قلم ساکت ہے

فریدہ فرحت آغازئی  بدھ 14 دسمبر 2016

عرصہ ہوگیا تحریروں میں ربط نہیں رہا، لکھنے بیٹھتی ہوں توکبھی ذہن ساتھ نہیں دیتا ہے توکبھی قلم اورکبھی موضوعات پر لگی پابندیاں کہ اس ٹاپک پر نہ لکھیں،اس پر نہ لکھیں،کئی بار قلم زد بھی کی گئی تحریر توکیا لکھیں اور کیسے لکھیں۔اس پر المیہ یہ ہے کہ ملک اور قوم کے حالات بجائے سدھارکے مسلسل بگاڑ ہی کی طرف بڑھ رہے ہوں اورکہیں سے بھی خیر اور بھلائی کی خبر ملنا مشکل ترین فعل قرار پاجائے اور مشکل ترین مرحلہ جب آجاتا ہے کہ آپ کچھ عرصہ اپنے وطن سے دور ایک‘ ایسی جگہ پر گزار آئے ہوں جہاں نہ صرف قانون موجود ہو بلکہ اس پر عمل در آمد بھی اس طرح کروایا جاتا ہے کہ کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ خلاف ورزی کر پائے۔

پھر وہ کچرا پھینکنے جیسی معمولی بات ہو یا کوئی بڑا قبیح قسم کا جرم۔ کچرا پھینکنے کو معمولی اس لیے کہاکہ آپ کی جرأت نہیں ہوتی کہ ایک ٹافی کا ریپر بھی یونہی کہیں اچھال دیں۔ اب ایسا بالکل بھی نہیں کہ وہاں بالکل بھی جرائم نہیں ہوتے۔ بالکل ہوتے ہیں اور ان میں بھی بیشتر ہمارے پاکستانی ہی ملوث پائے جاتے ہیں۔انڈین وہاں بہت بڑی تعداد میں ہیں اور نہایت تندہی سے نہ صرف خود کو بحیثیت محنتی قوم اور پرامن ثابت کررہے ہیں اور وہی اپنی کینہ پرور فطرت کی وجہ سے پاکستانیوں کو سچ اور جھوٹ ہر طرح سے برا بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اندازہ یہ ہوا کہ جو بھی انڈین وہاں آتا ہے باقاعدہ کسی ٹریننگ سے گزرکرآتا ہے اور انھی اصولوں کے مطابق وہ اپنے کو اچھا شہری اور محنتی ورکر ثابت کرتے ہیں۔ ان کی حکومت بھی کافی اپنے لوگوں کی دیکھ ریکھ میں لگی رہتی ہے اور ان کا جو بھی سربراہ ابوظہبی یا دبئی کا دورہ کرتا ہے۔ وہ ایسے لیبرکیمپس میں جاتا ہے اور ان کے مسائل بھی حل کرواتا ہے۔

ہمارے پاکستانی وہاں بے اعتبار ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ میرا پاکستانی پاسپورٹ Expire ہوگیا اور مجھے Consulate General of Pakistan جانا پڑا۔ دبئی میں یقین کریں جاکر ایک Shock لگا بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے ہم پاکستان آگئے، ویسے ہی مخدوش عمارت اور ویسا ہی اسٹاف اور وہ ہی ان کی اوٹ پٹانگ سروس،کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں تھا۔ اﷲ اﷲ کرکے ہم پورا پروسس سمجھ کراپنی باری کے انتظارمیں بیٹھ گئے تو جناب ہوا یوںکہ ابھی ہمیں پورا Enjoy بھی توکرنا تھا بس پھرکیا تھا۔

بارش ہوگئی اور پوری عمارت تو نہیں لیکن جہاں جہاں لوگ لائنز میں لگے ہوئے تھے سب چھتیں اندر سے ٹپکنے لگیں۔ شرمندگی تو اتنی نہیں ہوئی کیونکہ سب ہی اپنے تھے لیکن افسوس بہت ہوا کہ پاکستان میں تو حشر برپا ہے ہی لیکن باہر بھی اس کا Image کچھ کم خراب نہیں۔ خیبر پاسپورٹ وقت پر مل گیا الحمدﷲ کچھ دنوں کے لیے کراچی آنا ہوا اور چونکہ قیام وہیں تھا تو واپس بھیجانا ہی تھا۔ یہاں سے یعنی کراچی سے رات کی فلائٹ ملی جوکہ دبئی ایئرپورٹ پر 2½ بجے اتری۔ مجھے کوئی ٹینشن نہیں تھی کہ پہلی بار تو تھا نہیں۔ معلوم تھا ایئرپورٹ سے نکلتے نکلتے ساڑھے تین اور 4 تک گھر پہنچ جاؤںگی۔ بچوں کو حتی الامکان تکلیف نہیں دیتی۔ اس لیے جب ایئرپورٹ سے باہرآئی تو آرام سے نارمل ایئرپورٹ ٹیکسی چھوڑ کر میں نے پنک ٹیکسی کا انتخاب کیا۔ جو لیڈیز ڈرائیورچلاتی ہیں اور یہ خاص ان لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہیں جو خواتین تنہا سفرکرتی ہیں اور فلائٹ کسی بھی وقت کی ہو وہ آرام سے اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہیں۔ میں بھی آرام سے گھر پہنچ گئی۔

میری ڈرائیور نے پہلے تو مزے سے میرا سامان ٹیکسی میں رکھا اورگھر کے سامنے آرام سے اتارا اور چلی گئی اور میں بغیر ذہنی کوفت کے سکون سے گھر آگئی۔ جب کہ کراچی جاتے وقت پریشان تھی کہ لیٹ نائٹ کی فلائٹ نہ ہو جب کہ کراچی میں تو لازمی کوئی بچہ لینے آتا ہی ہے۔ پھر بھی کراچی کے حالات کے پیش نظر احتیاط کرنی پڑتی ہے۔اپنے ہی ملک میں آنے کے لیے ہمیں حالات کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ میرے اپنے خاندان کے بیشتر افراد مختلف مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں کوئی 32 سال سے کوئی 25 سال تو کوئی 17۔ صرف یو اے ای کی ہی نہیں ان تمام ممالک میں جہاں ہمیں سیکنڈ سٹیزن کہاجاتا ہے اس کے باوجود لوگ وہیں کیوں رہ جاتے ہیں؟ یا واپس آنا نہیں چاہتے ہیں؟ در اصل وہ لوگ نہ صرف قانون کو فوقیت دیتے ہیں بلکہ اس کا نفاذ ان کی اولین ترجیح ہے اور ہر شہری اپنے حقوق نہ صرف جانتا ہے بلکہ فرائض پر عمل در آمد بھی کرنا اس کی ذمے داری ہے اور ایسا سب کچھ وہ بڑی وثوق سے کرتا ہے۔

گو کہ پاکستانی سسٹم سے نکل کر دوسرے سسٹم پر عمل درآمد ذرا سا مشکل سہی مگر جب وہ انھیں اپنا لیتا ہے تو پھر اس کا گزارہ لاقانونیت سے بھری بوجھل فضا میں مشکل ہی ہوجاتا ہے نہ وہاں آپ کو بے تحاشا پولیس نظر آئے گی نہ سائیڈ پر گاڑیاں روک روک کر چالان کے بہانے رشوتیں لی جائیںگی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہاں کرائم ہوتا ہی نہیں؟ بالکل ہوتا ہے اور سب کچھ ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں کے مقابلے میں تناسب فی صد ہے۔ جس کا تدارک بھی کیا جاتا ہے اور انصاف بھی کوئی بچ نہیں سکتا اور اس پر بھی یہ حال ہے کہ ان کا میڈیا بہت کنٹرولڈ ہے اور Harassment پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے ملک امن پسندوں کی جنت ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو ایسے معاملات پسند ہی نہیں ہوتے جن لوگوں کے کام ہی رشوت دینا اور لینا ہوں اور قانون کو توڑ کر ہی جن کے روزگار کے سلسلے بندھے ہوئے ہوں ان کے لیے ایسی جگہیں قید کی مانند ہیں۔ بہر حال ہر شخص کی اپنی اپنی رائے ہے۔

اچھا اب ان پنک ٹیکسیوں کا بھی سنیں وہ خواتین کو ایئرپورٹ سے ان کی منزل پر پہنچاکر واپس ایئرپورٹ آجاتی ہیں ان میں ڈرائیور بھی لڑکیاں ہی ہوتی ہیں اور دنیا بھر کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتی ہیں، ہر مذہب اور نسل کی یہ لڑکیاں ایک ہی ڈریس کوڈ کی پابند ہیں۔جس میں حجاب لازمی شرط ہے اور یہی نہیں کئی حوالوں سے لڑکیاں عزت دار روزگار کے لیے یہاں پر موجود ہیں اور ان کی سیکیورٹی کی ذمے دار وہاں کی حکومت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔