شام کی خوں آشام جنگ

تنویر قیصر شاہد  بدھ 7 دسمبر 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یہ عالمِ اسلام کی اجتماعی بدقسمتی ہے کہ چند ہی ایسے اسلامی ممالک ہوں گے جہاں اس وقت کامل امن کا دَور دَورہ ہوگا۔ زیادہ تر مسلمان مملکتیں اندرونی خلفشار، باہمی تصادم، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی لعنتوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ شرقِ اوسط کا مشہور عرب ملک، شام، بھی انھی بدقسمت ممالک میں شامل ہے۔گزشتہ پانچ سال سے یہ ملک غیر ممالک کی مداخلت، دہشت گردی، فرقہ پرستی اور خانہ جنگیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات اور اعداد و شمار کے مطابق، اب تک شام میں تقریباً تین لاکھ افراد قتل ہوچکے ہیں۔ غیر ممالک کے لیے جن شامیوں کو ہجرت کرنا پڑی ہے ان کی تعداد 50 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ تقریباً سات لاکھ شامی شہری محصوری کے عذاب کا دکھ جھیل رہے ہیں۔ روسی نیوز ایجنسی (آر آئی اے) کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں شام کو ڈھائی سو ارب ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر یہ ڈھائی سو ارب ڈالر شامی خزانے میں رہتے تو شام کی ترقی کا کیا عالم ہوتا!!

شام کی اس خوں آشام جنگ نے شام کو کئی حصوں میں عملی طور پر بانٹ رکھا ہے۔ صدر بشارالاسد کے پاس شام کا صرف ایک تہائی حصہ رہ گیا ہے۔ لبنان، عراق اور افغانستان کے جنگجو جتھے، اپنے اپنے لیڈروں کی قیادت میں، صدر بشار کی حکومت سے جنگ آزما ہیں۔ ستمبر 2015ء کے آخری ہفتے روس نے باقاعدہ شامی حکومت کے مخالف جتھوں اور گروہوں کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا۔کچھ روسی فوجیں بھی شام کی سرزمین پر اتریں مگر اب وہ واپس جا چکی ہیں لیکن روسی قائد پوٹن کا کہنا ہے کہ یہ دستے دوبارہ بھی شام میں اتارے جاسکتے ہیں۔ ایران بدستور صدر بشار کی حمایت میں کھڑا ہے۔ اسی وجہ سے سعودی عرب کی قیادت امریکا، شام اور ایران سے ناراض ہے۔

داعش، القاعدہ، جبۃ النصرہ، احرار الشام، جبۃ الاسلامیہ، جیش الفتح اور جیش الاسلام ایسے جہاد گروپوں نے شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ (’’داعش‘‘ کا دعویٰ ہے کہ وہ شام کے چالیس فیصد حصے کی حکمران ہے) ان کے علاوہ کُردوں اور یزدیوں کے مسلح گروپ بھی اپنے اپنے علاقوں میں ڈٹے ہوئے اور مخالفین کا خون بہا رہے ہیں۔’’داعش‘‘ میں کئی مغربی ممالک کے نوجوان مردوں اور عورتوں نے بھی حصہ لے رکھا ہے۔ اسی منظر نے امریکا اور مغربی ممالک کو شدید تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔

شام کے شمال اور شمال مشرق میں کُردوں نے اپنی جماعت وائی پی جی کے تحت قائم کر رکھی ہے۔ یہ جماعت شام، ترکی، عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں میں پھیلے کردوں کی جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے۔ فروری 2016ء میں ترک حکومت نے اس جماعت، وائی پی جی، کے مسلح کارکنوں پر ہوائی اور زمینی حملہ بھی کیا تھا۔ ترکی نے الزام لگایا ہے کہ حالیہ دنوں میں ترکی کے مختلف شہروں میں جو خود کش حملے ہوئے ہیں، وہ اسی کُرد پارٹی کی شرارتوں اور شیطانیوں کا حصہ تھا۔

’’داعش‘‘ شام کے ان علاقوں پر قابض ہے جہاں سے تیل نکل رہا ہے۔ کئی مغربی، مشرقی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر اس شک و شبہ کا کھلا اظہار کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے ’’داعش‘‘ کو ہر قسم کی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ ’’احرارالشام‘‘ ایسی خوفناک جہادی تنظیم کے بارے میں بالعموم کہا جاتا ہے کہ اسے 2011ء میں جب اس کی اساس رکھی گئی تو اسے ترکی اور خلیجی ریاستوں کی حمایت حاصل تھی۔

ابوبکر البغدادی کہنے کو شام میں ’’داعش‘‘ کے مطلق سربراہ ہیں لیکن حقیقتِ حال سے باخبروں کا دعویٰ ہے کہ داعش باطنی طور پر کئی قیادتوں میں بَٹ چکی ہے، بالکل اُسی طرح جیسے افغانستان اور پاکستان کے طالبان کئی گروہوں میں تقسیم ہوچکے ہیں اور ہر گروہ کا اپنا قائد ہے۔ قیادتوں اور پرچموں کی یہ تقسیم دراصل مالی مفادات کے حصول کی وجہ بھی ہے اور چودہراہٹ کی لذّت حاصل کرنے کی آرزو بھی۔

شامی صدر بشار صاحب نے شام کو بچانے کا آخری راستہ یہ نکالا ہے کہ نئے آئین کے تحت شام کی حزبِ اختلاف کو بھی حکومت میں برابر کا حصہ دیا جائے۔ جنیوا میں جاری مذاکرات نئے شامی آئین کی ڈرافٹنگ کی جارہی ہے۔ اتنا بھاری مالی اور جانی نقصان، جس کی تلافی کسی بھی طرح ممکن نہیں، اٹھانے کے بعد اب شامی صدر بشار الاسد اپوزیشن کو حکومت میں شامل کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ کاش، یہ فیصلہ پانچ سال قبل کر لیا جاتا جب دمشق کے آس پاس اپوزیشن جماعتوں نے مسلح کارروائیاں شروع کی تھیں۔

حقیقت یہ ہے کہ شام کی خوں آشام جنگ نے شام ایسے شاندار اور اسلامی تاریخ میں اہم مقام رکھنے والے ملک کو کئی حصوں میں منقسم کر رکھا ہے۔ یہ تقسیم نسلی بھی ہے، لسانی بھی اور مسلکی بھی۔ نام تو سب اسلام ہی کا لیتے ہیں لیکن خالص اسلام کی قابلِ فخر روح، جس نے جسدِ شام کو یکجا اور یک جہت کر رکھا تھا، عملی اعتبار سے ثانوی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ انتشار و افتراق کے اس طوفان میں غیر اسلامی قوتوں کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے ’’سنہری‘‘ مواقعے مل رہے ہیں؛ چنانچہ بلند آواز سے اب یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ شام کو تقسیم کرکے سات چھوٹے چھوٹے آزاد ممالک کی شکل دے دی جائے۔

عثمانی سلطنت کو 1916ء میں توڑ کر مغربی سامراج (برطانوی اور فرانسیسیوں) نے یہی کام کرکے مسلم طاقت کی جمعیت بکھیر دی تھی اور اب یہی شیطانی اور مفسدانہ کام ایک نئے طریقے سے بروئے کار لانے کی سعی کی جارہی ہے۔ اسرائیلی خواہش بھی یہی ہے کہ شام، جس نے کبھی مصر اور اردن کے ساتھ مل کر اس پر حملہ کیا تھا، کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں؛ چنانچہ رواں برس جب اسرائیلی کٹر یہودی وزیراعظم نے ’’ڈیووس‘‘ کا دورہ کیا تھا تو اس نے معروف اسرائیلی اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’اگر شام تقسیم ہوجاتا ہے تو اس سے مشرقِ وسطیٰ میں امن ہی قائم ہوگا۔‘‘

سب لوگ جانتے ہیں کہ اس ’’امن‘‘ کا دراصل مطلب کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایک طرح سے اس کوشش میں ہے کہ شام تقسیم در تقسیم کا شکار بن جائے؛ چنانچہ اسرائیل کے اشارے پر 1982ء میں ایک مغربی صحافی، اوڈڈ یانون، نے Strategy  For  Israel  in  Ninteen  Nineties نامی کتاب لکھی تھی کہ شام کے ٹوٹنے سے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے بہت سے خواب کس طرح پورے ہوسکتے ہیں۔ اب یوں لگتا ہے جیسے اوڈڈ یانون کا دکھایا گیا خواب پورا ہونے کے قریب ہے۔

اسرائیل، امریکا اور مغربی ممالک کا منصوبہ یہ ہے کہ شام کو سات حصوں میں تقسیم کرکے سات آزاد ممالک بنا دیے جائیں۔ منصوبہ سازوں کے مطابق، شام میں دوسنی ریاستیں، دو شیعہ ممالک، ایک دروز ریاست، ایک کُردوں کا ملک اور ایک ملک گولان کی پہاڑیوں میں بنا دیا جائے جہاں شامی عیسائی اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ گولان کی پہاڑیوں، جو اسرائیل کے زیرِ قبضہ ہیں، میں بنائے جانے والے نئے مجوزہ عیسائی ملک میں قدیم عیسائی باشندوں (قبطی) کو بھی بسانے کا پروگرام بن رہا ہے تاکہ انھیں مصر کے اسلامی شدت پسندوں کی ’’زیادتیوں‘‘ سے بچایا جاسکے۔

یہ منصوبہ بنانے والوں کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا تو بشار الاسد کے حامیوں کو ’’علوی ریاست‘‘ بحیرہ روم کا کنارہ دیا جائے گا تاکہ وہ سمندری ساحل پر بسنے کی وجہ سے بیرونی دنیا سے آزادنہ تعلقات مستحکم کرسکیں۔ ایک سنی ریاست شمال میں حلب کے آس پاس اور دوسری عراقی سرحد سے متصل بنائی جائے گی۔ ان دونوں ریاستوں میں ’’داعش‘‘ والے آزادانہ حکمرانی کر سکیں گے۔ علی ھذالقیاس۔ سرزمینِ شام کی یہ تصوراتی یا مجوزہ Balkanization پر شام کے عرب دشمن ممالک کو خوشی اور اطمینان کا ہر گز ہر گز اظہار نہیں کرنا چاہیے۔

خدشات ہیں کہ اگر، خدانخواستہ، شام کی یہ تصوراتی تقسیم عملی شکل اختیار کرلیتی ہے تو باقی عرب ممالک بھی، اسرائیلی اور مغربی ممالک کی سازشوں کی تاب نہ لا کر، اپنی اپنی تقسیم کے بتدریج عمل سے بچ نہیں سکیں گے؛ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عرب ممالک متحد اور متفق ہوکر شامی صدر بشار الاسد سے اپنے متنازعہ معاملات کا خود ہی کوئی حل نکالیں اور شام کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے محفوظ بنالیں۔ یہ کوشش و مساعی خود ان کے اپنے وجود کے اتحاد کی ضمانت بنے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔