پاکستان کا مطلب کیا؟

احسن اعوان  جمعـء 21 دسمبر 2012

ملکوں اور قوموں کے معاملات سے نمٹنے کا انداز ان کے مفادات کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے، ریاستوں سے تعلقات ہوں یا کسی موضوع کا ردعمل، قومیں اپنی بنیادی نظریاتی حیثیت تبدیل کیے بغیر اپنے موقف کو مفادات کی خاطر بدلتی رہتی ہیں مگر جو چیز ہمیشہ یکساں اہمیت کی حامل رہتی ہے، وہ بنیادی مرکز ہوا کرتا ہے جس پر متفق ہوکر ہی منتشر افراد کا گروہ ’’قوم‘‘ کی شکل حاصل کرتا ہے۔

اس کو تبدیل کرنا قوم کی موت ہوا کرتی ہے اور اس کی مضبوطی قوموں کی سربلندی کا مظہر بن جایا کرتی ہے۔ پاکستانی قوم نے قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد 60 برس تو یہی سبق سنا اور پڑھا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ لیکن اب بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کا مطلب محض پڑھنا لکھنا ہی ہے، گویا براہ راست نظریہ پاکستان پر حملہ ہے۔ یقیناً پڑھنا لکھنا ضروری ہے مگر ملکی نظریات کو تقویت دینے کے لیے نہ کہ ان پر حملہ کرنے کے لیے، دلیل کے طور پر میں سوال کرتا ہوں کہ 1947 میں ریاست کے قیام کے وقت کتنے پاکستانی پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور اب ان کی تعداد کیا ہے۔ پاکستان کا نیا مطلب تلاشنے والوں نے بیرونی کرم فرماؤں کی خوشی کے لیے ایک اور انداز نظر متعارف کرایا۔

جس میں عوام الناس کو آگاہ کیا گیا کہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ کی اصطلاح یحییٰ خان کے دور میں ان کے وزیر اطلاعات شیر علی نے ایجاد کی تاہم اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا کہ وہ کون تھا جس نے پہلی بار پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ لگایا یہ نعرہ مسلمانان برصغیر کے اجماع کا عکاس بن کر ابھرا۔ وہ جملہ جسے اس وقت کی تاج برطانیہ کی ایڈ روک سکی تھی نہ آج کی یو ایس ایڈ روک پائے گی۔ تعلیم کی اہمیت آشکار کرنے سے قبل مغل بادشاہوں کی پرتعیش زندگی ان کے محلوں، ان کی بنائی ہوئی عمارتوں وغیرہ کا حوالہ دے کر امریکا اور برطانیہ سے موازنہ کیا جاتا ہے جس وقت مغل بادشاہ ہرن مینار بنارہے تھے تو فلاں ملک میں اتنی رقم سے یونیورسٹی بن رہی تھیں اور بار بار پاکستان کا موازنہ بھارت سے کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں صرف ڈیڑھ سو یونیورسٹیاں ہیں جب کہ بھارت میں سیکڑوں۔

اگر آبادی اور رقبے کا جائزہ لیں تو یقینا بھارت میں ہزاروں جامعات ہونی چاہیے تھیں۔ کہاں18 کروڑ کہاں سوا ارب اتنا فرق ہوگا تو تعلیمی ادارے بھی زیادہ ہی ہونے چاہئیں۔ اگر یہ موازنہ یوں کیا جائے کہ پاکستان میں 4 کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں تو بھارت میں یہ تعداد 12 کروڑ ہے۔ پاکستان میں 5 لاکھ افراد فٹ پاتھ پر سوتے ہیں تو بھارت میں ایسے افراد کی تعداد 2 کروڑ ہے جو ساری زندگی سڑک پر ہی گزار دیتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ 100 قتل ہوتے ہیں تو بھارت میں 2000 قتل ہوتے ہیں۔ اس بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ مغلوں نے عیاشی کے سوا اور کچھ نہیں کیا، مقبرے اور عمارتیں تعمیر کروائیں۔ یہ بات سنانے والا بھول جاتا ہے کہ ہمایوں بادشاہ کسی عیاشی کے اڈے سے گر کر نہیں مرا تھا، اس کی لائبریری تھی اور رسدگاہ تھی وہاں وہ میوزیکل فنکشن نہیں کرتا تھا بلکہ فلکیات کا ماہر تھا۔ اس نے ہندوستان میں ایرانی فنکاروں کو متعارف کرایا اور ان کے فن پارے آج بھی مغل فن کے نام سے جاری کیے جاتے ہیں۔ جلال الدین محمد اکبر سے لاکھ اختلاف کریں لیکن اس نے پورے ہندوستان میں سول اور فوجی نظام رائج کیا جسے معصبداری نظام کہتے ہیں جو آج بھی ہندوستان میں جاری ہے۔

اسی اکبر نے ہندوستان میں اوزان پیمائش کا معیار مقرر کیا اور اس نے ہندوستان میں ٹیکس کا نظام وضع کیا اور نافذ کیا اور باقاعدہ پولیس فورس بھی اسی دور میں ہندوستان میں منظم کی گئی۔ آج جس دام میں آپ خود گرفتار ہیں اور ہمیں بھی پھنسانا چاہتے ہیں ایسی ہی سازش اکبر کے ساتھ بھی کی گئی، ان کی سات میں سے ایک شادی جے پور کی ہندو رانی سے ہوئی تھی جس نے اس کے مذہب کو برباد کیا۔ انتظام سلطنت کے حوالے سے ایک اور مثال دی جاتی ہے کہ اکبر نے آگرہ (اکبرآباد) میں ساڑھے سات مربع کلومیٹر کے رقبے پر دارالحکومت قائم کیا تھا جو ساڑھے چار سو سال بعد بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ انگریز کیا کرتا تھا کتنے کالوں کو قتل کیا کتنی جنگیں لڑیں، کتنے کروڑ افراد مرے اور جدید صلیبی جنگوں میں ان کا طریقہ کار کیا ہے۔

اگر لوگوں کے پاس فرصت، ضمیر اور ہمارے پاس تحقیق کے ذرایع اور مواقع ہوں تو مزید بہت کچھ بتا سکتے ہیں۔ یہ معلومات تو انٹرنیٹ پر یوں ہی بکھری پڑی ہیں، انھیں پڑھیے اور ذرا سوچیے، اس طرز فکر والے اس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ چنانچہ ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں ذرا سوچیے طرز فکر کا ایک مختصر پیرایہ جو ان کی فکر کے نفاذ کا نمونہ ہے، اورنگ زیب عالمگیر رواداری سے عاری ایک شخص تھا اس نے موسیقی پر پابندی لگائی، اس نے مغل فن تعمیر کا خاتمہ کردیا تھا، آرٹ و کلچر کو روک دیا تھا۔ اس کے دور میں سر عام (مجرموں کو) سزائیں سنائی جاتی تھیں۔ اس کے دور میں سکھ اور ہندو (سازشی) خوفزدہ تھے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر اس پیراگراف کو آگے بڑھایا جائے تو یوں لکھا جانا چاہیے کہ ’’اورنگ زیب عالمگیر بہت خراب آدمی تھا۔ اپنے زمانے کا ہٹلر، صدام حسین، اسامہ بن لادن اور بیت اللہ محسود تھا۔ اس کے خلاف ساری دنیا کو اتحادی بن کر ’’کروسیڈ‘‘ کرنا چاہیے تھا۔

پاکستان میں کسی بھی اسکول کی کم سے کم فیس 250 روپے، کاپیاں 25 روپے سے 100 روپے تک، پینسل 5 روپے کی اور اچھی والی 10 کی، ربڑ 5 روپے، اچھا والا 15 کا، یونیفارم ہزار روپے کا، جوتے 500 کے آنا جانا رکشے ویگن یا وین میں اس کے الگ پیسے، یہ تو غریب کی بات ہو رہی ہے۔ یہ کسی بڑے اسکول کی نہیں تو پھر ذرا سوچیے موبائل کا پیکیج سستا۔ 7 روپے یا 5 روپے میں ساری رات بات اتنے میں ایک پنسل آتی ہے۔ تو جناب پیکیج سستے تعلیم مہنگی، اور پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا؟ اب سوچنے والا خود ہی سوچے! مسلمان بادشاہوں کے کارنامے جانے دیں محض ان کی تعلیم دوستی کی کچھ مثالیں حاضر خدمت ہیں۔ بغداد، بخارا، سمرقند، قرطبہ نے کئی علوم کی بنیاد فراہم کی جن سمتوں پر چل کر آج یورپ نے ترقی کی۔ برصغیر میں مسلم حکمرانوں نے انسان کو انسان کا مقام عطا کیا، سفاکیت اور جاہلیت سے بھرے ہندو معاشرے کو آگرہ اور دہلی کی تہذیبیں عطا کیں۔ ایک وقت میں دہلی میں ایک ہزار کالج تھے۔ آگرہ کے کئی تعلیمی اداروں میں بیرون ملک سے آئے ہوئے اسکالرز پڑھاتے تھے۔

اس حوالے سے بھی سوچیے۔ شیر شاہ سوری نے وہ نہری نظام متعارف کروایا جو آج بھی دنیا کا بہترین نظام کہلاتا ہے۔ ڈھاکا سے پشاور تک، آگرہ سے برہان پور تک آگرہ سے جودھپور تک اور لاہور سے ملتان تک شاہراہیں بنوائیں اور زمین کا ایسا بندوبست کیا جو آج تک رائج ہے۔ مغلوں کے آخری دور میں نجیب الدولہ کے پاس نو سو علما تھے اور جس وقت مسلمان حکمران یہ کر رہے تھے اس وقت یورپ بھکاریوں سے بھرا ہوا تھا اور جرائم عام تھے۔ آخر میں محض اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا کہ سوچنے کی باتوں پر غور کیجیے اور ان کا حل نکال کر قوم کے سامنے لائیے، قانون کے نفاذ میں حائل رکاوٹوں کو سوچیے، نوجوانوں پر موبائل عشق اور پیکجز کا سوچیے، ان کے ذہنوں پر پڑوسی ملک کی ثقافتی جنگ کے پڑنے والے اثر کا سوچیے، خدارا! یاد کیجیے اس ملک کی نظریاتی اساس لاکھوں جانوں کی امانت ہے، میں، آپ، ہم سب لاکھوں ماؤں بہنوں، بیٹیوں کی عصمتوں کے مقروض ہیں، اس بارے میں سوچیے۔ قائد اعظم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ پاکستان اس دن وجود میں آگیا جب ہندوستان کی سرزمین پر پہلے مسلمان نے اپنا قدم رکھا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔