اس نے مجھے گرفتار کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کی۔ اپنی گرفتاری کے بعد میں اندرا سے پھر کبھی نہیں ملا اگرچہ ان کی طرف سے میرے ساتھ ملاقات کے اشارے بھی ملتے رہے تھے لیکن مجھے اپنی گرفتاری کا اسقدر رنج تھا کہ میں نے ملاقات کی خواہش ہی نہیں کی۔ اندرا کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کی پوری کابینہ میں اگر کوئی صحیح معنوں میں ’’مرد‘‘ ہے تو وہ اندرا ہی ہے۔ وہ خاصی ہٹ دھرم تھیں اور اپنے احکامات کے بارے میں بہت واضح تھیں جب کہ ایمرجنسی ان کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی اور اس وقت کے مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ سدھارتھ شنکر رائے نے زبردستی لگوائی تھی۔

غالباً اندرا نے سوچا ہو گا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے اس کی برطرفی کے فیصلے سے بچنے کا یہی واحد طریقہ تھا۔ بلاشبہ انتخابی دھاندلی کے خلاف یہ بڑا سخت فیصلہ تھا لیکن بہرحال یہ عدالت عالیہ کا فیصلہ تھا جس کی تکریم کی جانی چاہیے تھی۔ اندرا نے نہ صرف آئین معطل کر دیا بلکہ جمہوری حکومت کو بھی مطلق العنانی میں بدل دیا۔ ساری پارلیمنٹ خوف زدہ ہو گئی اور اسی ڈر کے مارے انھوں نے ایمرجنسی کی توثیق کر دی حالانکہ نجی محفلوں میں وہ اندرا پر سخت تنقید کرتے تھے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوس ناک کردار میڈیا کا تھا۔

مجھے یاد ہے جب ایمرجنسی نافذ کی گئی تو میرے بلانے پر ایک سو سے زیادہ صحافی پریس کلب میں اکٹھے ہو گئے تا کہ اس کی مذمت کی جا سکے۔ لیکن جب اپنی تین ماہ کی قید سے رہائی پر  میں نے ایمرجنسی کی مذمت کا پروگرام بنایا تو میری مدد کے لیے کوئی ایک بھی نہ آیا۔ اندرا گاندھی نے صحافیوں کے ذہنوں پر اسقدر خوف طاری کر دیا تھا کہ انھیں آزادی صحافت کا سبق بھول چکا تھا اور انھیں اپنی نوکریوں کی فکر پڑ گئی تھی۔

آج کانگریس پارٹی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاندانی سیاست میں مقید ہو چکی ہے جب کہ عوام کو اب کانگریس کی خاندانی سیاست میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ راہول گاندھی کی عوام کے نزدیک کوئی خاص کشش نہیں حالانکہ وہ دیانتداری سے کانگریس کے انھی اصولوں کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کے پرنانا جواہر لعل نہرو نے وضع کیے تھے۔ سونیا گاندھی کی بیٹی پریانکا جب جلسہ کرتی ہے تو عوام کی بڑی تعداد اسے سننے آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس سے انھیں اندرا گاندھی یاد آ جاتی ہیں جو کہ عوام کے ذہن میں ابھی تک زندہ ہیں۔ یہ ساری باتیں درست ہیں لیکن اب کانگریس موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتی اور کانگریس کو ایک متبادل قیادت بننے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہو گی۔

وزیراعظم نریندر مودی کرنسی نوٹوں کو منسوخ کرنے کے باوجود ابھی تک عوام کے لیے قابل قبول ہیں اگرچہ اس سے عوام کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن پھر بھی وہ یہ سوچتے ہیں کہ شاید یہ ان کی بہتری کے لیے کیا گیا ہے۔ کانگریس اگر بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسے بڑا کٹھن اور طویل فاصلہ طے کرنا ہو گا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیکولر ازم اب اتنا پرکشش نظریہ نہیں رہا جتنا کہ یہ کبھی تھا۔ اب عام لوگ بھی ہندوتوا کے فلسفے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج پورے ملک میں ایک نرم قسم کا ہندوتوا پہلے ہی چھا چکا ہے۔ اور اگر کانگریس سیکولرازم کا نظریہ دوبارہ پھیلانے کی کوشش کرے گی تو یہ بہت کٹھن کام ہو گا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آنندبھون میں ٹی وی انٹرویو دیتے وقت سونیا گاندھی نے اندرا کی شفقت اور انسانی ہمدردی کی بات کی ہے گویا ایک لحاظ سے سونیا نے اتر پردیش کے انتخابات کے لیے کانگریس نے پارٹی پروگرام کی وضاحت کی ہے لیکن اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مختلف پارٹیاں ریاستی انتخابات میں کانگریس کا کتنا ساتھ دیتی ہیں جس سے 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات پر اثرات کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ پارٹی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک اس نے کوئی انتخاب نہیں جیتا حتیٰ کہ مہاراشٹر کے انتخابی نتائج میں بھی بی جے پی کانگریس سے آگے ہے۔ گجرات میں تو اسے واضح اکثریت حاصل ہو چکی ہے جو سیکولر اور لبرل قوتوں کے لیے تشویش کا مقام ہے۔ بی جے پی اوپر جا رہی ہے اور کانگریس نیچے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔