دوزخ کی خوشیاں

اقبال خورشید  منگل 6 دسمبر 2016

کپل واستو کا شہزادہ، خالی ہاتھ، جنت اورجہنم کے دروازے پر پہنچ چکا ہے، مگر یہ یاترا کا انت نہیں، فقط ایک پڑاؤ ہے۔

جب ڈاکٹر وزیرآغا کی اس یاتری پر نظر پڑی، تو اسے ایک ایسا سچا کلاکارکہہ کر پکارا، جس نے بیسویں صدی کی کرب انگیزکروٹوں کو ٹھیک ویسے محسوس کیا، جیسے گوتم بدھ نے شخصی زندگی کا کرب محسوس کیا تھا۔انور سدید نے فکشن کو اِس یاتری کا داخل بھی ٹھہرایا اورخارج بھی۔۔۔اس تمہید کا محرک اے خیام کا تیسرا پڑاؤ، یعنی تیسرا افسانوی مجموعہ ’’جنت جہنم‘‘ ہے، تاہم اس کے فنی محاسن پر بات کرنے کی ذمے داری میں اپنے سینئر ز پر چھوڑتا ہوں، میں تو فقط خیام سے متعلق اپنے خیالات بانٹا چاہوں گا۔

میں خود کو اپنی نسل کے خوش قسمت ترین فکشن نگاروں میں شمارکرتا ہوں، جسے سینئرز کی بھرپور توجہ ملی۔ بعد میں تو مستنصر حسین تارڑ، حسن منظر، اسد محمد خاں اور سلیم الرحمان نے بھی حوصلہ افزائی کی، مگر جنھوں نے اوائل میں کاندھا تھپکا، ان تین شخصیات کا تذکرہ ضروری۔ اعترافات کے اس سلسلے کا آغاز معروف فکشن نگاراور صحافی، جناب زیب اذکارسے کرتے ہیں۔

جی ہاں، ان ہی کی تحریک پرکراچی پریس کلب میں سینئر ادیب، طاہر نقوی کی کتاب پر مضمون پڑھنے کی ہمت جٹائی تھی اور پھر پریس کلب ہی میں پہلا افسانہ بھی پڑھا۔ دوسرا نام احسن سلیم مرحوم کا ہے، جنھوں نے ہمیں اجرا میں تواتر سے چھاپا اور خود کو دریافت کرنے کا موقع دیا۔ اور تیسرا نام ہے، جناب اے خیام کا، جنھوں نے ہمارے افسانے توجہ سے پڑھے، پسند کیے، اور اُن کا تذکرہ کیا۔۔۔تو اے خیام میرے محسن ہیں، اِس کے باوجود میں ان کی کتاب پر بات کرتے ہوئے یکسر غیرجانبدار رہوں گا۔ برائے مہربانی میری بات پر یقین کرلیجیے، آپ سیاست دانوں کی باتوں پر بھی یقین کرلیتے ہیں۔

گو ہم میں زیب اذکار جتنی تخلیقی جرات نہیں کہ اشکال کی صورت کہانی بیان کرسکیں، نہ ہی اتنی زرخیزی کہ ’’جنم کنڈلی‘‘ یا ’’خوشیوں کا باغ‘‘ جیسا تجربہ کریں۔ مگر ہم اُس گروہ میںبھی فٹ نہیں بیٹھتے، جو افسانے میں کہانی کو ’’اصل شے‘‘ اور ’’ابلاغ ‘‘ کو پہلی شرط ٹھہراتا ہے۔ مجھے غلط مت سمجھیے، میں ان عناصر کا نہ تو مخالف ہوں، نہ ہی منکر، بلکہ  اخلاق احمد،  محمد حنیف اور  سائرہ غلام نبی کی مہربانی سے دن بہ دن ان کی اہمیت کا قائل ہوتا جارہا ہوں۔ البتہ میرے نزدیک یہ ادبیت ہے، جو تحریر کو ادب بناتی ہے، تاثر ہے، جو تفہیم سے زیادہ اہم۔ ورنہ کہانی اور ابلاغ کی شرط تو ڈائجسٹ ادب بھی پوری کردیتا ہے۔ تو دو عناصر، یعنی ادبیت اور تاثر، اے خیام کے فکشن میں۔۔۔ جدیدیت کی مثبت قدروں کے ساتھ جلو گر دِکھائی دیتے ہیں۔ اردو فکشن کو کراچی نے اسد محمد خاں، حسن منظر، زاہدہ حنا ، نور الہدیٰ سید اور اخلاق احمد جیسے نام دیے، اس قابل فخر فہرست میں اے خیام کا نام بھی شامل ہے۔

اب نہ تو انھیں تعارف کی ضرورت، نہ ہی تعریف کی، ایک ملاقات میں کہنے لگے’’ اب تو یہی خواہش ہے کہ اگر کسی کوکوئی خامی دکھائی دے، تو اس کی خبر دے۔‘‘ اگر میں مشکل پسندی کو ادب کا جزو ٹھہرانے والے کسی سخت گیر، تنک مزاج نقاد کا روپ اختیارکر لوں، تو بھنا  کہوں گا؛ بھائی، یہ کیسے افسانے ہیں، پڑھنے میں سہل، لطف بھی دیتے ہیں، ابلاغ میں دقت پیش نہیں آتی، اور کم بخت کوئی ابہام بھی نہیں۔۔۔ہمارے پیارے نقاد کو خبر ہی نہیں ہوگی کہ ان  کی بھناہٹ کتاب کے قارئین میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

ایسا نہیں کہ اس کتاب میں عصر حاضر کے پر پیچ مسائل کو موضوع نہیں بنایا گیا، بلکہ معاملہ اس کے الٹ ہے کہ اس میں جنت جہنم، غم حسین کے سوا، چلہ کشی اور تاویل جیسے افسانے ہیں، جو آج کے انسان کی کہانی بیان کرتے ہیں اور پھر’’بدبو‘‘ جیسا خوب گندھا ہوا،گتھا ہوا پراسرار فضا کا افسانہ۔ کمال یہ ہے کہ یہ افسانے کہانی کی پیچیدگی قاری پر عیاں نہیں ہونے دیتے۔ افسانے ’’سگ زمانہ اور پرانی حویلی، جن میں ناسٹلجیا کی جھلک، ادھر بھی نامعلوم کا اسرار موجود ، مگر اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔

اس کا ایک سبب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اے خیام ادب کو نظریے میں قید کرنے کے قائل نہیں۔ مقصدیت سے انکار نہیں، مگر روایتی رنگ ڈھنگ سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ایک خاص شے، جو اس کتاب، بالخصوص ’’بدبو ‘‘ اور’’چلہ کشی‘‘ جیسے افسانوں سے نئے فکشن نگار سیکھ سکتے ہیں، وہ پُرپیچ صورت حال کو بھاری بھرکم، چیختے چلاتے، غصیل لفظوں کی مدد لیے بغیر بیان کرنا ہے۔

ہمارا نوویلا’’ تکون کی چوتھی جہت‘‘ جب  شمس الرحمان فاروقی تک پہنچایا، تو انھوں نے اِس بات کو غیرمعمولی ٹھہرایا کہ قاری پر اپنا نقطۂ نظر حاوی کرنا تو دورکی بات، فکشن نگار نے اپنا نقطۂ نظر ظاہر ہی نہیں ہونے دیا۔۔۔اُنھوں نے جس شے کی تعریف کی، اسے میں اپنے فکشن کے برعکس اے خیام کا فکشن پڑھ کر بہتر انداز میں سمجھ سکا۔ جہاں جو کچھ کہا جارہا ہے، بیان کیا جارہا ہے ، اس کا مقصد آخر میں جو Un Said ہے، اَن کہا ہے، منطق ہے، اس سے پردہ اٹھانا نہیں۔  کبھی کبھی Un Said افسانہ ختم ہونے کے بعد بھی Un Said ہی رہتا ہے۔ پردہ پڑا رہا، کہانی مکمل ہوئی۔ اتنے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کے بعد ایسا افسانہ لکھنے کے لیے جو برداشت درکار، وہ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔

عزیزو، میں آپ سے ایک سوال پر غورکرنے کی درخواست کروں گا کہ آخر ایک ادیب، موجودہ حالات میں جب ہر سوں گرانی ، بے قیمتی کی المیہ، اتنی جگر سوزی کرکے آخر ادب تخلیق ہی کیوں کرتا ہے؟ موجودہ حالات میں، جہاں ادب حاشیے پر بھی نہیں، ادیب رائے عامہ کا نمایندہ نہیں رہا، سماج اسے اہمیت دینے کو تیار نہیں۔۔۔ان حالات میں پہلے ادیب لکھتا ہے، پھر اپنے پیسوں سے کتاب چھپواتا ہے، پھر اسے تقسیم کرتا ہے، پھر منتظر رہتا ہے کہ کتاب پر کچھ لکھا جائے، ادیب جو پہلے ناشروں کے استحصال کا شکار بنتا ہے، پھر قارئین کی کمی کا کرب سہتا ہے، اور آخر میں نقاد کی عدم توجہ کا درد سہتا ہے۔ تو سوال ہے کہ آخر ادب۔۔ لکھتا کیوں ہے؟

اے خیام کے اپنے الفاظ میں، لکھنا ان کی مجبوری ہے، اس لیے لکھتے ہیں کہ معاشرے میں موجود رہیں، اس لیے لکھتے ہیں کہ بوجھ اتر جائے، کچھ راحت ملے اور میرے نزدیک، اس لیے لکھتے ہیں کہ اس سے ان کی مسرت جڑی ہے، یہ ان کی دل کی آواز ہے۔ یہ ان کی روح کی پکار ہے۔۔۔ تواگلی بار جب آپ اے خیام کے افسانے پڑھیں، تو یہ ذہن میں رکھیے گا کہ یہ فقط ادبی تخلیقات نہیں، بلکہ خوشیاں ہیں۔ وہ خوشیاں جن تک رسائی کے لیے تخلیق کارایک دوزخ سے گزرا ہے۔ یہ دوزخ سے حاصل کردہ خوشیاں ہیں صاحب۔ فقط یہی خیال مطالعے کا لطف دوبالا کر دے گا۔

(یہ مضمون 26 نومبر 2016 کو کراچی پریس کلب میں پڑھا گیا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔