انتقام کی انگیٹھی

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 14 دسمبر 2016

چلوہمارے حکمرانوں اورخواتین کی ایک بات تو مشترک نکلی۔ تازہ ترین برطانوی ماہرین کی تحقیق کے مطابق خواتین بولتی ہیں تو بس بولتی ہی رہتی ہیں، خواتین ایک دن میں نسبتاً پانچ گھنٹے بے مقصد باتوں اورگپوں میں ضایع کرتی ہیں ۔ ایک عام عورت نیند سے بیداری کے بعد ایک تہائی یا پانچ گھنٹے گپ شپ میں گذارتی ہے اوریہ ہی بات ہمارے حکمرانوں میں بھی ہے وہ بولتے ہیں توبس بولتے ہی رہتے ہیں بے مقصد باتوں میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کیے جارہے ہیں وہ یہ بات تو ثابت کر نے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ وہ کام کے نہیں بلکہ باتوں کے شیر ہیں ۔

ایک اورعادت میں بھی دونوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے اور وہ ہے پہلے کرگذرنا پھرسوچنا اوراکثرکرتے ہی جانا اور بالکل نہ سوچنا پھر نتیجے میں ایسی فرصت کا میسر ہوجانا جس میں سوچنے کے علاوہ اورکچھ میسر نہ ہونا ۔ اس کے علاوہ ایک اور عادت بھی مشترکہ ہے اور وہ ہے اپنے علاوہ سب میں نقص کا پایاجانا اور سوائے اپنے اور سب کو الزام دیتے رہنا اور ساتھ ساتھ ستائش پسند ہونا بھی دونوں میں بھی مشترک ہے ۔ دراصل ہمارا ذہنی رحجان ہی ہماری ہر چیزکا تعین کرتا ہے۔ امریکی فلاسفر ایمرسن کے الفاظ میں ایک انسان وہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے اور اس سے مختلف وہ ہو بھی کیسے سکتا ہے ۔

اگر ہم خوشی اورمسرت کے خیالات سوچیں گے تو ہم خوش اورمسرور رہیں گے اگر ہمارے خیالات افسردہ اور پژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پژمردگی محیط ہوجائے گی۔ بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپوک بنادیں گے، بیمارخیالات ہمیں بیماربنادیں گے اگر ہم ناکامی کے متعلق سوچیں گے تو ہم یقینا ناکام رہیں گے، اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہرکوئی ہم سے گریزکرے گا۔ ہم سے دور بھاگے گا اور اگر ہم سارا وقت انتقام کے بارے میں سوچتے رہیں گے اور الجھنوں کا تانا بانا بنتے رہیں گے تو ہم چارلس ڈراون کے ’’مہیب اژدہوں ‘‘ کے ریوڑ پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکیں گے اور یہ اژدہے ہمیں کھوکھلا کردیں گے اور ہماری قوت ارادی اور قوت عمل کو تباہ کردیں گے اور یہ کچھ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ہوا ہے۔

نارمن ونسنٹ پیل نے کہا ہے ’’آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سوچتے ہیں‘‘ ہمارے سامنے سب سے بڑا اہم واحد مسئلہ صحیح قسم کے خیالات کا انتخاب ہے، اگر ہم یہاں کا میاب ہوجائیں تو ہم اپنے سارے مسائل کو نہایت آسانی اور خوبی کے ساتھ عہدہ براں ہوسکتے ہیں لیکن اگر ہم یہاں ناکام ہوجائیں تو ہم اپنے ساتھ سب کو لے ڈوبتے ہیں ۔

مملکت روم کے حکمران اور فلسفی مارکس آریلیس نے اسے آٹھ الفاظ میں سمودیا ہے۔ ہماری زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے کیونکہ پھر انھی خیالات سے ہمارا عمل بنتا ہے ۔آج ہمارے ملک میں انتشار بداعتمادی کادیوجو منہ پھاڑکرکھڑا ہے یہ اسی ہی بیمار اورانتقامی خیالات کی پیداوار ہے جس نے صرف کچھ سالوں میں دیوکی شکل اختیارکرلی ہے۔ اب یہ دیوکسی کے قابو میں نہیں ہے نہ ہی ان کے قابو میں ہے جنہوں نے اسے جنم دیا ہے۔

جب ہم اپنے دشمنوں سے نفرت کرتے ہیں تو ہم انھیں اپنے اوپرغالب آنے کاموقع دیتے ہیں، انھیں ہماری نیند ہماری اشتہا، ہمار ے خون کے دباؤ ہماری صحت اورہمار ی عقل پر مسلط ہونے کا وسیلہ مل جاتا ہے ہماری نفرت سے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، البتہ ہمارا انتقامی جذبہ ہمارے شب وروز کو جہنم میں تبدیل کردیتا ہے۔ جب تم بدلہ لینے کے درپے ہوتے ہو توکسی دوسرے کے بجائے خود اپنے آپ کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہو۔ بدلہ لینے کی کوشش سے آپ کوکئی اعتبار سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جریدہ ’’لائف‘‘ نے لکھا تھا کہ اس سے آپ کی صحت بھی تباہ ہوسکتی ہے خون کے دباؤ کے مریض عموماً نفرت کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

دل کی تمام بیماریوں اس جذبے کی وجہ سے پیداہوتی ہے۔ نفرت کی وجہ سے ہم اپنے کھانے سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتے اور پھر جب ہمار ے دشمنوں کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان سے ہماری نفرت خود ہمیں چوس رہی ہے ہماری قوتیں سلب کررہی ہیں ہمیں اعصاب زدہ بنارہی ہیں ہماری صورت بگاڑ رہی ہے ہمیں اختلا ج قلب میں مبتلا کررہی ہیں اور شاید ہماری زندگی بھی گھٹا رہی ہے تو کیاوہ خوشی سے تالیاں نہیں بجاتے ہوں گے ۔ جیساکہ شیکسپیئر نے کہا ہے ’’ اپنے دشمن کے لیے انگیٹھی اتنی گرم نہ کرو مبادا کہ یہ خود تمہیں ہی جلا ڈالے۔‘‘

نیویارک کے سابق میئر ولیم جے گے نورکی یہ ہی پالیسی تھی۔ اشتعال انگیزاخبارات نے ان کی پگڑی اچھالی اور ایک دیوانے نے تو ان پرگولی بھی چلادی ۔ جب وہ اسپتال میں پڑے اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کررہے تھے انھوں نے کہا میں ہر شام ہر شخص کو معاف کردیتا ہو ں ۔آئیے ہم ’’ مطالعہ قنوطیت ‘‘ کے مصنف عظیم جرمن فلسفی شوپہنار کی طرف رجوع کریں وہ زندگی کو بیکار، لایعنی اورتکلیف دہ سمجھتا تھا جب وہ چلتا تھا تو اس کی رگ رگ سے مایوسی اور اداسی ٹپکا کرتی تھی لیکن اپنی قنوطیت اور مایوسی کی گہرائیوں سے شو پہنار نے چلا کرکہا حتی الامکان ہمیں کسی شخص کے ساتھ بھی دشمنی اور عناد نہیں برتنا چاہیے۔

برنر ڈبر وچ جو چھ امریکی صدر ولسن، ہارڈ نگ، کولج ، آئزن ہاور، روزویلٹ اور ٹرو مین کا مشیر رہ چکا ہے پوچھا گیا آپ کبھی دشمنوں کے حملوں سے پر یشان ہوئے ہیں انھوں نے جواب دیا ’’ مجھے کوئی شخص ذلیل یا مضطرب نہیں کرسکتا میں کسی کو ایسا نہیں کر نے دوں گا ۔‘‘

کوئی شخص مجھے اورآپ کو بھی ذلیل اور مضطرب نہیں کرسکتا تاوقتیکہ ہم خود اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دیں لاٹھیاں اور پتھر بلاشبہ ہماری ہڈیاں توڑسکتے ہیں لیکن الفاظ کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔اس بات کا تو اب سب کو احساس ہوگیا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے نا سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے اور اب تو سمجھانے والوں نے بھی توبہ کرلی ہے۔

حکمرانوں اگر آپ کو ذرا بھی فرصت مل جائے تو دیکھ لینا کہ جو انتقام کی انگیٹھی آپ نے گرم کی تھی وہ انگیٹھی اب تمہیں خود کو جلانے والی ہے تم کسی کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے اگر کسی کو نقصان پہنچے گا یا پہنچ رہا ہے تو وہ تم خود ہی ہو وقت تمہارے ہاتھ سے نکل رہا ہے تمہارے حریف خوشی سے تالیاں بجارہے ہیں اور سب کے سب مکمل نقصان کے منتظر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔