قوم کی جنرل قمر باجوہ سے بھی جنرل راحیل جیسی توقعات

رحمت علی رازی  ہفتہ 3 دسمبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف مقرر کر کے وزیراعظم محمد نواز شریف 6 آرمی چیف نامزد کرنیوالے پہلے پاکستانی وزیراعظم بن گئے ہیں‘ یہ دنیا میں بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے جس پر تاجِ برطانیہ کی چھاپ دکھائی دیتی ہے‘ نوازشریف چاہتے تو یہی ہیں کہ وہ آخری سانس تک پاکستان کے شاہی وزیراعظم رہتے ہوئے چھ آرمی چیف اور مقرر کر کے درجن بھر تقرریوں کا اعزاز اپنے نام کر لیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی جنرل راحیل شریف کی طرح چار سینئر جرنیلوں میں سے منتخب کیا گیا مگر انھوں نے ابھی اپنی ساکھ واضح کرنی ہے جب کہ جنرل راحیل نے پوری عسکری تاریخ میں اپنے آپ کو ایک منفرد اور قابل جرنیل ثابت کر کے دکھا دیا ہے‘ جنرل راحیل شریف نے کمان سنبھالی تو کراچی کے ساحل سے خنجراب تک چہارسو محاذ کھلے تھے‘ پاکستان کے گلی کوچوں میں دہشتگردی کا بازار گرم تھا‘ جنرل راحیل نے ایک پیشہ ور سپاہی بن کر اس چیلنج کو قبول کیا‘ اب قبائلی علاقہ جات میں امن کے پرندے واپس لوٹ رہے ہیں۔

کراچی میں اب کوئی نوگوایریا نہیں‘ بلوچستان میں پاک وطن کے پرچم سے الفت کی نئی داستانیں لکھی جا رہی ہیں اور چین سے آئے ٹرک اب اس کی سڑکوں پر رواں دواں ہیں‘ دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے‘ یہ سب کارنامے سنہری حروف میںلکھے جانے کے قابل ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا وہ کارنامہ ہے جس میں وہ کسی ترغیب کا شکار نہ ہوئے‘ ایمپائر بننے سے انکار کیا‘ جمہوریت کے سامنے فریق بننے والوں کے اُکسانے کے باجود جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہے‘ فوج کے غیرسیاسی تشخص، جسے پرویز مشرف کے 10سالہ دور میں مجروح کر دیا گیا تھا، کو ازسرِنو قائم کیا۔

ملک میں ایسی طاغوتی طاقتوں کا راج تھا جو عین اس وقت جب فوج دہشتگردی کے خلاف مشکل ترین جنگ لڑ رہی تھی، اسے سیاست میں اُلجھانا چاہتے تھے مگر جنرل راحیل شریف نے اس منصوبے کو بھانپا اور وہی کیا جسکا آئینِ پاکستان ان سے تقاضا کرتا تھا‘ وہ ایک جمہوریت پسند جنرل تھے‘ براہِ راست مداخلت سمیت جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کے کئی مواقع آئے مگر انھوں نے مشوروں کے باوجود فوج کو سیاسی مداخلت سے دُور رکھا‘ ملک میں احتساب کے حوالے سے ان کا اپنا موقف تھا جو شاید ماضی میں کبھی بھی فوج کا نہیں رہا۔

کارکردگی کے حوالے سے ممتحن ان کے نتیجے کا اعلان کرے تو بے لاگ کہنا پڑیگا کہ ان کے خاندان میں پہلے صرف دو شہید تھے مگر اب ایک غازی کا بھی اضافہ ہو گیا ہے‘ بطور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جو عزت کمائی، ملکی تاریخ میں یہ عزت کبھی کسی سپہ سالار کے حصے میں نہیں آئی‘ انھوں نے خطے اور دُنیا میں پاکستان کے لیے بڑھتی مشکلات کے ماحول میں دلیری سے ریاستی موقف کا اظہار کیا‘ ہراوّل مورچوں پر جا کر جوانوں کی ہمت بڑھائی‘ انھوں نے اپنے پیچھے ایک قابل ٹیم چھوڑی ہے جو پاکستانی فوج کو آگے لے جانے کی مکمل اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے ورنہ افسران قابل ماتحتوں کو اوپر آنے ہی نہیں دیتے۔

راحیل شریف بہت جفاکش جرنیل ثابت ہوئے جو دہشتگردی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑے‘ ان کی منفرد کارکردگی پر پوری قوم نے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے‘ ماضی کے جرنیلوں کے تقابل میں وہ ایک توانا اور مدبر جنرل نظر آئے جو ناکام حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے خارجہ تعلقات پر حد سے زیادہ اثرانداز ہوئے‘ انھوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا بیانیہ تبدیل کر کے قوم پر احسانِ عظیم کیا‘ جنرل راحیل کے  3سالوں میں ملک میں بڑی نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں‘ وہ پہلے آرمی چیف ہیں جنھوں نے اپنے ادارے کے اندر بھی احتساب کی نظر آنیوالی روایت قائم کی اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز کئی فوجی افسروں کو کرپشن میں ملوث ہونے پر گرفت میں لیا۔

داخلی امن و امان کے علاوہ ملکی سرحدوں کے دفاع میں بھی ان کا کردار قابلِ صد افتخار رہا‘ انھوں نے شخصی وقار اور ذاتی کردار کا ایک ایسا دلکش تاثر لوگوں کے دلوں پر بٹھایا کہ ہر کوئی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ یارب! ایسی چنگاری بھی ہمارے خاکستر میں تھی! ہم یہ نہیں کہتے کہ فوج کے ادارے میں اس پائے کی اور کوئی شخصیت موجود نہیں ہے‘ ان کے جانشین ان کی قائم کردہ روایات کو آگے بڑھانے میں ممکن ہے کہ ان سے بڑھ کر ثابت ہوں لیکن اس وقت تک راحیل شریف سابق پانچ چھ سپہ سالاروں کے مقابلے میں مضبوط کردار، آہنی عزم اور نتیجہ خیز عسکری پالیسیوں کے لحاظ سے گہرے نقوش چھوڑ کر گئے ہیں۔

نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا شمار بھی انتہائی پروفیشنل اور قابل ترین افسران میں ہوتا ہے‘ پاک فوج میں ان کے کئی ہم عصر افسران اور قریبی ساتھیوں کے مطابق وہ ایک انتہائی پیشہ ور اور سخت جان فوجی ہیں‘ وہ انتہاپسندی اور دہشتگردی کو کسی بھی دوسرے خطرے کی نسبت پاکستان کے لیے نمبر ون تھریٹ سمجھتے ہیں‘ ان کا فوکس ہر سطح اور ہر قیمت پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہے‘ انھوں نے کرنل کے عہدے سے اب تک دہشتگردی کے خلاف جنگ سمیت کئی اہم محاذوں پر نہ صرف کمانڈ کیا بلکہ بہادری کی کئی مثالیں بھی قائم کی ہیں جن میں ایک بڑی مثال ان کی سیاچن کے مشکل ترین محاذ پر ہر ایک پوسٹ پر تعیناتی ہے۔

واحد مثال ہونے کے سبب سیاچن کا ایک سیکٹر ’’باجوہ پوسٹ‘‘ سے موسوم ہے‘ وہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں انتہاپسندی اور دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں فیصلہ سازی کی سطح پر سرگرم رہے ہیں‘ وہ ان چند جرنیلوں میں شامل تھے جنھوں نے  14اگست 2014  ء کے معروف دھرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں حکومت کے ممکنہ خاتمے اور فوجی مداخلت کی سخت مخالفت کی‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق انفینٹری کی بلوچ رجمنٹ سے ہے‘ فور اسٹار جنرل بنائے جانے سے پہلے وہ انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلیوایشن کے عہدے پر فائز تھے۔

آرمی چیف بننے سے پہلے جنرل راحیل بھی اسی پوسٹ پر متعین تھے‘ جنرل قمرجاوید باجوہ نے 62 ویں پی ایم اے لانگ کورس سے کمیشن حاصل کیا‘ وہ آرمی کی سب سے بڑی 10 کور کو کمانڈ کر چکے ہیں جو کنٹرول لائن کے علاقے کی ذمے داری سنبھالتی ہے‘ انھوں نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر بطور جی ایس او اور بطور میجر جنرل فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کی سربراہی کی‘ اس طرح تین بار 10 کور میں خدمات انجام دیں جسکے باعث انھیں آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے سکیورٹی معاملات کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔

ماضی میں انفینٹری اسکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ رہے، کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں بطور بریگیڈ کمانڈر بھی فرائض انجام دیے‘ ان سے قبل جنرل یحییٰ خان، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کا تعلق بھی بلوچ رجمنٹ سے تھا‘ جنرل قمرجاوید باجوہ اور فواد حسن فواد سرسید کالج راولپنڈی میں ایک ساتھ زیرتعلیم رہے، ان کے آپس میں گہرے تعلقات ہیں اور فواد حسن فواد وزیراعظم کے مُلّا دوپیادہ ہیں۔

وزیراعظم کئی ہفتے قبل ہی جنرل قمرجاوید باجوہ کو آرمی چیف لگانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور ترکمانستان سے واپسی پر خود سمری لے کر صدرِ مملکت کے پاس گئے اور صدر نے وزیراعظم کی موجودگی میں سمری کو منظور کر کے وزارتِ دفاع میں بھیج دیا‘ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس اہم تعیناتی سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف لاہور میں، وزیرداخلہ چوہدری نثار ملک سے باہر اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار سرکاری کاموں میں مصروف رہے‘ ہفتہ کا دن ہونے کی وجہ سے حکمران جماعت کے اہم وزراء اور پارٹی عہدیدار بھی لاہور میں تھے‘ اس حوالہ سے یہ نئی تقرری انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ وزیراعظم نے جنرل قمرباجوہ کی تعیناتی سے قبل تمام معاملات کو انتہائی خفیہ رکھا۔

جنرل قمرباجوہ بھی راحیل شریف کی طرح عسکری پس منظر رکھتے ہیں‘ ان کے والد کرنل محمد اقبال باجوہ نے 1965ء کی جنگ میں لاہور بارڈر پر بھی حصہ لیا تھا‘ زمیندار خاندان سے تعلق‘ گکھڑ کے علاوہ نواحی گاؤں کوٹ سعداللہ میں زرعی اراضی‘ ننھیال کا تعلق محلہ رونٹی جلالپور جٹاں سے‘ قریبی عزیزوں میں وڑائچ اور گوندل بھی ہیں‘ ابتدائی تعلیم جلالپور جٹاں میں حاصل کی‘ بچپن کے ایام اسی شہر میں گزارے۔ جنرل قمرجاوید باجوہ اتنی عمدہ گفتگو کرتے ہیںکہ کبھی کبھار یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ فوج میں کیوں ہیں اور کیوں کسی تھنک ٹینک کے سربراہ نہیں ہیں؟

وہ مختلف موضوعات پر لاجواب کر دینے والا نقد و نظر اور گرما گرم تبادلہ خیال کرتے ہیں اور پیچیدہ قومی، علاقائی اور عالمی معاملات پر اپنی تفہیم و معلومات سے سامع کو حقیقتاً متاثر کر دیتے ہیں‘ ان کا ذہنوں کو پڑھ لینے کا فن اور زبان پر گرفت اتنے ہی تعجب خیز ہیں، جتنا وہ عسکری اُمور میں مہارت رکھتے ہیں‘ مارشل لاء اور سویلین معاملات میں فوجی مداخلت کے سخت مخالف ہیں اور اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ ان کے جوان بجلی کے میٹروں کی چیکنگ کرتے پھریں‘ یقینا جنرل قمرجاوید باجوہ پاکستان کے اب تک آنے والے 15 چیفس آف آرمی اسٹاف میں سے منفرد طرزِفکر کے سپہ سالار ثابت ہوں گے، ان شاء اللہ!

جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے پیشرو جنرل راحیل شریف میں ذاتی اور پیشہ وارانہ لحاظ سے کئی باتیں مشترک ہیں‘ وہ اپنے ساتھیوں میں جنرل راحیل ہی کی طرح کھلے ڈلے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان ہی کی طرح فوج کی تربیت اور مہارت میں اضافے کے ہر وقت خواہشمند رہتے ہیں‘ پاک فوج کے سینئر افسر عام طور پر اپنے آپ کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رکھنے کی جستجو میں سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے سے عموماً اپنے قریبی دوستوں کے علاوہ نجی محفلوں میں بھی پرہیز ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جنرل قمرجاوید باجوہ اس معاملے میں مختلف مزاج رکھتے ہیں‘ وہ نہ صرف سیاسی معاملات پر پختہ رائے رکھتے ہیں بلکہ اس کا اظہار کرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔

جنرل قمرجاوید باجوہ فوری فیصلہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھنے والے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں‘ جنرل راحیل نے شمالی وزیرستان میں کئی برس سے التوا میں پڑے فوجی آپریشن کو شروع کر کے اپنی صلاحیت کو منوایا تھا، بعینہٖ جنرل قمرجاوید باجوہ بھی فوج کی تربیت کے معاملات میں غیرمعمولی دلچسپی رکھتے ہیں اور گزشتہ سالوں میں انھوں نے اس سلسلے میں فوج کی تربیتی برانچ کے سربراہ کے طور پر اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکی دفاعی ماہرین کا مانناہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تعیناتی سے پاکستان میں سول فوجی تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے لیکن دہشتگردی کے خلاف جنگ اور بھارت کی پالیسی کے تبدیل ہونے کی توقع نہیں ہے‘ امریکا کے تین بڑے تھنک ٹینکس کے ماہرین کا ماننا ہے کہ طاقتور فوج کے سربراہ پاکستان میں انسدادِ دہشتگردی کی مہم کی رفتار تیز کرینگے‘ ماضی میں وزیراعظم نوازشریف فوجی سربراہان کے انتخاب میں بہت زیادہ خوش قسمت نہیں رہے لیکن اپنے ماضی کے تجربات اور جس پوزیشن پر وہ ہیں اس پر کوئی بھی ہو تو اس کے لیے یہ قدرتی بات ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کا انتخاب کریگا جس کی شہرت سول فوجی تعلقات کے حوالے سے لبرل ہونے کی ہو۔

سنجیدہ حلقوں کو توقع ہے کہ دہشتگردی پر راحیل شریف کی پالیسی جاری رہے گی‘ نئی قیادت کو مواقع دینے کی روایت پاک فوج کو مزید مضبوط بنائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج نہایت اچھے طریقے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے‘ فوج نے اپنی جگہ سمجھ لی ہے تاہم سیکیورٹی کے مسائل آئیں گے تو فوج مشورہ ضرور دیگی اور اسے کوئی نہیں روک سکتا‘ اگر سول ملٹری چیلنجز حل ہو جائیں تو تمام چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے‘ آرمی چیف کے عہدے کے لیے چار ناموں میں سے آخری نام چننے کی وجہ ہماری نظر میں کھوئی ہوئی اسپیس کو بحال کرنے کی کوشش ہے‘ وزیراعظم نے یہ اسپیس گنوائی ہوئی تھی جس کو دوبارہ حاصل کیا گیا ہے۔

سول قیادت پالیسیوں کا تعین کرتی ہے اور فوج اشتراک کرتی ہے اور عملدرآمد کی کوشش کرتی ہے‘ ضربِ عضب اڑھائی سال سے جاری ہے‘ اب جنرل قمرجاوید باجوہ کو اس فیصلے کا جائزہ لینا پڑیگا کہ کتنا عرصہ اس کو جاری رکھنا ہے‘ کراچی کی صورتحال کو بھی کسی کنارے لگانا ہے‘ بلوچستان اور سی پیک اہم معاملات ہیں‘ جو پالیسیاں چل رہی ہیں ان کی نظرثانی کرنا اور انھیں نتیجہ خیز بنانے کے لیے کام بھی کرنا ہو گا۔

جب نیا آرمی چیف آتا ہے تو نیا پلان لے کر آتا ہے اور سیاسی جماعتیں بھی نیا منشور لے کر آتی ہیں تاہم جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم دونوں کو سابقہ پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنا ہو گا‘ قوم جنرل راحیل شریف کو مسیحا سمجھنے لگی تھی، اس لیے نوازشریف آرمی چیف سے زبردست خوفزدہ بھی تھے‘ انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ اگر قوم آرمی چیف کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو اس سے دفاع، سرحدیں اور پاکستان محفوظ ہوتا ہے‘ پاکستان ایک قوم ہے‘ ہمارا ہر سپاہی قوم کا بیٹا ہے‘ اس کی توقیر، عزت افزائی ہم پر فرض ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ معاملات کو اچھے طریقے سے چلنے دے، ہمیں ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے‘ فوج کے سامنے اَن گنت چیلنجز ہیں اور ان پر توجہ دینا ہی پڑیگی‘ سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے اور بھارت کی ایماء پر ایسا ہو رہا ہے‘ آپریشن ضربِ عضب نارتھ وزیرستان کے لیے تھا اور 98 سے 99 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے‘ قومی سطح پر تمام ادارے، پولیس، حکومت، فوج، رینجرز ہم آہنگی سے کام کریں‘ فوج سمجھے کہ کس جگہ لائن ڈرا کرنی ہے اور اس سے آگے نہیں جانا‘ متاثرہ علاقوں میں ترقیاتی کام شروع کرنے چاہئیں اور یہ کام فوج کا نہیں، حکومت کا ہے۔

سب سے بڑا کام ڈپلومیسی ہے جو مثبت سمت میں نہیں بڑھ رہی‘ پھر نوجوانوں کو سہولتیں میسر نہیں‘ جب تک ایسا رہے گا دہشتگردی کنٹرول کرنا مشکل ہو گا اور یہ کام بھی حکومت کو بہرحال کرنا پڑیگا‘ فوج کے ناموس کی حفاظت کرنا بھی حکمرانوں کا کام ہے‘ اگر فیصلے میرٹ اور ضابطے کے تحت ہو جائیں تو ملک سونے کا ہو جائے گا‘ جنرل راحیل وزیراعظم نوازشریف سے زیادہ معروف سمجھے جاتے تھے، قوم سمجھتی تھی کہ سارے مسائل کا حل راحیل شریف کے پاس ہے جس کی وجہ سے حکومت کو لگتا تھا کہ فوج مداخلت کر رہی ہے۔

جنرل قمرجاوید باجوہ بہت اچھے پروفیشنل ہیں اور یہ مثبت بات ہے‘ یارانِ نواحاں کا خیال ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرینگے‘ حکومت جب اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کرتی تو فوج کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑتی ہے‘ ہمارے ملک میں آمریت اور جمہوریت کی کشمکش طویل ہے‘ چار مرتبہ ہم آئینی تعطل اور متعدد محلاتی سازشوں سے گزرے ہیں‘ آئین کی عملداری کا تسلسل پہلی مرتبہ آٹھ برس مکمل کر رہا ہے‘ تشدد، آمریت اور دہشتگردی میں ایک نکتہ مشترک ہے‘ ان معاملات میں واقعاتی حقائق اور اعداد و شمار سے زیادہ تاثر اور امکان کو حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

جمہور اور فوج میں باہم اعتماد اور احترام کا رشتہ ہونا چاہیے‘ اس تعلق میں مخاصمت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے‘ ایک آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور دوسرے چیف کی تقرری اور تبدیلی بہت خوبصورت بات ہے مگر سیاست میں تو وہی جمود طاری ہے‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ، آرمی چیف اور سینئر بیوروکریٹس تو اپنے وقت پر چلے جاتے ہیں مگر سیاسی قیادت جان نہیں چھوڑتی‘ پارلیمنٹ میں ننانوے فیصد عوام کی کوئی نمائندگی نہیں‘ سیاستدان دو سے زائد بار وزیراعظم بننے کے لیے جس ترمیم کا کریڈٹ لیتے ہیں وہ عوام کے خلاف سازش ہے‘ سیاسی قیادت میں تبدیلی تو آرمی چیف یا چیف جسٹس کے تبدیل ہونے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

پاکستان کو اب ایک بھاری ایجنڈے کا سامنا ہے‘ دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے لیے طویل مہم اور سویلین اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی رابطے کی ضرورت ہے‘ تعلقات کا تعین دونوں اطراف کے قیادت کرنے کے انداز سے ہو گا‘ پاک فوج کا ادارہ اپنے لیڈر سے زیادہ مضبوط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے آرمی چیف کی نگرانی میں فوج کی کوششیں ریاست مخالف عسکریت پسندی کے خلاف جاری رہیں گی۔ ساری دُنیا میں یہ مروجہ اُصول کارفرما ہے کہ اپنی بری، بحری اور فضائی فورسز کے امیج بلڈنگ کے لیے حتمی کوششیں کی جاتی ہیں تا کہ افواج کے جوانوں اور افسروں کا ہر میدان اور ہر مہم میں مورال بلند رہے اور وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے قوم اور ملک کی خدمات انجام دے سکیں۔

افواج کا مورال عوام بھی بلند کرتے ہیں اور میڈیا بھی ‘ افواجِ پاکستان کو نسبتاً زیادہ چیلنجوں کا سامنا ہے، اس لیے اسے مقابلتاً زیادہ امیج بلڈنگ کی بھی ضرورت ہے اور زیادہ تحسین کی بھی‘ ہماری تینوں فورسز کو جتنے خطرات اور محاذوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے، شاید ہی دنیا میں کسی دوسرے ملک کی افواج کو کرنا پڑ رہا ہو‘ پاکستان کے دونوں محاذ، مشرقی بھی اور مغربی بھی، دشمن کی زد میں ہیں۔

ایک طرف اسے بھارت کے چیلنجوں اور سازشوں اور دہشتگردوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے اور دوسری طرف سے اسے افغانستان کے چھپے چہرے سے نمٹنا پڑ رہا ہے‘ ایل او سی، ورکنگ باؤنڈری اور پکی سرحد پر بھی بھارتی حملوں اور یلغاروں کا افواجِ پاکستان جرأت مندی اور بلند حوصلے سے مقابلہ کر رہی ہیں‘ را اور این ڈی ایس نے باہم متحد ہو کر پاکستان کے خلاف جو متنوع محاذ کھول رکھے ہیں، ان سب کا پامردی سے مقابلہ کرنا صرف ہماری بہادر افواج ہی کا حوصلہ اور ہمت ہے۔

بلوچستان میں بھی غیرملکی خفیہ ایجنسیوں اور غیر ملکی میڈیا نے نقب لگا رکھی ہے جنھیں ہر روز ناکام بنایا جاتا ہے‘ کئی سر رکھنے والے دشمن اژدھے پر بیک وقت نگاہیں گاڑے رکھنا آسان کام نہیں ہے‘ داعش، ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے جلی اور خفی دُشمنانِ پاکستان کی سرکوبی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

افواجِ پاکستان کی امیج سازی اور کردار کی بلندی کو دُنیا بھر کے سامنے کامیابی اور سنہری الفاظ کے ساتھ پیش کرنے کا کریڈٹ صرف ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور ان کی آئیڈیل ٹیم کو جاتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف جنرل راحیل شریف، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے سربراہوں اور متعلقہ عسکری اداروں کا ملک بھر میں اعتبار اور اعتماد قائم کیا بلکہ تینوں فورسز کے وقار کے پرچم کو اندرون ملک اور بیرون ملک کسی بھی جگہ سر نگوں نہیں ہونے دیا۔

شمالی وزیرستان میں بری افواج کی کامیابیوں اور قربانیوں کا ذکر ہو یا ان سنگلاخ علاقوں میں چھپے دہشتگردوں کے خلاف ہوائی بمباری کے نشانوں کا ذکر، عاصم باجوہ نے کامیابیوں سے قوم اور ملک کو باخبر رکھنے کے لیے اپنی آنکھ نہ جھپکی‘ اُنہوں نے بیرون ملک بھی جارح میڈیا کا بھرپور اور دندان شکن جواب دیا‘ جیسا کہ لندن میں جب برطانوی میڈیا نے بیہودگی کرنے کی کوشش کی تو جنرل عاصم باجوہ نے فوری طور پر اور اسی جگہ منہ توڑ جواب دیکر اُنکی نہ صرف ہوائیاں اُڑا دیں بلکہ برطانوی میڈیا پر واضح بھی کر دیا کہ پاک افواج کے ترجمان کو نہ دھمکایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُس پر اثرانداز ہونا ممکن ہے۔

اس قلندرانہ جراتِ اظہار کا فائدہ یہ ہوا کہ گورے آئندہ بیہودگی کرنے کی کبھی جسارت نہ کر سکے اور نہ انھیں یہ ہمت ہو سکی کہ پاک افواج پرکیچڑ اچھال سکیں‘ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی طرف سے ایک ہی مرتبہ کی گئی یہ گوشمالی افواجِ پاکستان کے لیے تادیر کام آتی رہی‘ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی سربراہی میں آئی ایس پی آر نے مسلح افواج کے سربراہوں کی شخصی امیج سازی ہی میں شاندار حصہ نہیں لیا بلکہ اندرون ملک اور بیرونِ ملک جب بھی اور جہاں بھی ہمارے عسکری اداروں کے خلاف جس کسی نے بھی انگشت نمائی کی یا کوئی بے بنیاد اور غلط خبر نشر یا شائع کی۔

عاصم باجوہ اور اُن کی ٹیم نے فوری طور پر اس کا تعاقب کیا‘ ہر طرح سے متعلقہ خبر کی ضرورت کے مطابق تصحیح بھی کی اور جہاں ممکن ہو سکا پوری طاقت سے تردید بھی شائع اور نشر کروائی‘ بلا شبہ عاصم سلیم باجوہ اور اُن کے کمٹڈ ساتھیوں نے جنگی بنیادوں پر یہ محیرالعقول کارنامے انجام دیے ہیں اور کئی بار اپنوں اور غیروں کے طعنے اور طنز بھی مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ برداشت کیے ہیں‘ انھوں نے یہ کام پاکستان کے میڈیا میں ایسے مشکل ایام میں انجام دینے کی کامیاب کوشش کی ہے جب ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بہت آزاد اور سرکش ہو چکا ہے اور میڈیا پرسنز سے معاملات طے کرنا کوئی آسان مہم نہیں رہ گئی۔

ضرب عضب کی کامیابیوں کو قوم کے دلوں میں راسخ کرنے اور وطن مخالف پروپیگنڈے کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بھی عاصم باجوہ کی محنتوں کی ستائش کی جانی چاہیے‘ دہشتگردوں کے مخالف ترانے اورگیت تیار کر کے دشمنوں کے دلوں پر انھوں نے لرزہ طاری کر دیا ہے‘ یہ ترانے اور قومی گیت اب ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے دل پسند نغمے بن چکے ہیں جو پاکستان کے شہر شہر، گلی گلی گونج رہے ہیں۔

بھارت کے کزب و ریا کو بے نقاب کرنا عاصم باجوہ کی سب سے بڑی کامیابی ہے‘ جب بھارتی جھوٹ حد سے تجاوز کرنے لگا تو لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ ملکی اور غیر ملکی کالم نگاروں، اینکروں اور رپورٹروں کو جرأت سے ان جگہوں پر لے گئے جہاں بھارت نے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ آج بھی اپنی پہلی روح خیزی اور ولولہ انگیزی کے ساتھ ملک و قوم اور پاک فوج کے ادارہ کے لیے اتنے ہی متحرک ہیں جتنے وہ جنرل راحیل شریف کے دور میں رہے ہیں‘ وہ ایک سچے اور ایقان افروز سپاہی ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ ان جیسا پیشہ ور اور فرض شناس افسر پاک فوج کے اطلاعاتِ عامہ کو پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا۔

عاصم باجوہ نے جنرل راحیل شریف کے شانہ بشانہ رہ کر شب و روز سخت ترین محنت کی اور فوج کی ساکھ کو بہتر سے بہتر تر بنایا‘ خارجی اور داخلی سطح پر بھی نہ صرف پاک فوج اور ملک کے کھوئے ہوئے وقار کی بازیابی کروائی بلکہ ملکی و بین الاقوامی میڈیا کا مقابلہ کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کو ایک موثر نجی فوجی میڈیا کے طور پر پیش کیا‘ دہشتگردی کے پکڑے جانے والے نیٹ ورکس کی بریفنگ بھی مختلف اوقات میںوہ نیوز کانفرنسوں کے ذریعے دیتے رہے‘ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے اس فقید المثال کردار پر کچھ نام نہاد امن آشائی تجزیہ کاروں نے کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت کیچڑ اچھالا ہے جس کی قوم نے شدید مذمت کی ہے۔

تجزیہ کاروں کی یہ ایک ایسی بریگیڈ ہے جو دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے اور مذہب و ریاست کے وجود کی طرح دہشتگردی اور کرپشن کو بھی الگ الگ تناظر میں دیکھنے کی خواہاں ہے۔ اس وقت ملک جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، میڈیا کا اولین فرض ہے کہ وہ مسلح افواج کے مثبت کارناموں کو مثبت نکتہ نظر سے اُجاگر کرے‘ اگر قومی سلامتی پر وار کرنیوالے اور دُشمنوں کی ڈیوٹی دینے والے صحافی آئے روز ریاست کی سلامتی کی پالیسیوں کو منافقانہ انداز میں منفی بنا کر پیش کرینگے تو اس سے پاکستانی میڈیا کی بچی کھچی ناموس بھی جاتی رہے گی۔

نئے آرمی چیف نے بھی میڈیا کو مایوسی پھیلانے سے منع کیا ہے اور جنرل راحیل بھی دبے الفاظ میں میڈیا سے ایسا گلہ کر چکے ہیں۔ اس وقت ملک کے تمام اداروں اور قوم کو اجتماعی طور پر آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کو سپورٹ کرنا چاہیے تا کہ دہشتگردی کے خلاف حاصل کی جانے والی کامیابیاں‘ کامرانیاں اور ثمرات اکارت نہ جائیں۔ نئے آرمی چیف کو دونوں محاذوں پر اپنی صلاحیتوں اور پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے قوم کی توقعات پر پورا اترنا ہو گا۔

جنرل راحیل شریف نے جو اعلیٰ معیار اور روایات قائم کیے ان سے جنرل قمر جاوید باجوہ یقینا آگاہ ہیں، وہ جنرل راحیل کے ساتھ مشاورت میں شامل رہے ہیں اور وہ اپنے پیش رو کے قائم کردہ اسٹینڈرز میں قوم کی توقعات کے مطابق اضافہ کرنے کی یقیناً کوشش کرینگے۔ راحیل شریف، دیانتدار اور فرض شناس تھے‘ پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں منفرد ذہن کے مالک تھے‘ ان کے یہ اوصاف صرف عسکری اداروں ہی میں مطلوب نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی تقلید کی جانی چاہیے‘ ملک میں انسانی تربیت، اخلاقی تعمیر اور چینج آف کمانڈ کا ایک مربوط نظام قائم ہونا چاہیے تاکہ مستقبل میں راحیل شریف جیسے مثالی کرداروں کی ایک کھیپ تیار ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔