کس کی اولاد ہے تو؟؟؟

شیریں حیدر  ہفتہ 22 دسمبر 2012
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کام کرنے والے خواتین و حضرات کو تو کم کم ہی موقع ملتا ہے کہ وہ صبح یا شام کی سیر سے لطف اندوز ہو سکیں، آج کل تو صبح کی سیر کرنا یوں بھی کئی خطرناک بیما ریوں کو دعوت دینا ہے سو شام کو موقع سے فائدہ اٹھا کر کبھی کبھار سیر کے لیے نکلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس روز بھی ایک سہانی شام تھی جب میں سیر کو نکلی اور سڑک کے کنارے کنارے چلتے ہوئے ایک بچگانہ سی آواز میں یہ فقرہ سنائی دیا، ’’ کس کی اولاد ہے تو بے؟ ‘‘ میں سمجھی کہ اس علاقے میں کام کرنے والے مستری مزدوروں کے بچے ہوں گے اور ایسی زبان استعمال کر رہے ہوں گے مگر میری حیرت دوچند ہو گئی جب میں نے انتہائی بہتر حلیوں والے بچوں کو ایک گھیرے میں کھڑے دیکھا، انھیں میرے پاس سے گزرنے سے چنداں فرق نہ پڑا تھا، میں نے وہیں پر آہستہ آہستہ چہل قدمی شروع کر دی۔

ظاہری طور پر وہ دس بارہ بچے دو گروہوں میں بٹے ہوئے دکھائی دیے تھے، ان کی عمریں سات آٹھ برس سے لے کر دس بارہ برس تک کی تھیں، غالباً کوئی کھیل کھیلتے کھیلتے جھگڑا شروع ہوا تھا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اس وقت وہ دوبدو کھڑے تھے۔ ایک نسبتاً تنو مند بچہ ایک اپنے جیسے بچے کے سامنے ڈٹا کھڑا اس سے پوچھ رہا تھا۔

’’ اپنے باپ کی!!! ‘‘ اس بچے نے جواب دیا تھا۔
’’ باپ کی اولاد ہوتا تو اس روز بھاگ نہ جاتا تو!!! ‘‘

’’ بھاگا نہیں تھا، اس دن کا انتظار کر رہا تھا میں … ‘‘ اس بچے نے تن کر کہا، ’’ بزدل نہیں ہوں میں! ‘‘

’’ میں بھی اپنا بدلہ لینا جانتا ہوں کاکے… ‘‘ اس لڑکے نے خطرناک تیوروں سے کہا، ’’ میں تو اس دن سے روز کڑکی لگا کر بیٹھتا تھا کہ کب وہ بھاگنے والا چوہا باہر آئے گا اور میں اسے قابو کروں گا… ‘‘ یہ سب بچے اچھے گھرانوں کے تھے، ان میں سے نصف کو میں جانتی تھی ۔ ان کے ماں باپ انھیں ان اسکولوں میں حصول تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں جہاں کی ایک ماہ کی فیس کے برابر رقم سے چھ لوگوں کے ایک غریب کنبے کی ماہانہ پرورش باآسانی کی جا سکتی ہے… غالباً ان غریبوں کے بچے بات چیت میں ان سے کہیں بہتر ہوتے ہوں گے۔

’’ اچھا اور اس روز اسکول میں جو تو بھاگ گیا تھا… ‘‘

’’ بھاگا نہیں تھا بلکہ میں ٹیچر کو بتانے گیا تھا کہ تو میرے ساتھ بد تمیزی کر رہا تھا!!!‘‘

’’ خود بزدل ہے تو جو ٹیچر کو بتانے گیا تھا؟ ‘‘ تن کر کھڑے ہوئے لڑکے نے کہا تو میری ہنسی نکل گئی ۔ اس پر پہلا لڑکا جوش میں آ کر اس پر پل پڑا… میں نے ذرا غصے سے انھیں آواز دی، وہ جو اب تک سمجھ رہے تھے کہ میری موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ٹھٹھک گئے۔

’’ کیا ہو رہا ہے اور کس بات پر جھگڑ رہے ہیں آپ لوگ؟ ‘‘ … ’’ آنٹی اس نے اسکول میں مجھے گالی دی تھی… ‘‘ اس نے ہولے سے کہا، ’’ تب سے میں انتقام لینے کا سوچ رہا تھا۔’’ پہلے اس نے مجھے مارا تھا آنٹی اور یہی بتانے میں ٹیچر کی طرف بھاگ رہا تھا تو اس نے ٹانگ اڑا کر مجھے گرا دیا، اس لیے میرے منہ سے گالی نکل گئی تھی… ‘‘

’’ ٹیچر کو کیوں بتانے جا رہا تھا تو؟ ‘‘ اس بچے نے میری موجودگی کے باوجود اسے بد تمیزی سے پوچھا، ’’ خود ہمت نہیں ہے تجھ میں مقابلہ کرنے کی؟ ‘‘ … ’’ یہ بات نہیں ہے، میری مما کہتی ہے کہ اچھے بچے کسی سے جھگڑا نہیں کرتے اور اگر کوئی اور جھگڑا شروع کرے تو اپنے ماں باپ یا ٹیچر کو بتانا چاہیے‘‘… ’’ اچھا، لگتا ہے تمہاری مما کوئی وکیل یا جج ہیں… ‘‘ وہ میری موجودگی کی پرواہ کیے بغیر منہ پھاڑ کر ہنسا تھا۔’’ میری مما تو کہتی ہیں کہ جو ایک مارے اسے دو مارو… اور وہ کہتی ہیں کہ جس دن میں کسی سے مار کھا کر آیا اس دن وہ مجھے اور بھی ماریں گی،کیونکہ وہ مجھے بزدل نہیں بنانا چاہتیں… ‘‘

’’ لگتا ہے تمہاری ماں کوئی جھگڑالو ہے… ‘‘ میں سوچ کر رہ گئی، اتنے بد تمیز بچے سے کچھ بعید نہیں کہ کیا کہہ دیتا۔ ’’ یہ تو بڑی غلط بات ہے بیٹا، جھگڑا خود شروع کرتے ہو اور پھر غلط ملط باتیں بھی کرتے ہو!‘‘… ’’ جوڈرتا ہے وہ مرتا ہے آنٹی اور پھر خود اللہ نے کہا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان ‘‘… ’’ بس بس … ‘‘ میں نے اسے روکا، فرائض کا ہمیں علم نہیں، چیزوں کا صحیح حوالہ معلوم نہیں ہوتا اور بات بے بات ہم قرآن و سنت کی مثالیں دینے کو تیار ہوتے ہیں، مائیں اولاد کی تربیت جانے کن پیمانوں پر کر رہی ہیں اور مستقبل کے کیسے کیسے معمار تیار کر رہی ہیں۔ ماؤں کی طرف سے ایسی ہدایت بچوں کے ساتھ عمر بھر کو پنپنے والی ہے اور وہ فقط آج نہیں بلکہ عمر بھر اس سوچ اور نظرئیے کے قائل ہوں گے کہ جو ان کے ساتھ غلط کرے گا اس سے انھیں خود انتقام لینا ہے، بچپن میں یہ بات چھوٹی محسوس ہوتی ہے مگر کل کو بڑے ہو کر انھیں قانون ہاتھ میں لینے کی عادت پڑ جائے گی۔ اللہ کے نظام میں اگر ادلے کے بدلے کا کہا گیا ہے تو سب سے پہلے صحت جرم کو ثابت کرنے کی شرط بھی قائم ہے۔

بچوں کو بزدلی سے بچانے کی کاوش میں مائیں ان کے اذہان میں جرائم پسندانہ طبیعت کا وہ بیج بو رہی ہیں جس کے تناور درخت کی مضبوطی کا انھیں آج اندازہ نہیں، اس کی جڑیں بچوں کے وجود میں کتنی مضبوط اور گہری ہوں گی اس کا انھیں علم نہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو یوں بولتے دیکھنا، یوں لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرتے دیکھ کر ایک خوفناک مستقبل کا تصور ذہن میں آتا ہے جب کل کو اس ملک کی باگ ڈور ان بچوں کے ہاتھوں میں ہو گی، آج کے لیڈروں کی طرح کیا یہ بھی وہی کچھ دہرائیں گے یا انھیں تعلیم کے ساتھ شعور حاصل ہونا چاہیے۔ اگر انھیں ایسی ہی سوچ کے ساتھ پروان چڑھنا ہے تو ان پر اتنی رقم خرچ نہ کریں، انھیں گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھائیں ، کم از کم کل کو کوئی تو ہو گا جسے آپ الزام دے سکیں گے۔ یہ مائیں تو اپنا جرم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو ں گی جو ان ننھے ننھے بچوں کے اندر درندے بیدار کر رہی ہیں، یہ اپنی کوتاہیوں اور غلط تربیت کا سارا الزام ان تعلیمی اداروں کو دیں گی جہاں ہم بصد کاوش ان بچوں پر ان کے گھر کے ماحول کی چھاپ کو نہیں اتار سکتے۔

ایک بچہ حصول تعلیم کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور آپ گھر سے اسے غنڈہ گردی کا لائسنس دے کر بھیجیں تو اسے اسکول اور کالج کس حد تک درست کر سکتے ہیں، اس وقت پرانے زمانے کے اساتذہ جیسے استاد بھی نا پید ہو گئے ہیں کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت بنانے پر بہت توجہ دیتے تھے۔ اب سب کچھ کاروبارکی طرح ہے، ماں باپ یہ سوچ کر انوسٹ کرتے ہیں کہ اے لیول کر کے بچے کس ملک میں جا سکیں گے، اساتذہ اور ماں باپ بچوں سے ڈرتے ہیں کہ وہ پلٹ کر جواب نہ دے دیں، زیادہ ڈانٹ سے خود کو نقصان نہ پہنچا لیں… اسی خوف کے تحت ہم نے بچوں کو بے جا آزادی دے دی ہے اور وہ اس آزادی کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دس منٹ کی بے ثمر بحث کے بعد میں بے دلی سے گھر لوٹ آئی کہ جس فضا میں سانس لینے سے گھٹن ہونے لگے اس فضا میں شام کی سیر کیونکر خوش گوار ہو سکتی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔