بزم داغ…یادداشتیں

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 8 دسمبر 2016

مرزا داغ دہلوی… نظام دکن، میر محبوب علی خاں کے استاد تھے۔ ان کی غزل اصلاح کے لیے ایک بند لفافے میں آتی، مرزا صاحب خود لفافہ کھولتے، اسی وقت اصلاح دے کر لفافہ بند کرکے واپس کردیتے۔ ایک دن مرزا صاحب کے پاس فرمان پہنچا اور پوچھا گیا کہ آپ کے شاگردوں میں سب سے بہترکون ہے؟ اس خبر کو سن کر مرزا صاحب کے تمام شاگردوں اورحاضر باشوں کو بڑی توقعات پیدا ہوگئیں۔ دو چار دن سب خیالی پلاؤ پکاتے رہے، مرزا صاحب چپ رہے۔ مولانا احسن مارہروی، مرزا داغ کے خاص شاگرد تھے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردوکے استاد تھے اور ان دنوں مرزا صاحب کے پاس حیدرآباد میں مقیم تھے۔ ایک دن موقع پاکر انھوں نے استاد سے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے شاہی فرمان کا کیا جواب دیا؟ مرزا صاحب نے کچھ سکوت فرمایا، زیر لب مسکرائے اور بولے، میں نے یہ جواب دیا کہ میرے شاگردوں میں آپ سے بہترکوئی شاگرد نہیں۔

مولانا احسن مارہروی نے 1898 کے وسط سے 1902 کے وسط تک چار سال کا زمانہ حضرت داغ کے ساتھ گزارا اور اس دوران میں جو سنتے اور دیکھتے رہے ، اسے روزنامچے کی صورت میں لکھتے رہے۔ یہ تحریریں یادداشتوں کی شکل میں تھیں۔ مولانا کے صاحبزادے رفیق احمد مارہروی نے انھیں ترتیب دے کر اور ازسر نو لکھ کرکتاب کی شکل میں شایع کردیا۔ عنوان ’’بزم داغ‘‘ رکھا۔ یہ کتاب مختصر ہے لیکن اسے پڑھ کر مرزا داغ کی پوری زندگی سامنے آجاتی ہے۔ راشد اشرف اچھا کام کر رہے ہیں پرانے، فراموش کردہ نوشتوں کو جمع کرکے نئے پڑھنے والوں کو مہیا کررہے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب کو جو ساتھ سال پہلے ہندوستان میں لکھنو میں چھپی تھی، حاصل کرکے دوبارہ شایع کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں داغ پر لکھی جانے والی چند کمیاب تحریروں کو بھی یکجا کردیا ہے۔

مولانا احسن نے اپنے روزنامچے میں بڑے دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مرزا داغ اپنے معمولات کے بہت پابند تھے۔ ایک معمول یہ تھا کہ وہ ہر جمعرات کو بزرگان دین اور اپنے اعزا اور دوستوں کی جو دنیا سے گزر چکے فاتحہ دلواتے تھے۔ پہلی خدمت جو انھوں نے مولانا احسن کے سپرد کی وہ یہی کام تھا۔ صبح نماز فجر پڑھ کر مرزا صاحب کی محفل جم جاتی تھی۔ اس محفل میں ہر طرح کی گفتگو ہوتی۔ کبھی ’’عشق صادق‘‘ پراظہار خیال ہورہا ہے کبھی کسی مشاعرے کا ذکر ہوتا۔ ایک دن مرزا صاحب کہنے لگے رامپورکے اکثر مشاعروں میں لوگ میرے اشعار سن کر مجھے گالیوں سے داد دیتے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ کیا تہذیب ہے تو جواب ملا، داغ کے کلام کی یہ تاثیر ہے کہ بے اختیار منہ سے نکلتا ہے ظالم نے مار ڈالا،کم بخت نے دل کا کام تمام کردیا۔ رامپور پٹھانوں کا علاقہ تھا۔

اپنے روزنامچے میں مولانا احسن لکھتے ہیں ’’مرزا صاحب کی زندگی بڑی مطمئن گزرتی ہے۔ خدا نے ہر طرح آرام و آرائش دے رکھی ہے۔ رات دن احباب اور شاگردوں کا مجمع رہتا ہے۔ اندر باہر متعدد ملازم و خدمت گار موجود رہتے ہیں۔ نظام دکن کی طرف سے داد و دہش کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘ ایک دن میر محبوب علی خاں کی قدردانیوں کا ذکر کرتے ہوئے داغ کہنے لگے، ’’ میں خدا کا ہزار شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے فکر معاش سے مجھے آزاد کردیا ہے۔ ورنہ اہل علم کی پرسش کہاں ہے۔‘‘

مولانا احسن مارہروی نے اپنے روزنامچے میں جگہ جگہ مرزا داغ کی زندگی کے واقعات حسن وعشق اور عالم محبت اور وارفتگی کا ذکرکیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’مرزا صاحب کی زندگی شروع سے رنگین ماحول میں گزری۔ سوسائٹی کا رنگ ان کی طبیعت نے گہرا قبول کیا۔ ان کی حسن پرستی و شاہد نوازی جنون کی سرحد تک پہنچی ہوئی تھی۔ ایسی طوائفوں کی فہرست بہت لمبی ہے جن کی صحبت سے مرزا صاحب فیضیاب ہوئے۔ ان خوش نصیب عورتوں میں کچھ ایسی ہیں جن کو ہم نے خود دیکھا ہے۔‘‘

ایک دن مرزا صاحب نے فرمایا کہ ’’مجھے تمام عمر میں پانچ عشق ہوئے ہیں جن میں دو اب تک میرے رگ و ریشہ میں سمائے ہوئے ہیں، ایک بی منی بائی حجاب کا عشق اور دوسرا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا۔‘‘

منی بی حجاب سے داغ کی ملاقات رامپور میں ہوئی۔ یہ کلکتہ سے وہاں ایک میلے میں بلائی گئی تھیں۔ داغ ان پر فریفتہ ہوگئے۔ یہ محبت ایسی بڑھی کہ داغ کلکتہ پہنچ گئے اور جب وہاں سے واپس آئے تو اس حال میں کہ حسن وعشق کی اس داستان کو ایک مثنوی کی شکل میں قلم بند کیا۔ یہ ’’مثنوی فریاد داغ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ منی بائی حیدر آباد بھی آئیں۔ اب وہ چاہتی تھیں کہ داغ ان سے شادی کرلیں اور وہ ان کی بیوی بن کر ان کے ساتھ رہیں مگر اب داغ اس کے لیے تیار نہ تھے۔ حجاب کچھ عرصہ حیدر آباد میں رہیں اور پھر مایوس ہوکر واپس چلی گئیں۔

ان کے حیدر آباد میں قیام کے بہت سے واقعات مولانا احسن نے اپنے روزنامچے میں بیان کیے ہیں۔ لکھتے ہیں ’’جب سے منی بائی حجاب تشریف لائی ہیں مرزا صاحب اپنے مردانے مکان میں کم بیٹھتے ہیں۔ دو تین گھنٹے کے سوا سارا وقت حجاب کے پاس گزرتا ہے۔ مرزا صاحب کی یہ ادا ان کے احباب کو سخت ناگوار ہے۔‘‘ حجاب کا نقشہ مولانا احسن نے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں ’’بی حجاب کا سن اس وقت 45 سال کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے۔ رنگ سرخ وسفید ہے، آنکھیں سیاہ اور بڑی ہیں، ناک اونچی، قد درمیانہ اور تندرست، اونچی کشادہ پیشانی، مانگ سیدھی نکالتی ہیں، ٹھوڑی کے نیچے ایک خوشنما تل ہے۔ قہقہہ لگانے کی عادت ہے۔‘‘

مولانا احسن نے مرزا داغ کی محفلوں میں ہونے والی باتوں کا اپنے روزنامچے میں بہت ذکر کیا ہے۔ ان سے انھوں نے مرزا صاحب کی ذات، ان کی خوبیوں اور کمزوریوں کا، ان کی عادات و اطوار کا جو اندازہ لگایا ہے اس سے مرزا صاحب کی بڑی حد تک ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے۔ لکھتے ہیں ’’میں مرزا صاحب کے ساتھ اکثرکھانا کھاتا ہوں۔ وہ خوش خوراک ہیں، دستر خوان پر ہمیشہ چار پانچ قسم کے کھانے ہوتے ہیں۔ مرغ کے کبابوں کا اتنا شوق ہے کہ ایک دفعہ میں پورا ایک مرغ اڑا جاتے ہیں۔‘‘ ایک دن باتوں باتوں میں مرزا صاحب نے فرمایا، مجھے ابتدائی عمر میں ورزش کا بہت شوق تھا۔ گھوڑے کی سواری معمول میں داخل تھی۔ سب شوق ختم ہوگئے۔ گھوڑے کی سواری کا شوق اب بھی کچھ باقی ہے۔ مرزا صاحب پتنگ بھی اڑایا کرتے تھے، اب صرف پتنگ بازی دیکھتے ہیں۔ موسیقی سے انھیں فطری لگاؤ ہے۔ طبلہ خود بھی بجاتے ہیں۔ ستار میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ دو تین راگ راگنیاں بھی خود ایجاد کی ہیں۔ وہ نماز روزہ کے پابند بھی تھے اور حج پر بھی گئے تھے۔

مولانا احسن لکھتے ہیں کہ جب نواب رامپور نے مرزا داغ سے فرمایا کہ وہ انھیں اپنے ساتھ حج پر لے جائیں گے تو مرزا صاحب کو بہت خوشی ہوئی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک دن انھوں نے بتایا کہ جب میں نے یہ مژدہ سنا تو یہ شعر میرے ورد زبان ہوگیا:

دیر سے کعبہ کو ڈرتے ہوئے ہم جاتے ہیں
دیکھ لیتا ہے جوکوئی وہیں تھم جاتے ہیں

مولانا احسن مارہروی کا لکھا ہوا روزنامچہ 15 جون 1902 کو ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد وہ غالباً کچھ نہ لکھ سکے اور جون کے آخر میں وطن واپس چلے آئے۔ لیکن وطن واپس آنے کے بعد بھی استاد اور استاد کے حالات سے بے تعلق نہیں رہے۔ وہاں کے باقی ماندہ حاضر باشوں سے برابر خط وکتابت رہی۔ رفیق مارہروی نے ایسے تین خط کتاب میں شامل کیے ہیں جو داغ کے مخلص شاگرد نواب میر حسن علی خاں کے مولانا احسن کو لکھے تھے۔ ایک خط میں داغ کے آخری دنوں کا احوال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔