خصوصی افراد کی بحالی کے لیے انہیں پالیسی سازی میں شامل کیا جائے !!

’’معذوروں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔  فوٹو : ایکسپریس

’’معذوروں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : ایکسپریس

معذور افراد کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور دیگر شہریوں کی طرح اپنی زندگی اچھے طریقے سے بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دنیا میں اس طبقے کو ’’خصوصی افراد‘‘ کا نام دیا گیا ہے تاکہ ان کا احساس محرومی ختم کیا جاسکے۔ انہیں صرف یہ نام دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان کے لیے حقیقی معنوں میں خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی قانون خصوصی افراد کے تمام تر بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے جبکہ ہمارے ملکی قانون میں بھی معذور افراد کے لیے خصوصی مراعات رکھی گئی ہیں جن میں ملازمت میں کوٹہ، مفت تعلیم، صحت، علاج معالجہ و دیگر سہولیات شامل ہیں۔ ان قوانین کے باجود معذور افراد کو بے شمار مسائل درپیش ہیں جن کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ’’معذوروں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و خصوصی افراد کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

وحید اخترانصاری
(ڈی جی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ پنجاب)
یہ تاثر غلط ہے کہ حکومتی سطح پر معذور افراد کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کیا جارہا ہے بلکہ ان کی بحالی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ عملدرآمد یا دیگر حوالے سے جو مسائل ہیں وہ صرف خصوصی افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ عام آدمی کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی حکومتوں کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں اور سارے اخراجات حکومتیں برداشت نہیں کرسکتیںا س کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کا کردار اہم ہوتا ہے۔

حکومت کی جانب سے اب تک 68ہزار معذور افراد کو خدمت کارڈ جاری کیے جاچکے ہیں جن کے تحت 12سو روپے کے حساب سے 7کروڑ روپے ماہانہ لوگوں کو فراہم کیا جارہا ہے جو بہت بڑی رقم ہے۔ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور معذور افراد کو ڈیلی ویجز کی مد میں 30لاکھ ماہانہ تنخواہ دے رہی ہے جبکہ ریگولر ملازمین کی تنخواہ الگ ہے۔ حکومت نے صرف دفتری سٹائل کو ہی فالو نہیں کیا بلکہ ملازمت کے لیے مختص کوٹہ کے علاوہ خصوصی افراد کی ملازمت کے حوالے سے پرائیویٹ سیکٹر کو بھی شامل کیاہے۔ اگر کوئی پرائیویٹ ادارہ معذوروں کے کوٹہ پر ملازمت فراہم نہیں کرتا تو اسے حکومت کو فنڈ جمع کرانا پڑتا ہے جو معذوروں کی بحالی کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔

عملدرآمد کے حوالے سے مسائل بہت زیادہ ہیں اور یہ حالات تمام شعبوں میں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بالکل عملدرآمد نہیں ہورہا لیکن بہت ساری جگہ پر مسائل زیادہ ہیں۔ عملدرآمد میں افسران کا بہت عمل دخل ہے اور یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح کام کرتے ہیں۔حکومت کی پالیسی آتی ہے، اس پر عملدرآمد کرانے میں وقت لگتا ہے کیونکہ اس کے بہت سارے مراحل ہوتے ہیں۔ معذور افراد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ووکیشنل ٹریننگ فراہم کی جارہی ہے جس کی وجہ سے انہیںملازمت کے زیادہ بہتر مواقع ملتے ہیں۔ اگر ووکیشنل ٹریننگ کے بعد کوئی اپنا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو حکومت اسے قرضہ بھی فراہم کرتی ہے۔

میاں محمد اظہر جیسے لوگ معذور افراد کے رول ماڈل ہونے چاہئیں لیکن ہمارے ہاں بہت سارے معذور افراد آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ ہمارے سے کم از کم تنخواہ والی ملازمت کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ ووکیشنل ٹریننگ و حکومت کی جانب سے فراہم کیے جائے والے دیگر مواقع سے فائدہ اٹھا کر اچھا روزگار نہیں کمانا چاہتے۔ خصوصی افراد کو اس طرف سوچنا چاہیے اور خود کو قابل بنانا چاہیے۔ حکومت نے معذور افراد کی ملازمت کا کوٹہ 2فیصد سے بڑھا کر 3فیصد کردیا گیا۔ معذور افراد کے لیے گریڈ 1سے گریڈ 4تک کوئی پابندی نہیں ہے۔

حکومت نے ریگولر جابز کا انتظار نہیں کیا بلکہ افرادی قوت کے لحاظ سے 3فیصد کوٹہ نکال کر معذور افراد کے لیے ملازمت کی تشہیر کی جو بہت بڑا اقدام ہے ۔معذور افراد کی بحالی کے لیے حکومت پر ممکن اقدامات کررہی ہے اور اپنے وسائل سے بڑھ کر کام کررہی ہے لیکن تمام مسائل کے حل میں وقت لگے گا۔ ہر ضلع میں معذور افراد کے فوکل پرسن موجودہیں، اس کے علاوہ ان کی کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں جبکہ ڈی سی او کی سربراہی میں ان کی میٹنگز ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد ڈویژن کی سطح پر بھی کمیٹیاں قائم ہیں جن کے ذریعے ان کے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔

لوگوں میں آگاہی کے حوالے سے بھی ہم نے خصوصی پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ ہم پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اس میں ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ مخیر حضرات کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں، میں ڈاکٹر خالد جمیل کے Mobility Bankکی تجویز سے متفق ہوں۔ اس سے وسائل بھی زیادہ آئیں گے اور کام بھی بہتر طریقے سے ہوسکے گا۔

ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک کی 10فیصد آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ چار اقسام کی معذوری کے لحاظ سے پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب معذور افرادہیں۔ اس سال ہم نے معذوروں کے عالمی دن کا نیا سلوگن “plan for us,not without us” دیا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ پالیسی معذوروں کے حوالے سے بنائی جاتی ہے لیکن ان سے مشاورت نہیں کی جاتی۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ معذوروں کے حوالے سے کسی بھی سطح پر پالیسی بنانے کے لیے معذور افراد کو شامل کیا جائے، ان سے رائے لی جائے،ان کے مسائل پوچھے جائیں اور پھر اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے۔

حکومت کی معذور افراد کے حوالے سے چند ایک سکیمیں بہترین ہیں جن کا موازنہ اگر بھارت کے ساتھ کیا جائے تو ہم بہتر ہیں۔ اگر بنگلہ دیش اور سارک ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پاکستان کی معذوروں کی بحالی اور سوشل ویلفیئر کی پالیسی ان تمام ممالک سے بہتر ہے۔ کسی ملک میں معذور افراد کے لیے ملازمت میں 3فیصد کوٹہ نہیں ہے ، میڈیکل کالجوں میں معذور افراد کو داخلہ نہیں دیا جاتا جبکہ پاکستان میں معذور افراد کو یہ حق حاصل ہے اور اس کے علاوہ معذور افراد بھی سی ایس پی آفیسر تعینات ہیں جو بہت بڑا اقدام ہے۔

ہمارا زکوٰۃ اور سوشل ویلفیئر کا نظام دنیا میں بہترین ہے۔ اس میں مسئلہ صرف عملدرآمد کا ہے کیونکہ جہاں افسر ایماندار اور بہتر ہیں وہاں لوگوں تک اچھے نتائج پہنچتے ہیں لیکن جہاں ایسا نہیں ہے وہاں لوگ سہولیات سے محروم ہیں۔ ہمارا یہ رویہ ہر شعبے میں ہے اور نہ صرف معذور افراد بلکہ عام آدمی بھی اس سے متاثر ہے۔ اگر لوگ معذوروں کی بحالی کومشن سمجھ کر کام کریں تو چیزیں بہتر ہوجائیں گی۔ خدمت کارڈ کے ذریعے معذور افراد کی 12روپے کی امداد ناکافی ہے اور یہ ان سے مشاورت کے بغیر مختص کی گئی ہے۔

پوری دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ہم لوگ ہیں لیکن ہمارے ہاں پلاننگ کا فقدان ہے۔ اس وقت پانچ ہزار کے قریب این جی اوز ہیں جن میں سے بہت ساری این جی اوز ایک جیسا کام کررہی ہیں۔ میرے نزدیک پرائیویٹ سیکٹر کو ترجیحات قائم کرنی چاہئیں اور پوری تحقیق کے بعد سائنٹیفک طریقہ اپنانا چاہیے۔ معذور افراد کو میڈیکل، تعلیم اور ملازمت کے مسائل بھی درپیش ہیں۔

معذور افراد کی نقل و حرکت کے لیے انہیں کسٹم ڈیوٹی فری گاڑیوں کی سہولت دی جائے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں۔ معذور افراد کو مصنوعی اعضاء، وہیل چیئر وغیرہ مفت فراہم کرنی چاہیے۔ معذور افراد کے علاج معالجے کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے اور ان کی معذوری کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹریننگ اور تعلیم دی جائے ۔ ہمارے ہاں کوٹہ پورا کرنے کے لیے معذوری کو مد نظر نہیں رکھا جاتا لہٰذا اس طرف توجہ دی جائے۔

معذور افراد کے حوالے سے میری تجویز ہے کہ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے ایک “Mobility Bank” قائم کیا جائے جس میں ان کے لیے وہیل چیئر، ٹرائی سائیکل، بائیک و دیگر اشیاء موجودہوں۔ لوگ اس بینک کو پیسے دینے کے بجائے یہ سامان فراہم کریں۔ یہ سامان بینک میں موجود ہوگا اور معذور افراد یہاں سے با آسانی مفت لے سکیں گے۔ بہت سارے لوگ اور حکومت پہلے ہی معذور افراد کی سہولت کے لیے کام کررہے ہیں لہٰذا اس چیز کو سسٹمیٹک بنانے کے لیے اس بینک کا قیام بہت ضروری ہے۔

معذور افراد کی خود اعتمادی کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہیے، اس کے لیے معاشرے کی تربیت بہت ضروری ہے۔ معذوروں کو حوصلہ دیا جائے، انہیں خوشی دی جائے اور انہیں تنگ کرنے کے بجائے سپورٹ کیا جائے۔ 2014ء میں گورنرپنجاب نے یونیورسٹی میں معذور بچوں کے لیے مفت تعلیم کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس پر کچھ ادارے عمل کررہے ہیں جبکہ بعض میں ایسا نہیں ہے۔ ڈراموں میں معذور افراد کو منفی کردار دیا جاتا ہے،اس کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے بلکہ ڈرامے کو معذور افراد کی بحالی کے حوالے سے استعمال کیا جائے۔

بعض لوگ ابھی بھی معذور افراد کا تمسخر اڑاتے ہیں جو قابل افسوس ہے۔ بہت ساری خوبصورت اور تعلیم یافتہ خوبصورت لڑکیوں سے کوئی شادی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میرے نزدیک ہمیں معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معذور افراد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا رہن سہن اچھا کریں، اچھا پہنیں ، اچھی تعلیم ضرور حاصل کریں اور خود کو معذور تصور نہ کریں۔

زیب النساء
(پراجیکٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ پنجاب)
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خصوصی افراد اور پسماندہ لوگوں کی بحالی کے لیے کام کر رہا ہے۔ معذور افراد کی ٹریننگ اور بحالی کے 1981ء کے آرڈیننس پر عملدرآمد کرانا سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے اختیار میں ہے۔ خصوصی افراد کے حوالے سے تمام حکومتی میٹنگز اور اقدامات میں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کا کرادر اہم ہے۔ ہمارے ملک میں بھارت اور سارک ممالک کی نسبت خصوصی افراد کی حالت بہتر ہے جبکہ گزشتہ 3سے چار سالوں میں پنجاب میں اس حوالے سے بہت زیادہ کام ہورہا ہے۔ ملازمت کے حوالے سے معذوروں کے لیے 2فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کوٹہ کردیا گیا ۔

اس کے علاوہ یونیورسٹیوں میں ان کی تعلیم اور ہاسٹل فری کردیا گیا ہے۔ ایڈمیشن لینے پر انہیں لیپ ٹاپ جبکہ فسٹ ڈویژن میں ڈگری حاصل کرنے پر انہیں وہیل چیئردی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے بے شمار اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں معذور فرینڈلی عمارتیں نہیں ہیں۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے نوٹیفیکشن جاری کیا جاچکا ہے، اب جتنی بھی عمارتیں بنیں گی وہ بیریئر فری ہوں گی، ان میں الگ کار پارکنگ، وہیل چیئر چلانے کے لیے سلوپ اور معذوروں کے لیے الگ کاؤنٹر بنائے جائیں گے۔

ایسا نہیں ہے کہ حکومت کام نہیں کررہی بلکہ چیزوں پر عملدرآمد میں وقت لگتا ہے اور معاملات میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے۔ اب جو نئی عمارتیں بن رہی ہیں ان میں یہ تمام چیزیں مدنظر رکھی جارہی ہیں۔ ہوائی سفر، ریلوے، بس و دیگر کرائیوں میں 50فیصد رعایت کو یقینی بنایا جارہاہے اور کافی حد تک معاملات بہتر ہیں۔ ملازمت کے حوالے سے گریڈ 1 سے گریڈ 4تک 4200سے قریب آسامیوں کی تشہیر کرکے معذور افراد کو ملازمت فراہم کی گئی اور یہ کوٹہ تقریباََ پورا ہوچکا ہے۔ ہم نے صوبائی اور ضلعی سطح پر معذوروں کی کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں ۔

ڈی سی او کی سربراہی میں ان کی میٹنگز ہوتی ہیں اور ان کے روزمرہ کے مسائل حل کیے جاتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ معذور افراد کے ملازمت کے کوٹہ کو یقینی بنایا جائے۔ جس بھی فیکٹری یا ادارے میں 100سے زائدلوگ کام کرتے ہیں ، 1981ء اور 1987ء کے آرڈیننس اور رولز کے مطابق وہاں یہ کوٹہ لاگو ہوتا ہے۔ سوشل ویلفیئر کے ڈسٹرکٹ افسر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ یہ کوٹہ یقینی بنائے۔ ہم اس وقت تک 6ہزار کے قریب پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتیں یقینی بنا چکے ہیں اور جہاں ایسے ملازم نہیں ہیں وہ فیکٹریاں حکومت کا مقرر کردہ فنڈز ہمیں جمع کرواتی ہیں جو معذور افراد کی بحالی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پیسے سے معذوروں کو سہولیات دی جاتی ہیں۔

اس کے لیے پاکستان بیت المال نے مفت وہیل چیئر کی فراہمی کا پروگرام شروع کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جس خاندان میں ایک سے زائد معذور افراد ہیںانہیں 25ہزار کی امداد اور جس میں ایک شخص معذور ہے اس خاندان کو 10ہزار روپے کی امداد فراہم کی جائے گی۔ پنجاب بیت المال نے بھی معذور افراد کی بحالی کے لیے دوکروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے جو ان پر خرچ کی جارہی ہے۔

خدمت کارڈ کے ذریعے صرف 12سو روپے ہی فراہم نہیں کیے جارہے بلکہ اس کے ساتھ ستاھ انہیں علاج معالجہ، ٹریننگ و دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی اور جب یہ افراد کمانے کے قابل ہوجائیں گے تو ان کا یہ وظیفہ ختم کردیا جائے گا۔ ہمارا مقصد معذور افراد کو معاشرتی دھارے میں لانا ہے اور اسی کے لیے ہی ہم جدوجہد کررہے ہیں۔

میرے نزدیک معذور افراد کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی اور اپنی معذوری کو کمزوری بنانے کے بجائے محنت کریں ۔ معذور افراد کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے رویے تبدیل کیے جاسکیں۔ اس کے لیے ہم کام کررہے ہیں اور مختلف پروگرام چلائے جارہے ہیں۔ یہ صرف سیمیناریا آگاہی واک کی حد تک محدود نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں جہاں انہیں سہولیات و مفت علاج بھی فراہم کیاجاتا ہے۔ رواں ماہ ہم لوگوں کی آگاہی کے لیے ایک تھیٹر کرنے جارہے ہیں اس کے علاوہ ہم ٹی وی اور اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے بھی لوگوں میں شعور پیدا کررہے ہیں۔

میاں محمد اظہر
(انٹرنیشنل ایتھلیٹ)
اس وقت پاکستان میں پانچ سے چھ فیصدمعذور ہیں جو حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نقل و حرکت کا ہے اور اس حوالے سے ہمیں کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ گھر میں ہمیں وہیل چیئر جبکہ باہر نقل و حرکت کے لیے ہمیں ٹرائی سائیکل یا موٹر بائیک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم بسوں میں سفر کرنا چاہیں تو ہمیں کوئی سہولت نہیں ہے، وہاں بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ بسوں میں ہمارے لیے جو 2فیصد سیٹیں رکھی گئی ہیں، وہی ہمارے لیے یقینی بنا دیا جائیں۔ ہمارے ملک میں سپورٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔

مجھے بطور کھلاڑی 22سال ہوچکے ہیں، میری طرح کے اور بہت سارے لوگ پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں مگر ہمیں اس حوالے سے حکومت کا کوئی تعاون حاصل نہیں ہے۔ ہمارے لیے سپورٹس کلب ہیں اور نہ ہی جمنازیم ، اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو معذور افراد کھیل کے میدان میں بہت آگے جاسکتے ہیں۔ معذور افراد کے لیے نوکریاں نہیں ہیں اور کوئی بھی انہیں ملازمت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تعلیم کے حوالے سے بات کریں تو میرے نزدیک معذور افراد کے لیے الگ تعلیمی ادارے نہیں ہونے چاہئیں بلکہ انہیں نارمل بچوں کے ساتھ تعلیم دی جائے۔

اگر نارمل بچے معذور افراد کے ساتھ وقت گزاریں گے تو انہیں ان کے مسائل کے بارے میں علم ہوگا اور ان میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگا۔ ہسپتالوں میں بھی معذور افراد کے لیے سہولیات نہیں ہیں‘ وہاں بھی سیڑھیاں بنائی گئی ہیں جبکہ عملے کا رویہ بھی درست نہیں ہے۔ لاہور کو ’’بیریئر فری‘‘ قرار دیا دیا گیا تھا لیکن یہاں ہمارے لیے بہت ساری رکاوٹیں ہیں اور کوئی سہولت نہیں ہے۔

اگر دوسرے ممالک میں معذوروں کو دی جانے والی سہولیات کا10فیصد بھی ہمیں دے دیا جائے تو حالات بہت بہتر ہوجائیں گے۔ خدمت کارڈ کے ذریعے پنجاب حکومت نے معذور افراد کو 12سو روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا ہے جو بہت کم رقم ہے، اس میں گزارہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک اس اعلان پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ اگر معذور افراد کی نقل و حرکت کا معاملہ حل کردیا جائے تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ حکومت کو معذور افراد کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ معذور افراد کے لیے نارمل لوگ پالیسی بناتے ہیں جنہیں ان کے مسائل کا ادراک نہیں ہے، میرے نزدیک معذوروں کے حوالے سے پالیسی سازی میں معذور افراد کو شامل کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔