وارث اور وراثت

رئیس فاطمہ  ہفتہ 3 دسمبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کبھی ایک حکایت پڑھی تھی کہ ایک صاحبِ کشف بزرگ کسی قبرستان سے گزر رہے تھے، انھوں نے دیکھا کہ بہت سے مردے جھک جھک کر کچھ تلاش کر رہے ہیں اور کچھ چن چن کر دامن بھر رہے ہیں جب کہ ایک بزرگ ہشاش بشاش الگ بیٹھے ہیں، چہرے پہ نور اور اطمینان قلب نمایاں ہے۔ اگلے دن بھی وہ بزرگ عصر کی نماز کے بعد جب اسی قبرستان سے گزرے تو وہی پہلے والا منظر تھا۔ کہ کچھ مردے زمین میں کچھ تلاش کر رہے تھے، کوئی نامعلوم شے اور دوسرے بزرگ حسب سابق اطمینان سے بیٹھے تھے۔

چند دنوں کے ناغے کے بعد انھی صاحبِ کشف بزرگ کا گزر پھر اسی قبرستان والے راستے سے ہوا تو انھوں نے ایک عجب منظر دیکھا کہ وہ بزرگ جو بڑے آرام و اطمینان سے نورانی چہرے کے ساتھ الگ بیٹھے نظر آتے تھے، آج وہ بھی زمین پر جھک جھک کر کچھ تلاش کر رہے تھے۔ انھیں تجسس ہوا، چونکہ صاحب کشف تھے اس لیے وہ ان بزرگ کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ یہ کیسی تبدیلی ہے؟

چند دن پہلے تک تو آپ بڑی بے فکری سے الگ بیٹھے تھے آج ان دوسرے مردوں کے ساتھ کیا تلاش کر رہے ہیں؟ اور یہ بھی بتائیے کہ یہ لوگ کیا تلاش کر رہے ہیں اور کیا چن رہے ہیں؟ بزرگ نے سوال سنا اور افسردگی سے بولے ’’چند دن پہلے تک میرا وارث یعنی میرا بیٹا میرے لیے نذر و نیاز کا اہتمام کرتا تھا، میرے نام پر غریبوں اور مسکینوں میں کپڑے اور کھانا تقسیم کرتا تھا، قرآن خوانی کا اہتمام کرتا تھا، جس کا ثواب مجھے پہنچتا تھا، اس لیے میں مطمئن رہتا تھا کہ اس کا بھیجا ہوا ثواب مجھے خوش رکھتا تھا۔

اب چند دن پہلے اس نے دنیا والوں کی باتوں میں آکر سب نذر و نیاز اور میرے نام پر لینا دینا بند کردیا ہے، مجھے ثواب پہنچنا بند ہوگیا ہے۔ اس لیے میں بھی ان مردوں کے ساتھ وہ ثواب ڈھونڈ رہا ہوں جو کچھ لوگ فی سبیل اللہ ان کے لیے بھی بھیج دیتے ہیں۔ جن کا ایصال ثواب کرنے والے موجود تو ہیں لیکن کرتے نہیں ہیں۔ یہ جن مردوں کو آپ زمین میں کچھ تلاش کرتے دیکھ رہے تھے، یہ وہ بدنصیب ہیں جن کے لیے دعا یا نذر و نیاز کرنے والا کوئی نہیں۔ اب میں بھی انھی میں شامل ہوں کہ کہیں سے کوئی ثواب آئے اور مجھے بھی ملے۔ ایصال ثواب کرنے والے اب بہت کم رہ گئے ہیں کہ دنیا کی رنگینی اور لذت انھیں مرنے والوں کے ایصال ثواب سے بیگانہ کردیتی ہے۔‘‘

مجھے یاد آیا کہ 14 شعبان شب برأت کے موقع پر میری والدہ اور دادی جان جب نذر و نیاز کے لیے کھانے پکاتی تھیں اور مختلف اقسام کے حلوے بناتی تھیں تو خاندان کے مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے محتاجوں اور ضرورتمندوں کے گھر سب کچھ بھجواتی تھیں۔ ان مختلف ٹرے میں ایک میں تمام حلوے، پھل اور کھانے رکھ کر دادی جان سے کہتی تھیں۔ ’’اس پر ’’اوت نپوت‘‘ کی فاتحہ دیجیے اور انھیں ثواب پہنچائیے۔‘‘

نیاز اور فاتحہ کے بعد یہ ’’اوت نپوت ‘‘ والی ٹرے قبرستان بھیجی جاتی تھی۔ وہاں متعلقہ قبر کے علاوہ آس پاس کی تمام قبروں پہ والد اور بھائی ملازم کے ساتھ اگربتیاں، لوبان اور گلاب کے پھول لے کر جاتے تھے، کھانا غربا میں تقسیم کردیتے تھے اور آس پاس کی دیگر قبروں پہ بھی اگربتیاں روشن کرتے تھے اور باآواز بلند سورۂ فاتحہ اور چاروں قل پڑھ کر دعائے مغفرت بھی کرتے تھے۔

ایک بار میں نے امی سے پوچھا ’’یہ ’اوت نپوت‘ کیا ہوتا ہے اور آپ ان کے لیے یہ سب کیوں کرتی ہیں؟‘‘ امی نے پیار سے جواب دیا ’’بیٹا! جن کا کوئی نہیں ہوتا، نہ آل اولاد، نہ کوئی اور، نہ بیٹا نہ بیٹی، نہ بھائی نہ بہن۔ انھیں اوت نپوت کہتے ہیں یعنی جن کے لیے ایصال ثواب کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا، ان لاوارث مردوں کی روحیں 14 شعبان کو تڑپتی ہیں، اس لیے شب برأت کو ایسے لوگوں کے لیے تمام صاحب دل مسلمان خیرات، نذر و نیاز اور ان کے ایصال ثواب کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘‘

وارث اور وراثت دو مختلف الفاظ ہیں، لیکن کسی حد تک معنوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ وارث کے لغوی معنی ہیں مردے کے مال کا جائز حقدار، اور وراثت کے معنی ہیں ترکہ، ورثہ، میراث لیکن واضح رہے کہ وارث صرف مال و اسباب اور جائیداد کا ہی وارث نہیں ہوتا ہے بلکہ اپنے والدین کی زندگی میں کی ہوئی نیکیوں کا بھی وارث اور امین ہوتا ہے۔ اسی طرح وراثت یا ترکے میں جو بھی ملے اس کے لیے نماز شکرانہ پڑھ کر یہ عہد کرنا کہ والدین کے مشن کو جاری رکھا جائے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’صرف دو لوگ مقدر والے ہوتے ہیں، ایک وہ جنھیں وفادار دوست ملتا ہے اور دوسرے وہ جن کے ساتھ ماں کی دعائیں ہوتی ہیں۔‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’دنیا میں سب سے زیادہ دولت اس کے پاس ہے جس کی ماں زندہ ہے۔‘‘

لوگ مسجدیں آباد کرتے ہیں، تبلیغی اجتماعات میں جاتے ہیں لیکن ان بدنصیب ماؤں کے دلوں کا حال نہ جانتے ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں جو اپنی اولاد کے غم میں زندہ درگور ہیں، اولاد کی شکل دیکھنے کو ترستی ماؤں کو خدا صبر دے کہ انھوں نے زندگی بھر کی کمائی اپنے ہاتھوں سے اور خوش دلی سے دوست نما دشمنوں کے حوالے کردی۔ جب جب آنکھیں آنسوؤں کے سمندر میں ڈوبیں تب تب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول یاد کرکے دل کو تسلی دے لی۔ لیکن احسان کرنے سے اور دعائیں دینے سے پیچھے نہیں ہٹیں کہ یہی بخشش کا ذریعہ اور راہ نجات ہے۔

انسان کی جھولی میں جو کچھ ہوتا ہے وہی وہ دوسروں کو دیتا ہے۔ جس کے دامن میں کانٹے ہونگے وہ محبت اور احسان کے باوجود کانٹے ہی لوٹائے گا کہ اس کی جھولی میں تو ہیں ہی کانٹے۔ اور جن کے دامن پھولوں سے بھرے ہوں وہ کانٹوں کو نظرانداز کرکے پھول ہی دوسروں کی طرف پھینکتے ہیں۔ ہر انسان اپنی اپنی فطری جبلت اور تربیت سے مجبور ہے۔ سانپ کو کتنا ہی دودھ پلاؤ ڈستا ضرور ہے۔ ’’مار آستین‘‘ کا محاورہ بھی کسی ایسے ہی موقع پر بولا جاتا ہے۔لوگ کہتے ہیں وقت کے ساتھ ہر زخم بھر جاتا ہے لیکن میں اس سے بالکل متفق نہیں، کیونکہ بعض زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے:

داغ رہنے کے لیے ہوتے ہیں رہ جائیں گے
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا

آج 4 دسمبر ہے، میری زندگی کا اذیت ناک دن، یوں لگتا ہے کل ہی کی بات ہو۔ وہ شخص جس کو دیکھے بغیر جینا ممکن نہ تھا، اس کے بغیر آج ایک سال گزر گیا۔ کیسے گزرا یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے لاتعداد دوست احباب اور قارئین اس المیے کے اثرات سے واقف ہیں۔ میرے لیے تو بس سراج اورنگ آبادی کا یہ شعر حقیقت کا روپ دھار گیا۔ جسے میرے شریک حیات نے میری ایک ناولٹ کا عنوان بنایا تھا:

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا، کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

ایک اچھے شاعر، صحافی، نامور مترجم اور ادیب قاضی اختر جوناگڑھی کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ دوست، احباب اور ایکسپریس کے قارئین ان کے ایصال ثواب کے لیے درود شریف، سورۂ فاتحہ اور چاروں قل پڑھ کر انھیں بخش دیں۔ میں اور میرا اکلوتا پیارا بیٹا راحیل اختر ہم دونوں آپ سب کے بہت شکر گزار ہوں گے۔

فیضؔ نے شاید کسی ایسے ہی دردناک موقع کے لیے کہا ہو گا:

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔