دیواری آرایش کے دل فریب انداز

علینہ ملک  پير 5 دسمبر 2016
ڈرائنگ روم، لیونگ روم اور برآمدے کے ساتھ ساتھ اب باورچی خانے اور غسل خانے کی بھی ایک دیوار پر سجاوٹ کا یہ منفرد طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

ڈرائنگ روم، لیونگ روم اور برآمدے کے ساتھ ساتھ اب باورچی خانے اور غسل خانے کی بھی ایک دیوار پر سجاوٹ کا یہ منفرد طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

اینٹوں اور سیمنٹ کے بنے ہوئے گھر کو اس کے مکینوں کا دَم ہی گھر کے مرتبے پر فائز کرتا ہے۔ اہمیت مکان کی نہیں، بلکہ گھر کی ہوتی ہے اور اگر گھر کے مکین اچھے جمالیاتی ذوق کے مالک ہوں، تو گھر کسی خواب نگر کا روپ دھار لیتا ہے۔

توجہ نہ دی جائے، تو شاید گھر صرف ایک مکان ہی رہ جائے، گھر کی سجاوٹ میں پیسہ اور وقت اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنا اس کی ترتیب اور تشکیل اہمیت رکھتی ہے اور ایسا گھر سکون کے باعث جنت ارضی لگنے لگتا ہے۔ ضروری نہیں کہ منہگی اشیا ہی گھر کو خوب صورت اور پر کشش بنائیں، کچھ لوگ کم بجٹ میں بھی گھروں کو اپنے ذوق جمال سے ایسا سجاتے ہیں کہ دیکھنے والے داد دیے بنا نہیں رہ پاتے۔

گھر کی آرائش اور سجاوٹ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے اور بلاشبہ گھروں کی آرائش ایک فن ہے۔ جسے کوئی باذوق انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔ اپنا گھر بنانا کس کی خواہش نہیں ہوتی اور جب گھر اپنا ہو تو اس کو سجانا اور سنوارنا بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے گھر کی آرائش یا سجاوٹ اس قدر دل فریب ہو کہ ہر آنے والا شخص تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔

اس کا گھر دوسروں کے گھروں کے مقابلے میں انفرادیت کا حامل ہو اور سب سے جدا نظر آئے۔ گھروں کی آرائش کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔کچھ لوگ فرنیچر پر خاص توجہ دیتے ہیں اور کچھ دیواروں، چھتوں اور دروازوں پر زیادہ محنت کرتے ہیں اور کچھ لوگ پردوں اور قالین کے انتخاب پر توجہ دیتے ہیں، جب کہ گھر کی آرائش اور سجاوٹ اس قسم کی ہونی چاہیے کہ لوگ آپ کے ذوق اور سلیقہ کے معترف ہو جائیں۔ گھروں کی خوب صورتی اور سجاوٹ میں ہر چیز برابر کی اہمیت رکھتی ہے۔

فرنیچر، پردے، قالین، ڈیکوریشن پیس اور دیواروں کی آرائش سب کے انتخاب میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ گھر بنانے کے بعد جو چیز سب سے زیادہ توجہ طلب ہوتی ہے، وہ گھر کی دیواریں ہیں۔ دیواروں کی آرائش ایک اچھوتا احساس ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ اس طرف کچھ خاص توجہ نہیں دیا کرتے تھے، مگر آج کے دور میں دیواروں کو سجانا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ دیواروں کی آرایش کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ووڈ ڈیزائنگ کرتے ہیں، کچھ مختلف مصوری کے نمونے اور دست کاریوں سے دیواروں کو دل کش بناتے ہیں اور کچھ لوگ دیدہ زیب وال پیپر کا استعمال کرتے ہیں۔

٭وال پیپرز (Wallpapers)
گھر کی تعمیر کے بعد جب اس کی تزئین وآرایش کا مرحلہ آتا ہے تو اس سوال کا جواب ڈھونڈا جاتا ہے کہ گھر کی دیواریں کیسی ہوں۔ اس کے لیے رنگوں کے انتخاب پر بہت غور وخوص کیا جاتا ہے۔ عام طور پر بہت سے لوگ دھیمے رنگ پسند کرتے ہیں، کیوں کہ اس سے کمروں میں روشنی کا احساس اجاگر رہتا ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بھی بنتے ہیں۔ کسی زمانے میں دیواروں پر رنگ کے ساتھ ساتھ وال پیپرز بھی لگائے جاتے تھے، تاکہ دیواریں دل کش دکھائی دیں، لیکن پھر رفتہ رفتہ اس کا رجحان ختم ہوگیا تھا، تاہم آج کل دوبارہ یہ طریقہ دیکھا جا رہا ہے اور لوگ دیواروں کی ارائش کے لیے وال پیپرز کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ وال پیپرز، رنگ وروغن کے مقابلے میں سستے اور دیرپا ہوتے ہیں۔

ہم میں سے اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو گنجایش کے باوجود روغن اس لیے نہیں کروا پاتے کہ گھر کا بھاری فرنیچر کیسے اٹھایا جائے اور اور پھر پینٹ کروانے کے بعد اس کے سوکھنے کا انتظار اور طرح طرح کے جھمیلوں سے کیسے نبٹیں گے، پھر گھر کو ازسرنو ترتیب دینے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ روغن موسمی اثرات سے بھی جلد متاثر ہوتا ہے اور خراب ہونے لگتا ہے اور کچھ ہی عرصے بعد دیواریں بدنما لگنے لگتی ہیں، جب کہ وال پیپرز میں ایک حفاظتی تہہ ہوتی ہے، جو ان کو نہ صرف نمی سے محفوظ رکھتی ہے، بلکہ واٹر پروف بھی بناتی ہے۔ اگر ان پر کوئی داغ یا دھبہ لگ جائے تو بھی آسانی سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ یہ چوں کہ چمک دار ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر کمرے کی کسی ایک دیوار پر بھی اس کا استعمال کیا جائے، تو یہ کمرے کی خوب صورتی کو دو چند کر دیتے ہیں۔

٭ووڈ پینلنگ(Wood Paneling)
دیوار کی خوب صورتی کے لیے آج کل ’ووڈ پینلنگ‘ کا طریقہ بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس کے ذریعے گھر کے کسی بھی کمرے کی دیوار کو بہترین طریقہ سے سجایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے گھر کے انٹیرئیر اور فرنیچر سے ملتے جلتے رنگ اور انداز کی لکڑی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

مضبوط اور قدرتی لکڑی سے بنا یہ ڈیزائن عام کمرے کو بھی خاص بنا دیتا ہے۔ ووڈ پینلنگ اب نئے اور جدید طرز کے گھروں کے لیے ایک منفرد چیز ہے، جو کہ گھروں کی خوب صورتی اور وقار میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ اس سے گھر کا ڈیزائن، اسٹائلش اور آرام دہ لگتا ہے۔ وال پینلنگ میں لکڑی کے مختلف اور منفرد ٹکڑوں کو جوڑ کر کمرے کو اچھا تاثر دینے اور نمایاں کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وال پینلنگ میں بے شمار اقسام کے باعث اس کے استعمال سے کمرے کو مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ یہ پینل رنگین ہوں یا ایک ہی رنگ کے، ہر طرح سے خوب صورت لگتے ہیں ۔

٭وال کلیڈنگ (Wall Cladding)
’وال کلیڈنگ‘ بھی وال پینلنگ کی ایک قسم ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ وال پینلنگ میں انداز سادہ اور بردبار ہوتا ہے، جب کہ وال کلیڈنگ ایک ابھرا ہوا نقش ونگار ہے۔ دیواری آرائش کی یہ قسم باقی تمام اقسام میں سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ وال کلیڈنگ کی دیکھ بھال بھی بہت آسان ہے، کیوں کہ یہ قدرتی لکڑی سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں رنگ کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ انٹیریر ڈیزائن کا وہ طریقہ ہے جو گھر کے کسی بھی حصے اور دیوار کے لیے موزوں ہوتا ہے۔

٭وال اسٹیکر (Wall Stickers)
دیواروں کی سجاوٹ کے لیے اسٹیکرز کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ یہ اسٹیکرز خوب صورت اور دیدہ زیب ڈیزائن میں بہت ارزاں نرخ پر دست یاب ہیں، جن پر مختلف طرح کے نقش ونگار اور تصاویر بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان اسٹیکرز کو بہ ذریعہ انٹر نیٹ خریدا جا سکتا ہے۔ ان کے استعمال سے کمرے کے کسی بھی حصے کو دل کش روپ دیا جا سکتا ہے۔

وال پینٹنگز اور وال ہینگنگ (Wall Pantings & Wall Hanging)
عام طور پر بہت سے لوگ دیواروں کی سجاوٹ کے لیے مصوری کے مختلف نمونوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ بہت سے بعض لوگ خاصے باذوق ہوتے ہیں۔ انہیں نام وَر مصوروں کے بنائے ہوئے شاہ کارجمع کرنے کا شوق ہوتا ہے اور وہ اپنے گھر کی دیوار وں کو ہی ’آرٹ گیلری‘ بنا لیتے ہیں۔ مصوری کے علاوہ خوب صورت ’وال ہینگنگز‘ اور وال پیس سمیت مختلف چھوٹی بڑے فریم دیواروں کی رونق بڑھانے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔

ضروری نہیں کے منہگے شاہ کار استعمال کیے جائیں۔ آپ خود بھی اگر اچھے آرٹسٹ ہیں، تو اپنے ہاتھ سے بنائی گئی پینٹنگ اور وال ہینگنگ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ دالان اور برآمدے کی دیواروں پر ان آرایشی چیزوں کا مناسب استعمال ان کی خوب صورتی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ خوب صورت دیدہ زیب گھڑیاں اور ’اینٹیک پیس‘ بھی دیواروں کو دل کش بناتے ہیں۔

٭دیدہ زیب شیشے (Beautifull Wall Mirrors)
شیشہ زمانہ قدیم سے ہی ہماری اہم ضرورت رہا ہے۔ بدلتے زمانے کی رُتوں نے اسے اور خوب صورت بنا دیا ہے اور اب انہیں دل فریب اور دل کش فریم اور ڈیزائن میں اس طرح بنایا جاتا ہے کہ یہ اب واش روم اور بیڈ روم کے علاوہ بھی گھر کی دیواروںکی آرایش کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ چناں چہ خوب صورت اور دیدہ زیب شیشوں کا استعمال بھی گھروں کی خوب صورتی کو چار چاند لگانے کا باعث بن رہا ہے۔

گھروں میں شیشے کا مختلف جگہوں پر استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں دالان یا برآمدہ ہے، تو اس میں آپ شیشے کا استعمال کر سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اگر بر آمدہ تنگ بھی ہے، تب بھی شیشے کا استعمال کیا جا سکتا ہے، کیون کہ اس سے وہ جگہ کشادہ محسوس ہوتی ہے۔ اگر گھر میں سیڑھیاں ہیں، تو اس کے ساتھ موجوجود دیوار پر دیدہ زیب شیشے استعمال کر کے اس کو جاذب نظر بنا سکتے ہیں۔

اگر شیشوں کا استعمال گھر کے داخلی راستوںپر کیا جائے، تو یہ نہ صرف آنے والے مہمانوں کی توجہ کھینچ سکتے ہیں، بلکہ یہ آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوا محسوس ہوگا۔ گول، بیضوی اور چوکور کے علاوہ ان کی مختلف تراش خراش بھی کی جاتی ہے۔ دیوار کی قامت اور کمرے یا برآمدے کی گنجائش کے حساب سے ان کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

٭ برک وال (Brick Wall)
منہگائی کے اس دور میں مہنگی پینٹنگ اور قیمتی آرائشی چیزوں کے بغیر بھی دیواروں کی سجاوٹ کی جاسکتی ہے۔ اس کا ایک آسان طریقہ ہے پختہ سرخ اینٹوں کی دیوار بنوا کر جدید انٹیریئر ڈیزائنگ کا انداز دیا جائے۔ اس کے علاوہ ہال کمرے میں موجود پلرز کو سادہ اینٹوں سے سجا کر گھر کی خوب صورتی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

کمرے کی دیواروں کو اینٹوں سے سجانے کے لیے کسی ایک دیوار کا انتخاب کر نا چاہیے۔ ایسی دیوار جس میں کوئی دروازہ یا کھڑکی نہ ہو، کمرے کی سب سے بڑی دیوار اس مقصد کے لیے استعمال کی جانی چاہیے۔ اس طرح کے ڈیزائن میں اس بات کا خیا ل رکھیں کے ان میں کھدری اینٹوں کا استعمال ایک دیوار سے زیادہ پر نہ کیا جائے، ورنہ یہ منفرد کے بہ جائے بھدا لگے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ ایسے کمرے میں جہاں اینٹوں والی دیوار بنائی گئی ہو، وہاں دوسری دیواروں پر ہلکے رنگ کا روغن کرایا جائے، تاکہ کمرے میں روشنی کا احساس رہے ورنہ گہرے رنگوں سے کمرہ مکمل طور پر تاریک معلوم ہوگا۔

ڈرائنگ روم، لیونگ روم اور برآمدے کے ساتھ ساتھ اب باورچی خانے اور غسل خانے کی بھی ایک دیوار پر سجاوٹ کا یہ منفرد طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔ اینٹوں کے ابھار اور خدوخال کا نقش ایسا نہیں کہ اس کا ابھی اس کا رواج ہے اور اگلے موسم تک یہ پرانا یا متروک ہو جائے گا، بلکہ اسے ہم سدا بہار طریقۂ آرائش کہہ سکتے ہیں، لہٰذا اسے ’آوٹ آف ڈیٹ‘ ہونے کی فکر کے بغیر اپنایا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔