لوٹ پیچھے کی طرف‘ اے گردش ایام تو

رئیس فاطمہ  ہفتہ 22 دسمبر 2012

میں اکثر سوچتی ہوں کہ ہمارے بزرگ ہم سے کہیں زیادہ خوش قسمت تھے، ہر معاملے میں۔ سب سے پہلے تو رشتوں کے حوالے سے کہ ایک ہی محلّے اور ایک ہی گھر میں کئی کئی نسلیں جوان ہوجاتی تھیں، نہ بیاہ کر آنے والیاں دوسرے ہی دن نئے نویلے شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرتی تھیں، نہ ہی فرماں بردار بیٹے نئی نویلی دلہن کی باتوں میں آکر بہت دور بستیاں بسانے نکل جاتے تھے مائیں اپنی بیٹیوں کو تربیت ہی ایسی دیتی تھیں، جو گھر اور رشتوں کو جوڑ کر رکھنے کے لیے ہوتی تھی۔ محلّے والے رشتے داروں سے بڑھ کر حق ہمسائیگی نبھاتے تھے ’’ہمسایہ ماں جایا‘‘ ایک زندہ حقیقت تھی۔ پورا محلہ ایک دوسرے کو جانتا تھا، مجھے لگتا ہے کہ جس طرح آج ہم اپنے والدین اور بزرگوں کی گزاری ہوئی زندگیوں پہ رشک کرتے ہیں، بالکل اسی طرح آنے والی نسل ہم پر رشک کرے گی کہ ان کی زندگیاں ہر لحاظ سے بہت مشکلات کا شکار ہونے والی ہیں۔

ہمارے والدین کے زمانے میں ٹیلی فون عام نہیں تھا،ہمارے بچوں کی زندگیوں میں انٹرنیٹ، آئی پیڈ اور دیگر سہولتوں نے دھوم مچادی، لیکن اس افراتفری میں اصل انسان کہیں کھوگیا، موبائل فون، آئی پیڈ اور انٹرنیٹ نے انسان کو تنہا کردیا، وہ اپنے ہی گھر میں اکیلا ہوگیا، سماجی رابطے ٹوٹ گئے کہ اب تو کھانے کی میز پر بھی سب گھر والے اکٹھے نہیں ہوتے، ان عذابوں کے علاوہ ہم لوگ ایک اور عذاب کے نرغے میں بھی پھنسے ہوئے ہیں، وہ ہے بے تحاشہ مہنگائی اور غیر معیاری غذائی اشیاء کی فراوانی۔ جس کی وجہ سے بہت سے ایسے پکوان ہماری روزمرہ کی زندگی سے نکل گئے، جن سے ہمارے والدین اور بزرگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ اب سردیوں ہی کو لے لیجیے، اپنے بچپن اور لڑکپن میں ہم نے کوئی سردی ایسی نہیں دیکھی جس میں گاجر کا حلوہ اور گجر بھتّا اور گجریلا بنتا نہ دیکھا ہو۔ گاجر کی خاصیت گرم ہے اور یہ قدرتی طور پر سردیوں ہی میں آتی ہے۔

بھرے پرے خاندانوں میں گاجریں کدوکش کرکے حلوہ بنایا جاتا تھا۔ جنھیں پہلے دودھ میں پکایا جاتا تھا اور جی بھر کے بادام، پستے اور کشمش ڈالی جاتی تھی، گجریلے میں بھی حسب دل خواہ میوے پڑتے تھے، لیکن اب گاجریں بھی کسی طرح پچاس روپے کلو سے کم نہیں، دودھ کے نرخ روزبروز بڑھ رہے ہیں اور خشک میوہ جات تو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ بجائے دودھ کے کھویا ڈالا جاتا ہے، جو عام طور پر باسی اور پرانا ہوتا ہے، جسے حلوائی بڑے بڑے کرچھوں سے اس طرح توڑتے ہیں جیسے پتھر توڑے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے کھانوں میں سردیوں میں زیادہ تر گاجر کا حلوہ ہی کھاکر لوگ ڈائیریا اور بدہضمی کا شکار ہوتے ہیں کہ یہ حلوے عموماً کئی کئی دن کے باسی ہوتے ہیں۔ اب رہ گئے سردیوں کی خاص سوغات خشک میوہ جات، تو ہر میوے کے دام آسمانوں پر چڑھے ہوئے ہیں، چلغوزے اور کاجو تو بس خواب ہی میں کھائے جاسکتے ہیں۔ البتہ اب انڈیا کا ویزا ملنے کے روشن امکانات پیدا ہوگئے ہیں، اس لیے وہاں جانے والے خوش نصیب جی بھر کے کاجو کھاسکتے ہیں کہ 2009 میں وہاں کاجو چار سو روپے کلو تھا۔ ہوسکتا ہے اب چھ سو روپے ہوگیا ۔

کیونکہ وہاں کھانے پینے کی اشیاء کے دام اس رفتار سے نہیں بڑھتے، جس طرح ہمارے ہاں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے ہاں ہر چیز کے نرخ ککڑی کی بیل یا بانسوں کے جنگل کی طرح بڑھتی ہے اور انڈیا میں اس کی رفتار آم کے پیڑ کی طرح ہوتی ہے جو بہت دیر میں پھل لاتا ہے۔ مونگ پھلی جو غریبوں کا میوہ کہلاتی ہے وہ بھی ان کی پہنچ سے دور ہے۔ ان میووں کے علاوہ سردی کی ایک خاص سوغات تل اور گڑ کے لڈّو اور گجک بھی ہے۔ ہمارے ڈاکٹر تو ویسے بھی گڑ اور تل کے حق میں بہت کچھ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دن میں کم ازکم دو مرتبہ گڑ کا استعمال ضرور کرنا چاہیے تاکہ آلودگی آپ کے پھیپھڑوں اور گلے کو نقصان نہ پہنچاسکے۔ اس کے علاوہ تلوں کا استعمال بھی سرد موسم میں قوت بخشتا ہے۔ جب بہت سے لوگ مل جل کر ایک ہی چھت کے نیچے رہتے تھے تو نانیاں، دادیاں اپنے ہاتھوں سے گڑ اور تل کے لڈّو بناکر کھلاتی تھیں۔ اب تو گڑ کی قیمت چینی سے زیادہ ہے۔ یعنی گڑ 80 روپے کلو ہے۔

مونگ پھلی اور گڑ سے بنائی ہوئی ایک اور چیز ہوتی ہے جسے گڑ پھلی یا مونگ پھلی کی ٹافی کہا جاتا ہے۔ اب اس میں بھی مزہ نہیں رہا کہ گھر کی بنی ہوئی گڑ پھلی کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔ گڑ کو پگھلایا، مونگھ پھلیاں چھلکا صاف کرکے اس میں ملائیں اور گھی لگی سینی میں پھیلا دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں جم کر سخت ہوجائے تو حلوہ سوہن کی طرح دانتوں سے توڑ توڑ کر کھایئے۔ ہاں! اس پر یاد آیا کہ سوہن حلوہ بھی تو سردیوں کی خاص سوغات ہے، جو حلوائی سرد موسم ہی میں بناتے ہیں، کیونکہ گرمیوں میں اس میں چپچپاہٹ پیدا ہوتی ہے، ایک بات سوہن حلوے کے حوالے سے اور یاد آئی کہ ملتان میں خدا جانے کیوں حبشی حلوے کو سوہن حلوہ کہا جاتا ہے جب کہ حلوہ سوہن گول ٹکیوں کی شکل میں بادام لگا ہوا ہوتا ہے اور یہ نشاستے سے بنتا ہے، لیکن اب اس کا بھی حلیہ بگڑتا جارہا ہے، سبک گول گول ٹکیوں کے بجائے بعض حلوائی محنت سے بچنے کے لیے بڑے بڑے تھالوں میں بہت موٹا موٹا حلوہ جمایا جاتا ہے، اور اس پر بھدے طریقے سے اخروٹ لگادیے جاتے ہیں جو دیکھنے میں بدنما لگتے ہیں۔

کڑاکڑاتے جاڑوں میں جہاں بستر میں گھس کر چلغوزے، مونگ پھلی، کاجو، کشمش اور اخروٹ کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے وہیں سردیوں کے پکوان بھی الگ ہوتے ہیں۔ پائے، نہاری اور شب دیگ، کیونکہ شلجم سردیوں ہی میں آتے ہیں اور وہ شب دیگ کا لازمی جزو ہیں، خواہ کوفتوں کی شب دیگ ہو یا بوٹیوں کی۔ لیکن پائے اور نہاری خالص جاڑوں ہی کے کھانے ہیں۔ نہاری جو دلّی کی خاص اور مشہور ڈش ہے اور اب پورے سال کراچی میں دن اور رات کھائی جاتی ہے، لیکن جو مزہ اس ڈش کا سردیوں میں کھانے میں آتا ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔

ہمارے دیکھتے دیکھتے مہنگائی نے بہت کچھ ہماری پہنچ سے باہر کردیا۔ پہلے تمام ڈرائی فروٹ جاڑوں کی آمد کے ساتھ ہی گھروں میں آجاتے تھے، جب کہ انجیر اور بادام عام دنوں میں بھی استعمال میں رہتے تھے۔ دماغی کام کرنے والوں کے لیے چاروں مغز، خشخاش اور بادام کا ہریرہ اصلی گھی اور چھوٹی الائچی کا تڑکا لگاکر نہار منہ پینے کے لیے دیا جاتا تھا۔ اب چھوٹی الائچی بھی بعض ضروری کھانوں سے غائب ہوگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بچوں کے بچے نہ تو ان چیزوں کے ذائقوں سے واقف ہوں گے نہ ہی ان کی شکل وصورت پہچان پائیں گے۔ اگلی نسل اپنے بچوں کو کہانیوں میں بتایا کرے گی (اگر کہانیوں کی روایت باقی رہ گئی تو) کہ چلغوزہ لمبوترہ ہوتا تھا، رنگ کتھئی اور کالا، کاجو گردے کی شکل کا ہوتا تھا اور اخروٹ اندر سے انسانی دماغ کی طرح، بادام آنکھوں کی طرح ہوتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ ہوسکتا ہے ماہرین آثار قدیمہ عجائب گھروں میں ان میوہ جات کی تصاویر اور ان کی نقل بنواکر شوکیس میں آویزاں کردیں تاکہ بچے جان سکیں کہ ان کے بزرگ کیسی کیسی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ وہ اتنے خوش نصیب تھے کہ جاڑا، گرمی اور برسات ہر موسم کا پکوان اور پھل انھیں میسر تھا۔ کم ازکم ہماری نسل اس لحاظ سے تو خوش قسمت ہے کہ اس نے تمام ذائقوں کو خوب خوب چکھا ہے، جو کبھی بہت فراوانی سے دستیاب تھے اور آج اپنی جیب دیکھ کر بہت سی چیزوں کے لیے دل مار لینا پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔