توغنی ازہر دو عالم، من فقیر

اوریا مقبول جان  اتوار 11 دسمبر 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سید الانبیاء، رحمتہ اللعالمین، شافع روز محشر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جہان رنگ و بو میں آمد کے زمزمے ہیں۔گلیاں اور بازار آراستہ ہیں، محفلیں عطر و خوشبو سے مہک رہی ہیں، راتیں واعظین کرام، مفتیان عظام اور ثنا خوان حضرات کی شعلہ بیانیوں اور خوش الحانیوں سے مزین ہیں۔ نعت خوانی کی محفلیں برپا ہیں، میلاد کے جشن ہیں۔ ہر سو آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش رنگ نعتوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

سال میں جب یہ ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو مجھے اس امت کے گیارہ ماہ یاد آجاتے ہیں۔ دنیا کی لذتوں میں مگن، اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں کے سامنے سربسجود، جن کا خوف میرے آقا دلوں سے نکالنے آئے تھے، انھی کے خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے، جن سے دشمنی کرنے کو کہا تھا، ان سے دوستی پر نازاں، یہ لوگ کیسے ہیں خود کو سرور عالمؐ کی شفاعت کا حقدار صرف ربیع الاول کے مہینے کے بارہ دنوں بلکہ پورا مہینہ نعت خوانی و محافل سیرت منعقد کرنے سے ہوجاؤ گے۔

اگر ایسا ہوتا تو مسجد نبویؐ میں میرے آقا حضرت حسان بن ثابت کی نعتیں ہی سنتے رہتے۔ گزشتہ دنوں مفتی منیب الرحمن نے کیا خوب فرمایا کہ حضرت حسان کی نعتیں دشمنان رسولؐ پر تازیانوں کی طرح لگتی تھیں لیکن صحابہ بدر میں تلوار بکف نکلے تھے، احد میں شہادتیں ہوئیں تھیں۔ خندق میں پیٹ پر پتھر باندھے تھے۔ یہ تھا ان کا عشق رسولؐ و جذبہ جہاد سے سرشار، ایسے تو نہیں میرے آقاؐ نے فرمایا میں ’’رسول ملاحم‘‘ ہوں یعنی اللہ کے دشمنوں سے جنگ کرنے والا رسولؐ۔ مفتی منیب صاحب کی بات سے مجھے اپنے بچپن کے ایک بزرگ عالم پیر ولائت شاہ صاحب یاد آگئے۔

ان کی مسجد سے عید میلادالنبیؐ کا جلوس نکلتا تھا۔ ان کے بیٹے ہار پہنے اس جلوس کی قیادت کرتے تھے۔ لیکن وہ اس سب کے آغاز سے پہلے اور اکثر جمعہ کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد چند لمحے کے لیے منبر کے پاس کھڑے ہوتے اور لوگوں کو مخاطب ہوکر فرماتے کہ تمہیں معلوم ہے تم جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت اور شان بیان کرتے ہو انھیں تم لوگوں نے کتنا ستایا ہے۔ پھر کہتے دیکھو اگر ایک باپ اپنی تمام جمع پونجی خرچ کرے، رات دن محنت کرے تاکہ اس کا بچہ آخری امتحان تک کامیاب ہوجائے اور اگر اس کا آخری امتحان یعنی بی اے یا ایم اے میں فیل ہوجائے تو اس باپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور میرے آقاؐ کی تو ساری امت فیل ہونے جارہی ہے۔ تمہیں کچھ خیال ہے۔

اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ اس وقت ان کی بات حیرت میں ڈال دیتی اور سوچتا کہ جس رسول رحمت کو اللہ نے مقام محمود عطا کرنا ہے، جن کے ساتھیوں میں روز قیامت ’’لوائے الحمد‘‘ اللہ کی حمد کا جھنڈا ہوگا، جو شافع روز جزا ہیں، رحمتہ اللعالمین ہیں وہ ایک درخواست کریں گے تو اللہ سب کو ان کی سفارش پر بخش دے گا، تو پھر یہ پیر صاحب ہمیں خوامخوا ڈراتے ہیں۔ یہی تصور آج اس امت کا ہے جو میرے آقاؐ کو روز ہر طرح کی تکلیف دیتی ہے اور ان سے عشق کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ ایک صحابی وضو کروارہے تھے۔

آپ نے سوال کیا، مجھ سے عشق کرتے ہو؟ جواب دیا ہاں یا رسول اللہ، دوبارہ پوچھا، وہی جواب ملا، تیسری بار بھی جب وہی جواب ملا تو فرمایا ’’جو مجھ سے عشق کرتا ہے اس پر مصائب و آلام ایسے آتے ہیں جیسے پانی نشیب کی طرف جاتا ہے۔‘‘ دنیا میں کسی سے عشق ہوجائے تو راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے، دنیا کے کاروبار سے جی اچاٹ ہوجاتا ہے، پڑھائی میں دل نہیں لگتا، عزیزوں رشتے داروں سے لڑائی ہوجاتی ہے۔

بس ایک ہی دھن، ایک سودا سر میں سمایا ہوتا ہے۔ لیکن یہ کیسا عشق رسولؐ ہے جو گیارہ نہیں بارہ ماہ نہ ہمیں جھوٹ بولنے سے روکتا ہے، نہ غیبت کرنے سے، نہ کاروبار میں ملاوٹ سے منع کرتا ہے اور نہ ہی سود کے دھندے سے۔ اللہ اور اس کا رسول سود کے خلاف جنگ کا اعلان کررہے ہوتے ہیں اور کس قدر شرم کی بات ہے کہ انھی بینکوں کی عمارات پر بارہ ربیع الاول کو آمد رسولؐ کی خوشی میں چراغاں ہورہا ہوتا ہے۔ نعت کی محفلوں کی سپانسر کے بینر لگے ہوتے ہیں۔

ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی خوف تک محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ اور اس کا رسولؐ جن سے جنگ کا اعلان کرتے ہیں جنگ بھی ’’حرب‘‘ یعنی ہتھیاروں والی جنگ۔ ہم ان کی عمارتوں پر چراغاں دیکھ کر انھیں محبت رسولؐ کا سرٹیفکیٹ جاری کردیتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزانہ اپنے اعمال سے تکلیف پہنچا کر ان سے شفاعت کے طلب گار قرآن پاک میں بتائے گئے روز محشر کے اس منظر کو پڑھیں تو خوف سے کانپ اٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور رسولؐ کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری امت نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کررکھا تھا (الفرقان:30) یہ ہے وہ مقدمہ جو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم روز قیامت اس امت کے روبرو اللہ کے حضور پیش کریں گے۔

کس میں اس روز ہمت ہوگی جواب دینے کی۔ کیا ہم نے قرآن کو نظر انداز نہیں کیا۔ قرآن میں تو اللہ سورہ المائدہ میں کس وضاحت سے فرماتا ہے ’’جو کچھ ہم نے نازل کیا جو لوگ اس کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں (المائدہ 44) وہ ظالم ہیں (45) وہ فاسق ہیں(47)۔ ایسے میں سید الانبیاء جب ہم جیسی امت کے خلاف مقدمہ اللہ کے حضور پیش فرمائیں گے کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے تو پھر کون ہوگا جو ہمیں سزا سے بچاسکے گا۔ بس اتنا سوچتا ہوں تو خوف سے کانپ اٹھتا ہوں۔ اقبال کی دعا یاد آجاتی ہے۔

تو غنی ازہردو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گرتومی بینی حسابم ناگزیر
از نگاہ مصطفیٰؐ پنہاں بگیر

اے اللہ تو دونوں عالم کا غنی ہے اور میں ایک فقیر ہوں۔ قیامت کے روز میری عرض سن لینا، مجھ سے حساب نہ لینا۔ لیکن اگر میرا حساب ناگزیر ہو تو مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے دور لے جاکر حساب لینا۔ مجھے ان کے سامنے بہت شرمندگی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔