سندھ، زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہو سکا، اربوں روپے کی مبینہ کرپشن

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 2 دسمبر 2016
کمپیوٹرائزیشن کی ذمے داری 3 نجی کمپنیوں کو دیدی، تحقیقات ہوئی توکرپشن پکڑی جائیگی،ذرائع۔ فوٹو: فائل

کمپیوٹرائزیشن کی ذمے داری 3 نجی کمپنیوں کو دیدی، تحقیقات ہوئی توکرپشن پکڑی جائیگی،ذرائع۔ فوٹو: فائل

کراچی: کراچی سمیت صوبے بھرکی اربوں روپے کی سرکاری اراضی کاریکارڈ کمپیوٹرائزڈکرنے کامعاملہ تاحال سست روی کاشکارہے، ریکارڈ کو درست کرنے کے دعوے دھرے رہ گئے،زمینوںکی کمپیوٹرائزیشن کے نام پراربوں روپے کی مبینہ کرپشن کی اطلاعات ملنے لگی ہیں جبکہ ریفارم ونگ اینڈاسپیشل سیل(آر اینڈایس)کے سیکریٹری سیدذوالفقارشاہ سمیت سیل کے دیگرافسران وعملے کیخلاف تحقیقات کاآغازکیاجائے توبڑے پیمانے پر کرپشن کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ7سال سے مذکورہ اسامی پرتعینات مذکورہ سیکریٹری نے کمپیوٹرائزیشن کے حوالے سے نت نئے طریقے ایجادکرتے ہوئے ایک ہی اسامی پرتعیناتی کا ریکارڈقائم کرلیا ہے، ایک طرف تو مذکورہ شعبے میں غیرقانونی طورپر بھرتیاں کرکے بہانہ بنایاگیاکہ کمپیوٹرائزیشن کے عمل میں تاخیرکی وجہ عملے کی کمی ہیدوسری طرف مبینہ طور پربھاری رشوت کے عوض3نجی کمپنیوں کوزمینوں کے کمپیوٹرائزیشن کی ذمے داری دیدی گئی۔

ذرائع کے مطابق10ارب روپے کے اخراجات کے مذکورہ منصوبے میں سندھ کی اربوں روپے کی زمین کاریکارڈنجی کمپنیوں سے کمپیوٹرائزڈکرانے پرعوامی سطح پرشدیدتحفظات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ذرائع کے مطابق آرٹی وی سروسز،یو ایل ایس سی اورڈبل اے (AA )کوائلٹی بلڈرزکوسروے کاکام سونپاگیاہے ۔ذرائع کا کہناہے کہ کراچی کے92 دیہوں کے سروے کا دعویٰ کیاگیاتھا اورسپریم کورٹ میں 2014 میں جمع کرائے گئے جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ناکلاس (سرکاری زمین) ختم کرکے سروے نمبردے دیے گئے لیکن آج تک یہ عمل مکمل نہیں کیاگیاہے۔

ذرائع کے مطابق سندھ زمین جی اوایس پی کے ویب سائٹ سرزمین پر الگ پوزیشن اور دیہہ کے نقشوں میں زمین کی علیحدہ پوزیشن برقرارہے، نقشوں میں زیادہ تر زمینیں مسنگ ہیں ۔ذرائع کے مطابق صرف چنددیہوں میں نا کلاس ختم کرکے نقشے میں سروے نمبر دکھائے گئے ہیں جبکہ ہر دیہہ کا سروے کرکے پتھر لگانے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن صرف2سے 3 دیہوں کے علاوہ دیگر 90 دیہوں میں پتھر لگائے ہی نہیں گئے اور ان کے نام پر بھی کروڑوں روپے ہضم کرلیے گئے جبکہ بعض دیہوں میں اب تک انگریزوں کے دورمیں لگائے گئے سروے کے پتھر موجودہیں۔ذرائع کے مطابق وزیرریونیو مخدوم جمیل الزمان نے معاملے کا نوٹس لیا تھالیکن مذکورہ افسر کے طاقتور ہونے کے باعث معاملے کودبا دیا گیا۔

واضح رہے کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ نے شہرمیں بدامنی کی وجہ زمینوں پر قبضوں کو بھی قراردیاتھا اورآبزرویشن دی تھی کہ سابق وزیراعظم بینظیربھٹوکی شہادت کے موقع پراحتجاج کی آڑمیں زمینوں کا ریکارڈ جلایا گیا، اس سلسلے میں عدالت نے حکومت سندھ کوترجیحی طورپرکام کرنے کی ہدایت کی تھی اور حکومت سندھ نے عدالتی احکام پرعملدرآمدکرتے ہوئے تقریباً 5 ارب روپے اس مدمیں مختص کردیے تھے۔

اس منصوبے کے تحت پہلے جلے ہوئے ریکارڈکوری کنسٹرکٹ کرنا تھا اور پھر اسے کمپیوٹرائزڈکرنا تھا لیکن کمپیوٹرائزڈکرنے کے منصوبے کے سربراہ ذوالفقار شاہ نے سپریم کورٹ میں اس بارے میں متعدد پریزنٹیشنزبھی دیں لیکن طویل مدت گزرجانے کے بعدبھی عملی طورپرسندھ کی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے سندھ حکومت کوانتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتاہے کہ اسلام آبادمیں اس کیس کی سماعت کے دوران ایک بار عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ صوبہ سندھ میں جب تک مسٹرشاہ ہیں کوئی کام نہیں ہوسکتا۔

میڈیا کی غلطی سے یہ مسٹرشاہ وزیراعلی قائم علی شاہ سمجھے گئے لیکن بعدمیں وضاحت سامنے آئی کہ یہ مسٹر شاہ بورڈآف ریوینوکے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ذمے دار ذوالفقار شاہ ہیں جو4ارب روپے سے زائدرقم خرچ کرنے کے باوجودکسی ایک ضلع کابھی ریکارڈمکمل نہیںکرسکے جس کی وجہ سے صوبہ بدامنی اور بدعنوانی کاشکارہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔