- وزیرقانون سندھ پابندی کے باوجود اسمبلی میں بیٹھ کر گٹکا کھاتے پکڑے گئے
- کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں 2 اغوا کار ہلاک، 7 سالہ مغوی بچہ بازیاب
- چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کی اہلیت کےخلاف درخواست خارج
- اینٹی کرپشن ٹربیونل نے ناصر جمشید کو 4 مئی کو طلب کرلیا
- این آراو سے متعلق درخواست پر پرویز مشرف اور آصف زرداری کو نوٹس جاری
- محمد عامر کو برطانیہ کا ویزا جاری، بدھ کی صبح روانہ ہوں گے
- گوات در سے گوادر تک
- پشاور میں نجی اسکولوں کا احتجاج؛ ہائی کورٹ کا ہڑتالی اسکولوں کو تحویل میں لینے کا حکم
- سرکاری بھرتیوں پر پابندی؛ اسلام آباد ہائیکورٹ کو ایک ہفتے میں فیصلے کا حکم
- سندھ میں انٹر امتحانات: پیپر شروع ہونے سے 10 منٹ پہلے پرچہ آؤٹ
- فیس بک نے داعش اور القاعدہ کی 19 لاکھ پوسٹیں ڈیلیٹ کردیں
- انڈونیشیا کے سابق اسپیکر کو کرپشن الزامات پر 15 سال قید اور نااہلی کی سزا
- چوہدری نثار نے کس اختیار کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے ختم کئے، چیف جسٹس
- نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا
- جون جولائی کی فیسوں پر پابندی کا کوئی حکم نہیں، سندھ ہائیکورٹ
- چین کے تین منزلہ بار میں آتشزدگی سے 18 افراد ہلاک
- نادرا نے شناختی کارڈ کی فیسوں میں 100 فیصد اضافہ کردیا
- گجرات میں غیرت کے نام پر مبینہ قتل کی گئی اطالوی نژاد خاتون کی قبر کشائی
- شمالی کوریا میں بس حادثے میں چینی سیاحوں سمیت 36 افراد ہلاک
- وزیراعظم بیرون ملک مفرور ملزم سے ملتے ہیں شاید انہیں قانون کا پتہ نہیں، چیف جسٹس
سوشل میڈیا کے دور میں خوش کیسے رہا جائے؟

کوئی دوست ملنے آیا، بیٹھا، بات کی، سنی نہ سنی، فیس بک پر لگے رہے۔ وہ کالج کا کوئی واقعہ سناتا رہا یا کوئی اور بات یہ پتا نہیں، البتہ اس کے ساتھ لی ہوئی سیلفی تبھی اپ لوڈ ہوگئی۔
صبح ہوئی ہے، آنکھ کُھلی نہیں پر ہاتھ ہیں کہ حرکت میں آچکے ہیں۔ ایک ہاتھ سے آنکھیں مسل رہا ہوں، دوسرے سے سیل فون ٹٹول رہا ہوں۔ کدھر ہے؟ رات کو سرہانے ہی تو رکھا تھا، کہیں گر تو نہیں گیا؟ کسی نے اٹھا تو نہیں لیا؟ خدانخواستہ کہیں نیچے آکر ٹوٹ ہی تو نہیں گیا۔۔۔۔ او یہ رہا۔۔۔۔ شکر ہے۔ ذرا دیکھوں تو کتنے میسجز آئے ہیں۔
فیس بُک کھولتا ہوں، نہیں پہلے انسٹا گرام یا پھر ٹوئٹر۔ یہ ہے ہم میں سے بہت ساروں کے دن کا آغاز۔ رینڈم فوٹوز لائک کرنا، نائیس ہے، اچھا ہے، بہت خوب، اوسم اور ایسے دو چار اور لگے بندے لفظوں سے ہر دوسرے تیسرے فوٹو یا ویڈیو پر کمنٹ کرنا۔ اِدھر کی چیز اُدھر اور یہاں کی وہاں شئیر کرتے ہوئے صبح کا آغاز کرنا اور سارا دن یہی کرتے رہنا۔
کوئی دوست ملنے آیا، بیٹھا، بات کی، سنی نہ سنی، فیس بک پر لگے رہے۔ وہ کالج کا کوئی واقعہ سناتا رہا یا کوئی اور بات یہ پتا نہیں، البتہ اس کے ساتھ لی ہوئی سیلفی تبھی اپ لوڈ ہوگئی۔ اسکول، کالج میں استاد نے کیا پڑھایا، کس موضوع پر بات کی، دھیان نہیں، یاد نہیں۔ ماں نے تو شوق سے کھانا بنایا ہے لیکن کیا، کیا جائے فاسٹ اینڈ فیوریس ایٹ کا ٹریلر بھی تو دیکھنا ہے۔ اس لئے ایک ہاتھ میں نوالہ اور دوسرے میں سیل فون ضروری ہے۔
بیوی بچوں کے ساتھ گھوم رہے ہیں، سب کا موڈ خوشگوار ہے۔ اچانک ایک نوٹیفکیشن آیا۔ دو سال پرانے ایک فوٹو پر کسی پرانے دوست نے لکھا ’’واہ وہ بھی کیا دن تھے جب توسارا دن نگہت کے ساتھ گزار دیتا تھا اور ہمیں سلام تک نہ کرتا تھا‘‘۔ سب کچھ جیسے دھڑام سے آ گرا۔ نگہت کون ہے؟ بیوی غصہ، بچے خوف زدہ اور صاحب پریشاں۔
یہ زندگی اور پھر گلہ کہ خوش نہیں ہم۔ 24 گھنٹے سوشل میڈیا سے جکڑے ہوئے اور شکوہ کے زندگی میں کوئی مزہ نہیں، پریشانی ہے، ڈپریشن ہے، بیوی فضول میں شک کرتی ہے، میاں بے جا پابندیاں لگاتے ہیں۔
بھئی زندگی جیو گے تو خوشی ملے گی ناں؟ سیل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، سوشل میڈیا۔۔۔ یہ تو تمہاری زندگی کو آسان کرنے کے لئے تھے، انہیں تو تمہاری زندگی کا جزو ہونا تھا اور تم نے انہیں ہی اپنی زندگی کا کُل بنالیا۔ دوست، گھر والے، بیوی، بچے رشتے دار، کسی کے لئے کوئی وقت نہیں لیکن انجان لوگوں کے لئے دن رات آن لائن۔ ’سوشلی کنیکٹیڈ‘ لیکن حقیقت میں کسی سے کوئی واسطہ نہیں۔
اسی سے پھر پریشانی اور ڈپریشن جنم لیتا ہے۔ حد سے تجاوز کرنے کے بجائے اعتدال میں رہتے ہوئے ان مصنوعات کا فائدہ اٹھائیے اور سہولت کو زحمت نہ بناتے ہوئے فیس بُک پڑھنے کے بجائے بکس پڑھی جائیں، فضول کمنٹس کی بجائے کچھ کام کا لکھیئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔