یہ بچوں کے قاتل اور پھانسی گھاٹ سے ایک خط

عبدالقادر حسن  ہفتہ 22 دسمبر 2012
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

عامتہ الناس کے خوشدلانہ ووٹوں سے منتخب ہونے والی پیپلزپارٹی کی حکومت برحق اور اس حکومت کے کارندوں مثلاً وزراء وغیرہ کا ملک میں کھلے بندوں گھومنا پھرنا اور حکمرانی کرنا بھی سب برحق لیکن اس حکومت کو خواہ وہ کتنی ہی جائز کیوں نہ ہو‘ اسے ملک کی عزت برباد کرنے کا ہرگز حق نہیں۔ بچوں کو پولیو سے بچانے کی دوا پلانے پر رضاکاروں کی خونریزی چار دانگ عالم میں ملک کی عزت لٹانے والی بات ہے۔ میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے اس سانحے پر شدید اضطراب میں مبتلا ہوں۔ اب نہ جانے کتنے پاکستانی بچے لولے لنگڑے ہو کر زندگی کا عذاب جھیلیں گے اور اس کا گناہ ہمارے حکمرانوں کے سر ہو گا اور ان حکمرانوں کو برداشت کرنے کا گناہ ہمارے کھاتے میں بھی لکھا جائے گا۔ کسی قوم پر عذاب آیا تو اس کے نیک بندے بھی مارے گئے۔ اس پر جواب ملا کہ یہ وہ لوگ تھے جو خود تو نیک تھے لیکن بدی کو برداشت کرتے رہے اور یہ برداشت ان کا جرم ٹھہری۔ سو میں نیک ہوں یا بد‘ ہر صورت میں اس گناہ میں حصہ دار ہوں اور اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو اپنے گناہ کا تحریری اعتراف کر رہا ہوں۔

میرے اکثر دوست اپنے جذبات بیان کر چکے ہیں اور میں ان کی ہمت‘ قوت اور برداشت کی داد دیتا ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے اندر اتنی جرأت نہیں پا رہا تھا کہ اپنے جذبات بیان کر سکوں۔ ہمارے کتنے ہی بچے ڈرون حملوں میں مارے گئے اور مارے جا رہے ہیں‘ کتنے ہی دھماکوں میں ختم ہو گئے لیکن یہ سب ہماری بے بسی اور بیرونی حملہ آوروں کی کارروائیاں ہیں۔ ہم کسی صورت بھی ان میں شامل نہیں لیکن بچوں کے معالج ان رضاکاروں کو تو ہم نے مارا ہے کیونکہ ہم نے ملک میں ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے جس میں ایسی گھناؤنی وارداتیں ایک معمول بنتی جا رہی ہیں اور جب ان لوگوں کے مارے جانے کی اطلاع آئی تو پوری قوم حیران رہ گئی۔ کئی برسوں سے یہ کام ہو رہا ہے اور اب تو والدین ان رضاکاروں کی راہ دیکھتے ہیں بلکہ میں نے کئی خوشحال والدین کو پرائیویٹ ڈاکٹروں سے بچوں کو یہ ٹیکے پلواتے دیکھا ہے۔ مغرب کے سائنس دانوں نے یہ ٹیکے ایجاد کیے اور مغرب ہی کے مالدار لوگوں نے چندے دے کر دنیا بھر میں ان کو رائج کیا مگر ہم نے اس قربانی اور مہربانی کا خوب جواب دیا۔ اب اگر کل کلاں یہ اطلاع ملے کہ آیندہ سے پاکستان کے بچوں کو یہ نعمت میسر نہیں ہو گی تو تعجب نہیں ہونا کیے بلکہ اپنے اعمال کو دیکھ کر شرم کرنی چاہیے۔ ہم کسی مہربانی کے مستحق نہیں۔

کسی شہری کی حفاظت میرا آپ کا فرض نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کا فرض ہے۔ جان و مال کی حفاظت حکومت کے ذمہ ہوتی ہے اور حکمران امن و امان قائم رکھنے کے اس قومی فرض کو ہر قیمت پر ادا کرتے ہیں لیکن دکھ یہ ہے کہ ہماری حکومت اسے بھی ایک دھماکہ اور دشمن کے ہاتھ کی کارروائی سمجھ کر بیٹھ گئی ہے۔ اس سانحہ نے دنیا کو ہمارے بارے میں کیا تاثر دیا ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس ضمن میں جتنا رویا پیٹا جائے کم ہے۔

اب سزائے موت کے ایک قیدی کا خط ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ قوم کو انصاف کی کتنی ضرورت ہے اور حق تلفی کا کیا عالم ہے۔

آج کل حکومت پاکستان سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کے لیے ایک بل پارلیمنٹ اور اسمبلی میں پیش کر رہی ہے جس کی مخالفت تمام دینی جماعتیں اور اپوزیشن جماعتیں کر رہی ہیں۔ میری ان تمام جماعتوں کے سربراہوں خاص طور پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جناب چوہدری نثار صاحب‘ جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن‘ مولانا فضل الرحمن‘ علامہ ساجد میر‘ ثروت اعجاز قادری‘ حافظ سعید‘ علامہ ساجد نقوی ان تمام حضرات سے گزارش ہے، آپ جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں‘ کبھی سنجیدگی سے غور کیا کہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ پھانسی کے پھندے پر لٹکائے جاتے ہیں ،کیا ان پر اسلامی طریقے سے جرم عائد کیا جاتا ہے۔ کیا ہماے مقدمہ کی سماعت اسلامی طریقے سے کی گئی ہے۔

قرآن پاک میں واضح فرمایا گیا ہے جس نے ایک انسانی جان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے چور چاہے مرد ہو یا عورت اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ جس پر زنا کا جرم ثابت ہو، اگر وہ کنوارہ ہے تو اسے کوڑے مارو‘ اگر شادی شدہ ہے تو اسے سنگسار کر دو۔ شراب جو میرے ملک میں پانی کی طرح پی جاتی ہے‘ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے بیٹے کو اس جرم میں اتنے کوڑے مروائے کہ انھیں کوڑوں کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ آج ہمارے ملک میں ان جرائم کی کیا سزائیں دی جاتی ہیں۔ کیا ہم نے مجموعی طور پر قرآن پاک سے منہ موڑ لیا ہے۔ حضرت علیؓ امیرالمومنین تھے‘ انھیں کے دور حکومت میں انھی کا ہار چوری ہوا تھا تو انھوں نے جب قاضی کے سامنے عدالت میں کیس دائر کر دیا‘ یہودی پر جرم عائد ہوا۔ قاضی نے یہودی کو صرف اسی وجہ سے بری کر دیا کہ حضرت علیؓ کی طرف سے ان کے اہل خانہ‘ بیٹا اور غلام گواہ تھے۔ آج جو ہمارے کیسوں میں ایک بھائی گواہ اور دوسرا بھائی مدعی ہوتا ہے‘ سب عزیز رشتہ دار مکمل کیس کے گواہ ہوتے ہیں، سب جھوٹی شہادتیں ہوتی ہیں اور ہمارا تھانہ کلچر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور نہ ہی کسی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہاں کیا کچھ ہوتا ہے۔ پھر بھی تھوڑا سا عرض کر دوں جب کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو مدعی کی کوشش ہوتی ہے گھر کے سربراہ کو اس میں ملوث کروں تا کہ کوئی کیس کی پیروی کرنے والا ہی نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو کوئی تفتیشی آفیسر کی زیادہ جیب گرم کر دیتا ہے، تھانے کی پوری تفتیش اس کے حق میں ہو جاتی ہے۔ اگر مدعی غریب ہو تو ملزم کا فائدہ ہوتا ہے جو عدالت میں جا کر یقیناً بری ہو جاتا ہے۔ اگر مدعی پارٹی تگڑی ہو تو پھر جو بے چارے بے گناہ بھی ہوتے ہیں ان کو بھی نامزد ملزم بنا دیا جاتا ہے اور تھانہ کی رپورٹ پر ہماری عدالتیں انھیں ملزم سے مجرم بنا دیتی ہیں۔

بخاری شریف کی احادیث مبارکہ ہے ’’قریش کے قبیلہ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی عورت نے چوری کر لی۔ جب فیصلہ حضورؐ کے پاس پہنچا تو آپؐ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ قریش نے سوچا اس میں تو ہماری بڑی توہین ہو گی لہٰذا انھوں نے حضورؐ کے چہیتے غلام زید بن حارثؓکے بیٹے اسامہ بن زیدؓ کو سفارش کے لیے بھیجا۔ جب آپؐ نے یہ سنا تو غصہ میں آ گئے۔ آپؐ نے فرمایا تم سے پہلے یہود بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جب ان سے کوئی طاقت ور جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب کسی جرم میں پکڑا جاتا تو اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی۔ خدا کی قسم اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کٹوا دیتا‘‘

ہمارے ملکی نظام میں بہت ساری خرابیاں ہیں جن کا احاطہ ایک خط میں کرنا ممکن نہیں پھر تھوڑی سی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ ایک آدمی پر کیس بنتا ہے تو اسے سیشن کورٹ سے سزا کے بعد تقریباً چھ سال بعد عدالت عالیہ اسے باعزت بری کر دیتی ہے۔ مجھے کوئی بتائے ان چھ سالوں میں اس پر اور اس کی فیملی پر جو قیامت گزرتی ہے یہ وہ ہی جانتا ہے یا اس کی فیملی جن پر یہ قیامت ٹوٹتی ہے۔ جو عدالت عالیہ سے بری نہیں ہوتا ہائیکورٹ کے بعد سپریم کورٹ پھر آخری اپیل رحم کی صدر کے پاس پھر اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ ان تمام مراحل میں اسے تقریباً پندرہ سے اٹھارہ سال تک لگ جاتے ہیں۔ اتنے عرصہ میں وہ ایک نہیں دو سزائیں کاٹ چکا ہوتا ہے۔ ایک عمر قید اور دوسری سزائے موت۔ اتنے عرصے میں اس کے گھر والے اپنا سارا ساز و سامان تک بیچ کر اس پر لگا دیتے ہیں‘ اس کی زندگی بھی نہیں بچتی اور نہ ہی اس کے گھر والوں کے پاس کچھ بچتا ہے۔ جرم ایک تھا‘ سزا پورے خاندان نے کاٹی۔ انصاف میں تاخیر انصاف نہ ملنے کے مترادف ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں جب زلزلہ آیا تو آپؓ نے زمین پر زور سے کوڑا مار کر کہا ٹھہر جا‘ کیا میں نے تجھ پر انصاف نہیں کیا۔ زمین اسی وقت ٹھہر گئی۔ ہم آپ کو یہ نہیں کہتے آپ اس کی حمایت کریں یا مخالفت چھوڑ دیں۔ ہم تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام نافذ کرو۔ چوروں کے ہاتھ کاٹو‘ زانیوں کو سنگسار کرو‘ شرابی کو کوڑے مارو اور سودی نظام کا خاتمہ کرو پھر ہمیں جیل کی چار دیواری میں نہیں بلکہ سرے عام چوک میں لٹکاؤ تا کہ ’’فاعتبرو یا اولی الابصار‘‘ کی عملی تشریح بن سکیں تا کہ دیکھنے والے عبرت حاصل کریں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ تمام سیاست دان اپنے فائدے کے لیے تو این آر او جیسے بہت سارے قانون بنا لیتے ہیں جسے توہین عدالت والا کیس جو صرف ایک گھنٹہ آٹھ منٹ میں بھاری اکثریت سے منظور ہوا وہ صرف اس لیے کہ وہ طاقت ور ہیں اور ہم کمزور‘ مظلوم لوگ ہیں۔ ایسے قانون یہ اس لیے بناتے ہیں کہ یہ ان ہی کے فائدے کے لیے ہوتے ہیں۔

ہم سب قیدی سزائے موت والوں کی صرف یہی گزارش ہے یا پھر سارے کا سارا شرعی قانون ہو‘ اگر نہیں تو پھر ہم مظلوموں کے لیے بھی کوئی نظرثانی کی جائے۔

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

محمدعرفان
سنٹرل جیل بہاولپور

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔