پھر کسی کا امتحان مقصود ہے

شاہد سردار  ہفتہ 3 دسمبر 2016

گئے دنوں طاقت کی راہداریوں میں سب سے زیادہ گردش کرنے والا واحد سوال یہی تھا کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا، کیوں کہ ہماری جمہوریت کی کمزور تاریخ اور چار فوجی آمروں کی طویل حکمرانی، بالخصوص ملک میں سول ملٹری عدم توازن کے باعث یہ تقرری بہت ہی زیادہ اہمیت اختیار کرچکی تھی۔

اس ضمن میں نواز شریف نے بھی نئے آرمی چیف کے انتخاب کے لیے کسی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا، انھوں نے اپنا وقت لیا اور سابق آرمی چیف راحیل شریف کو آخری دن تک پراعتماد رہنے کی اجازت دی۔ ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل الوداعی دوروں کا اہم اعلان بھی وفاقی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ افواج پاکستان کی جانب سے سامنے آیا۔ یوں آخری لمحے تک شائستگی اور وقار کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو آرمی چیف اپنا حلف نہیں توڑتا اور کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کرتا تو وہ قابل احترام ہوتا ہے۔

نواز شریف بلاشبہ پاکستان کے واحد وزیراعظم ہیں جنھوں نے اپنے تین ادوار میں سب سے زیادہ آرمی چیف کا انتخاب کیا، ان کے ساتھ کام کیا اور اب انھوں نے پانچویں بار نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا انتخاب کیا ہے اور 1985 میں جمہوریت کی بحالی کے بعد سے یہ اعزاز اب تک کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ اور یہ بھی غلط نہیں کہ اختیارات کے محلات میں کسی کو بھی وزیراعظم کی پسندیدہ یا منتخب کردہ شخصیت کا علم نہ ہوا۔ کیوںکہ دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس پاکستانی آرمی چیف زیادہ اثر و رسوخ کا حامل ہوتا ہے، اس لیے ان کی تبدیلی مختلف شعبہ جات میں بہت گہرے اثرات کا سبب ہوتی ہے۔

سابق آرمی چیف راحیل شریف گزشتہ بیس برسوں میں اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے وقت پر ریٹائر ہونے والے پہلے آرمی چیف ثابت ہوئے۔ اگر مزید پیچھے جھانکیں تو گزشتہ چالیس برسوں میں صرف تین آرمی چیفس نے اپنی مدت ملازمت مکمل کی ہے۔ گزشتہ چالیس میں سے بیس برس تو صرف دو آرمی چیف رہے، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف لمبے عرصے تک آرمی چیف رہے، جب کہ ایک آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کو سول حکومت نے مدت ملازمت میں توسیع دی۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قوموں کی تاریخ میں تین سال کی مدت کوئی بڑا عرصہ نہیں ہوتی لیکن ایک قابل فخر عسکری خانوادے سے تعلق رکھنے والے اولوالعزم آرمی چیف راحیل شریف نے اس مختصر عرصے میں جو بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے ہیں ان کا ذکر ہمیشہ فخر اور عزت و احترام سے کیا جائے گا۔ تمام تر ملکی اور غیر ملکی پروپیگنڈے کے باوجود سابق آرمی چیف اپنے فیصلے پر قائم رہے اور اپنی سروس مکمل کرکے ہی ریٹائر ہوئے اور اس کا اعلان بھی انھوں نے تقریباً دس ماہ پہلے کردیا تھا، جس کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ رکنے کے بجائے بڑھتا گیا۔

باقاعدہ مہم شروع کی گئی، سڑکوں اور حساس مقامات پر بینرز لگے، اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دنیا بھر میں آرمی چیفس کی تقرریاں حد درجہ حساس ہوتی ہیں اور بطور آرمی چیف راحیل شریف نے جو عزت کمائی ملکی تاریخ میں کبھی یہ عزت کسی دوسرے سپہ سالار کے حصے میں نہیں آئی اور اس کی سب سے بڑی وجہ خود کو غیر آئینی اقدام سے دور رکھنا تھا۔

یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ سابق آرمی چیف نے سیکیورٹی کے طرح طرح کے خطرات سے گھرے پاکستان میں کمال جرأت، اعلیٰ حکمت عملی اور اتنے ہی قابل تحسین پیشہ ورانہ فرائض کے ملاپ سے عسکری قیادت کا جو معیار مقرر کیا، آنے والے مستقبل کے سپہ سالاروں کو اس کی تقلید کرنی پڑے گی اور وقت و حالات کے ساتھ ساتھ دفاع وطن کی کیپیسٹی، معیار اور سرعت کو ممکن بنانا ہوگا۔ جنرل راحیل وطن کے لیے بہت کچھ حاصل کرکے پاکستان کو امیدوں کا ایسا جہاں بناکر ریٹائر ہوئے کہ قوم یہ یقین رکھنے میں حق بجانب ہوگی کہ نئی ملکی عسکری قیادت کے لیے بھی سب کچھ ممکن ہوگا جو پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے لازم ہے۔

سابق آرمی چیف کے دور نے یہ بات بہرطور ثابت کی ہے کہ جو بھی خود کو غیر جمہوری اقدامات سے دور رکھے گا، عزت، وقار اس کے قدم چومے گی۔ ان کا ملازمت میں توسیع نہ لینا اور آرمی کمان میں معمول کی تبدیلی سول ملٹری تعلقات میں ایک مثبت عمل اور آئین و جمہوریت کی پاسداری کی علامت ہے۔ کیوںکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان زیادہ تر تناؤ کے مظاہر دیکھنے میں آئے اور قوم کو چار بار مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان کی فوج ہمارے جسدِ اجتماعی کا عزیز ترین ٹکڑا ہے، جمہور اور فوج میں باہم اعتماد اور احترام کا رشتہ ہونا  اولین ضرورت ہے، اس تعلق میں مخاصمت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ ہماری عسکری قیادت ہماری سول قیادت سے زیادہ باخبر ہے اور کسی بھی صورتحال کے مطابق اقدام کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔

ہر دور میں فوج نے اپنی پیشہ ورانہ خود مختاری کا تحفظ کیا اور یہ ملک کا سب سے منظم ادارہ ہے۔ راحیل شریف کی بے مثال قیادت نے فوج کے وقار میں مزید اضافہ کیا ۔ اب یہ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ کی بھٹی سے کُندن بن کر نکلی ہے، اس نے ان علاقوں پر پاکستانی ریاست کی عملداری بحال کی ہے جہاں انتہاپسندوں کی امارات کم و بیش قائم ہو ہی چکی تھی۔

ملکی واقعات اور حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن کی زیادہ ذمے داری ان سیاسی رہنماؤں پر عاید ہوتی ہے جنھوں نے میرٹ پر آرمی چیف کی تقرری کرنے کے بجائے اپنے لیے مناسب آرمی چیف تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کا تلاش کردہ آرمی چیف ان کی خواہشات کے برعکس نکلا۔

ملکی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں جس جس نے پاکستان میں مارشل لا لگایا، اس کی تقرری سینارٹی کے مطابق نہیں ہوئی تھی اور پاکستان کی سیاسی فضا کا یہ وہ گم شدہ ہما ہے جو تاحال کسی کے ہاتھ نہیں آسکا۔ اگرچہ ملک میں جمہوری نظام رائج ہے اور اس میں تسلسل بھی دکھائی دینے لگا ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ ’’سیاسی سکہ رائج الوقت‘‘ کی قدر کم جب کہ غیر سیاسی سکہ کی طاقت میں اضافہ  ہوچکا ہے اور خارجہ پالیسی سے لے کر داخلی سیکیورٹی تک وہ شامل رہے ہیں۔

بہرکیف نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو سول ملٹری تعلقات، حکومت عدلیہ ریلیشن شپ اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اختیارات میں عدم توازن جیسے چیلنجز کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑے گا، بلکہ پاکستان میں دیرپا اور حقیقی جمہوریت کے فروغ اور اس کی بقا میں بھی اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا، بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی اور غیر ملکی خفیہ ہاتھوں کی سرگرمیوں کو اکھاڑ پھینکنے کی بھی ضرورت ہوگی۔

طرفہ تماشہ وطن عزیز میں حکمران اشرافیہ نے ایسی روش اختیار کرلی ہے جس کے تحت کوئی شخص آئینی اداروں اور قانون کی حکمرانی کی بات کرے تو اسے فوج کے خلاف تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ اچھے سیاست دان کبھی فوج کے خلاف نہیں رہے، آئین کے تحت ہر ادارے کا اپنا اپنا کردار ہے، تاہم ہماری دانست میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سول ملٹری تعلقات ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں اب تک جمہوریت عبوری دور سے گزر رہی ہے، لیکن جیسی بھی ہے آمریت سے بہتر ہے۔ اس بات میں بھی کوئی باک نہیں کہ ریاست کی کامیابی اس کے آئینی و قانونی اداروں کی کامیابی میں مضمر ہوتی ہے، ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس کامیابی کو موثر اور یقینی بناسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔