ہرایک رُخ سے ہے کامِل، حضور ؐ کی سیرت

مفتی غلام مصطفیٰ تبسّم  جمعـء 9 دسمبر 2016
ہمیں بھی نبی کریمؐ کے احسانات کو یاد رکھتے ہوئے آپؐ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے کہ بس یہی دین اسلام ہے۔ : فوٹو: فائل

ہمیں بھی نبی کریمؐ کے احسانات کو یاد رکھتے ہوئے آپؐ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے کہ بس یہی دین اسلام ہے۔ : فوٹو: فائل

رب ذوالجلال نے کائنات کی مختلف اشیاء میں ایک کشش پیدا کردی ہے۔ اگر یہ کشش دو جان داروں کے درمیان ہو تو اسے میلان کہتے ہیں۔ یہی میلان جب زیادہ ہوجاتا ہے تو محبّت کہلاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بیج کو زمین میں بویا جائے تو وہ زمین کے اندر مستور ہوجاتا ہے، اس پر بارش پڑتی ہے، آفتاب چمکتا ہے تو پھر وہ اُگتا ہے اور اس میں خوش نما پھول اور خوش ذائقہ پھل لگتے ہیں۔ اسی طرح جب محبّت کا بیج دل کی زمین میں پڑتا ہے تو یہ نشو و نما پاتا ہے پھر کیفیات کے پھل پھول اور برگ و بار اس میں اُگتے ہیں۔

قاضی محمد سلیمان منصور پوری فرماتے ہیں: ’’ محبّت ہی قوّت قلب ہے، محبّت ہی غذائے روح ہے، محبّت ہی قرۃ العین ہے، محبّت ہی حیات الابدان، دل کی زندگی، زندگی کی کام یابی بل کہ کام یابی کو دوام بخشنے والی ہے، غرض محبّت ہی سب کچھ ہے۔‘‘

خواجہ بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں: ’’ محبّت یہ ہے کہ اپنے کثیر کو قلیل جانے اور محبوب کے قلیل کو بھی کثیر جانے۔‘‘

بعض محققین کا خیال ہے کہ محبّت کی تعریف نہیں کی جاسکتی، اس کی یافت محض وجدان ہی سے ہوسکتی ہے۔ لہٰذا محبّت کی تعریف خود اس کا وجود ہے۔ چوں کہ محبّت ایک جذبہ ہے اور جذبے کا ادراک ذوق وجدان سے ہوسکتا ہے، نہ کہ عقل سے۔ اسی لیے خواجہ رازیؒ فرماتے ہیں: ’’ محبّت ایک حال ہے اس کی تعبیر الفاظ سے نہیں ہوسکتی۔‘‘

اﷲ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا، منفرد، بے مثل، لاثانی اور صفات میں کامل، جامع اور بے مثال ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کا اور اس کے جمیع خزانوں کا تن تنہا مالک ہے۔ اس نے اپنی مخلوقات خاص کر انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ پھر حضرت انسان پر تو نعمتوں کی موسلادھار بارش برسادی۔ ہدایت، اعضائے جسمانی، سماعت، بصارت، گویائی، عقل، صورت و سیرت، صحت، عزت، غرض ضروریات زندگی اور بشری تقاضوں کے اعتبار سے ہر نعمت سے سرفراز فرمایا۔ اس سب کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنی بے شمار نعمتوں کے عطا کیے جانے کے بعد بھی احسان نہیں جتلایا گیا، تاہم ایک نعمت دے کر احسان جتلایا گیا۔

ارشاد خداوندی ہے: ’’ اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان فرمایا کہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسولؐ کو بھیجا۔‘‘ ( سورۃ آل عمران )

یقینا اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی آخرالزماںؐ کی تشریف آوری انعام و احسان الٰہی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ اسے جس طرح انعام بھاتا ہے، اسی طرح سے انعام دینے والے سے بھی محبّت ہوا کرتی ہے۔ پس نتیجتاً اہل ایمان کو اﷲ تعالیٰ سے بھی بے انتہا محبّت ہے اور اس کے محبوبؐ سے بھی شدید محبّت ہے۔ جیسا کہ اس کی تائید اس حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے : ’’اﷲ تعالیٰ سے محبّت کرو کہ اس نے تمہیں نعمتیں دیں اور چوں کہ اﷲ تعالیٰ کو مجھ سے محبّت ہے لہٰذا تم بھی مجھ سے محبّت کرو۔‘‘

جو حُب رسولؐ سے سرشار ہوگا، وہی صحیح معنوں میں انعامات الٰہی کی قدر کرنے والا قرار پائے گا۔ جو بھی حُب رسولؐ سے سرشار ہوتا ہے بحر وبر اس کے دامن کے ایک کونے میں سما جاتے ہیں۔ نبیؐ سے نسبت نصیب ہونا درحقیقت نسبت الٰہی کا حاصل ہونا ہے۔

’’ اے محبوب (ﷺ) آپ فرما دیجیے کہ اگر تم اﷲ سے محبّت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اﷲ تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔‘‘

( سورۃ آل عمران )

نبی کریمؐ کی محبّت دنیوی اور اخروی کام یابیوں کے حصول کی کلید ہے۔ اس سے رحمت الٰہی موسلادھار بارش کی طرح برستی ہے، بل کہ یہی سعادت مند ہونے کی نشانی ہے۔ اگر مسلمان کے دل میں اﷲ جل شانہ اور سید الانبیاؐ کی محبّت اپنی تمام تر رعنائیوں اور تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوجائے تو پھر ہٖفت اقلیم بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔

محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ؐ کی ذات بابرکات تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئی۔ وہ محسن انسانیتؐ جس نے مذہبی اداروں میں شخصیت پرستی کے بجائے خداپرستی قائم کی۔ جس نے اعتقادات کی توہمات کے بجائے حقیقت پر بنیاد رکھی۔ جس نے کائنات کو مسخر کرنے کا سبق دیا۔ جس نے سیاسیات میں نسلی و موروثی بادشاہت کی بجائے شورائی نظام کا راستہ دکھایا۔ جس نے علم کی دنیا میں خیال آرائی کے بجائے حقیقت نگاری کی طرح ڈالی۔

جس نے سماج کی تنظیم کے لیے ظلم کی بجائے عدل کی تعلیم دی۔ آپ ؐ نے انسانیت کی جھولی میں اخلاق عظیم کے جواہرات بھرے۔ مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی۔ جاہل کو علم سے آراستہ کیا۔ اونٹ چرانے والے ہدی خوانوں کو انسانیت کا پاسبان بنایا۔ جو دنیا کے دیوانے تھے انہیں اﷲ کا سودائی بنایا۔ جو نفس پرست تھے انہیں خداپرست بنایا۔ جو مجاور تھے انھیں مجاہد بنایا۔ جو آپس میں غضب ناک تھے انہیں رحم کرنے والا بنایا۔ سراپا گفتار کو کردار کا غازی بنایا۔ اس خاصۂ خاصانِ رسلؐ کے ساتھ محبّت و عشق کا ہونا، ایمان کی شرائط میں سے ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسروں کے خصائص و کمال، حسن و جمال، محاسن اور کردار سے متاثر ہوکر ان سے محبّت کرنے لگتا ہے۔ فخر رسلؐ کو رب کائنات نے وہ بلند شان، مقام اور مرتبہ عطا کیا کہ آپؐ کو ہر خوبی، اکمل ترین عطا کی گئی۔ اسی وجہ سے ہر مومن اپنے پیارے تاج دار مدینہؐ سے بے ساختہ محبّت و پیار کرتا ہے۔ قرآن مجید نبی اکرمؐ کے کمال و جمال پر سب سے بڑا گواہ ہے۔ جس طرح قرآن مجید کے علمی عجائبات کی انتہا نہیں، اسی طرح سیرت نبویؐ کے عملی عجائبات کی حد نہیں۔ ایسی مبارک ہستی سے محبّت ہونا فطری ہے۔

کسی سے محبّت اور اس پر فریفتہ ہونے کی ایک وجہ حسن و جمال بھی ہے۔ انسان خوب صورت شخصیت کو دیکھے تو دل بے اختیار اس کی طرف کھنچ جاتا ہے۔ نبی اکرمؐ کو اﷲ تعالیٰ نے ایسا حسن و جمال عطا کیا تھا کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ حدیث میں ہے ’’اﷲ تعالیٰ خوب صورت ہیں اور خوب صورتی کو پسند کرتے ہیں۔‘‘ جب ذات الٰہی خوب صورتی کو پسند فرماتی ہے تو جس ذات کو اس نے اپنا محبوب بنایا، اس ذات کو کتنا حسن و جمال عطا کیا ہوگا۔

آپؐ اﷲ کے حبیب ہیں، روز قیامت علَمِِ حمد آپؐ کے ہاتھ ہوگا جس کے سائے میں جملہ انبیائے کرامؑ ہوں گے۔ آپؐشافع  محشر ہیں، آپؐ اور آپؐ کی امت سب سے پہلے جنت میں داخلے کے اعزاز سے مشرف ہوگی، اولین و آخرین میں آپؐ ہی سب سے زیادہ مکرم و محترم ہیں۔ آپ خاتم النبیینؐ ہیں۔ دنیا کو اعلیٰ اخلاق کا درس دینے کے لیے آپؐ مبعوث ہوئے۔ عربی ضرب المثل ہے۔

’’انسان احسان کا غلام ہوجاتا ہے۔‘‘ بہ الفاظ دیگر انسانی ہی نہیں حیوانی فطرت بھی ہے کہ جو ان پر احسان کرے اس سے محبّت کرتے ہیں۔ امت پر نبیؐ کے اتنے اور اس قدر احسانات ہیں کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔ نبی اکرمؐ مومنین کے ساتھ حد درجہ شفقت کرنے والے ہیں، آپؐ کی ہم دردی اور دل سوزی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپؐ ساری رات عبادت کرتے اور اپنی گناہ گار امت کے لیے دعائیں مانگتے حتیٰ کہ قدم مبارک پر ورم آجاتا۔ آپؐ قاسم العلوم و البرکات ہیں، نبی اکرمؐ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو علم و معارف اور انوار و برکات ملتے وہ آپؐ صحابہ کرامؓ میں منتقل فرما دیا کرتے۔

ہمیں بھی نبی کریمؐ کے احسانات کو یاد رکھتے ہوئے آپؐ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے کہ بس یہی دین اسلام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔