خطے میں امن کا خواب

ایم جے گوہر  ہفتہ 22 دسمبر 2012
 mjgoher@yahoo.com

[email protected]

پاکستان اور بھارت خطے کے دو ایسے پڑوسی ملک ہیں جن کے درمیان روز اول ہی سے خوشگوار، پراعتماد اور دوستانہ مراسم کے قیام کا خواب تشنہ تعبیر چلا آرہا ہے، گزشتہ چھ دہائیوں کے درمیان دونوں ممالک نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی اور ان کے مابین اب تک تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں،پاکستان اپنا مشرقی بازو بھی گنوا چکا ہے جب کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر رہا ہے جس کے باعث پاک بھارت کشیدگی کا گراف ہمیشہ بلند ہی ہوتا رہا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے مقابل ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیکریٹری خارجہ سے لے کر صدر و وزرائے اعظم تک اعلیٰ ترین سطح پر وقفے وقفے سے مذاکرات کے متعدد دور ہوچکے ہیں، لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں بہہ رہا ہے۔ بھارتی قیادت کی روایتی بے حسی، ہٹ دھرمی اور بودے استدلال کے باعث کشمیر سے لے کر سرکریک اور سیاچن تک کسی بھی تنازعے کا کوئی قابل قبول حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔

ملک کی موجودہ سیاسی قیادت کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تلخیوں اور غلط فہمیوں کو کم کرنے کی حد درجہ کوششیں کیں اور بات چیت میں سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں کمی اور برسوں سے جمی برف پگھلنے کے امکانات روشن ہوئے اور پاکستان نے بھارت کو ماضی کی المناک تلخیوں اور حوادث کو بھول کر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے نئے عالمی حالات اور خطے کی صورت حال کے تناظر میں امن کے قیام کی خاطر پراعتماد دو طرفہ روابط بڑھانے اور تمام تنازعات کو بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی دعوت دی۔ خوش آیند امر یہ ہے کہ بھارت نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا، نتیجتاً پاکستان نے بھارت کو تجارت کے شعبے میں پسندیدہ ملک قرار دینے کا واضح اشارہ دیا۔

پھر دونوں طرف کے پارلیمانی، تجارتی، ثقافتی اور دیگر شعبوں کے ماہرین کے وفود نے ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کیے جس نے خیر سگالی کے جذبات پروان چڑھائے اور حکومتوں کی سطح پر قابل اعتماد تعلقات کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں مدد دی کیونکہ نہ صرف دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت بلکہ عوام بھی پاک بھارت جنگ کی بجائے دو طرفہ امن کے خواہاں ہیں، محبتوں بھرے دلوں کے جذبات کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور عام لوگ جن کے عزیز و اقارب دونوں ملکوں میں قیام پذیر ہیں اور سال ہا سال ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترستے رہتے ہیں، آزادانہ طریقے سے آ جا سکیں۔

اسی مقصد کے تحت دونوں ممالک نے اعلیٰ ترین سطح پر مشاورت کے بعد ویزا پالیسی پر نظرثانی کی اور گزشتہ دنوں جب ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب بھارت گئے تو دونوں ممالک کے مابین ویزا کے اجرا کے حوالے سے نرمی برتتے ہوئے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے مطابق بھارت جانے والے پاکستانی شہری اب بیک وقت پانچ بھارتی شہروں کا ویزا حاصل کرسکیں گے جب کہ 12 سال سے چھوٹے اور 65 برس سے زائد عمر کے افراد کو اٹاری اور واہگہ کی سرحد پر 45 روز کا ویزہ مل جائے گا۔ سیاحت کے ویزے کی مدت دو سال کردی گئی ہے جب کہ تاجروں کو بھارت کے 10 شہروں میں جانے کا ویزا دیا جائے گا، اس کے علاوہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے بھارت جانے کے لیے فضائی سفر کی سہولت حاصل ہوگی۔

یہ بلاشبہ خوش آیند اقدامات ہیں جن سے دونوں ممالک کے درمیان عوامی اور حکومتی سطح پر روابط میں اضافہ ہوگا، اعتماد کی فضا پروان چڑھے گی، تلخیوں اور غلط فہمیوں کے ازالے میں مدد ملے گی اور دو طرفہ تعلقات مستحکم ہوں گے اور ڈیڑھ ارب انسانوں پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اس کا کریڈٹ بھی پاک بھارت کی موجودہ قیادت کو دیا جانا چاہیے۔

پاک بھارت تازہ پیش رفت یقیناً حوصلہ افزا ہے، لیکن پس منظر میں موجود عداوتوں کی سلگتی چنگاریوں سے اٹھنے والے دھوئیں نے سانسوں میں موجود گھٹن کے احساس کو تاحال زندہ رکھا ہوا ہے جس کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ اسی حوالے سے رحمن ملک صاحب نے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کرکے صدر آصف علی زرداری کی جانب سے خیرسگالی کے جذبات پہنچاتے ہوئے انھیں دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی جسے انھوں نے قبول کرلیا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے اپنے دورہ بھارت کے دوران میڈیا کے نمایندوں، اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں و دیگر مواقعوں پر گفتگو کرتے ہوئے ممبئی حملہ کیس میں حافظ سعید کی حوالگی سے واضح طور پر کہا کہ اگر بھارت ان کے خلاف ٹھوس ثبوت دے گا تو کارروائی کریں گے کیونکہ پاکستانی عدالتیں انھیں عدم ثبوت کی بنا پر بری کرچکی ہیں۔

اسی طرح رحمن ملک نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے بھی پاکستان کے موقف کو موثر انداز میں پیش کیا جس پر بھارت کے ایک مخصوص حلقے نے منفی ردعمل کا اظہار کیا، لیکن کیا ہم زمینی حقیقت کو جھٹلاسکتے ہیں؟ قبل ازیں سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے بھی شرم الشیخ مصر میں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھارتی قیادت نے اس ضمن میں کبھی سنجیدہ طرز عمل اختیار نہیں کیا بلکہ الٹا کشمیر میں مداخلت کے الزامات عائد کرتا چلا آرہا ہے حالانکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ بھارت کی 8 لاکھ فوجیں کشمیر میں جاری حریت کی تحریک کو کچلنے کے لیے تین دہائیوں سے سرگرم عمل ہیں، وہاں انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔

بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو خودارادیت کا حق دینے سے انکاری ہے بلکہ مقبوضہ وادی کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور یہی وہ بنیادی تنازعہ ہے جو پاک بھارت تعلقات میں خلیج بنا ہوا ہے۔ پاکستان اپنے اصولی موقف پر آج بھی قائم ہے جیساکہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق سے ان کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران ملاقات کے موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر نظرانداز نہیں کرسکتا، کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے، مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوںاور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ بھارتی قیادت کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے، ویزا معاہدے سے لے کر تجارتی و دیگر شعبوں میں مثبت پیش رفت کے باوجود تنازعہ کشمیر کے حل تک خطے میں امن کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔