حال احوال

شبیر احمد ارمان  بدھ 14 دسمبر 2016
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

حال احوال بلوچی لفظ ہے جس کا مطلب ایک فردکا دوسرے فردکے متعلق جاننا، یعنی خیریت دریافت کرنا ۔ یہ بلوچی ثقافت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے رشتے داروں، پڑوسیوں، جاننے والوںکی خیریت دریافت کرتے ہیں،ان کی مزاج پرسی کرتے ہیں۔اس طرح آپس میں بھائی چارگی پیدا ہوتی ہے، جس سے امن کی فضا قائم رہتی ہے ۔لیاری میں بھی اس سلسلے میں سرے شام بیٹھکیں ہواکرتی تھیں ، پھر رفتہ رفتہ حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے یہ سلسلہ دم توڑتا رہا، ہرکس وناکس جان کی امان کی تلاش میں سرگرداں رہا،کسی کوکسی کی نہیں، اپنی فکر لاحق رہی۔ جب ہوش وحواس بحال ہوئے تو بہت کچھ بدلہ ہوا تھا۔لیاری میں حال حوال کی بیٹھکیں پھر سے بحال ہونا شروع ہیں ۔ مہر درآرٹ پروڈکشن کراچی کا مقبول ادارہ ہے۔

جس کا مقصد نوجوانوں میں موجود فنکارانہ صلاحیتوں کو اجاگرکرنا ہے ۔ کے وائی آئی KARACHI YOUTH INITIATIVEغیرسرکاری وغیرسیاسی خالصتا سماجی ادارہ ہے جس کا مقصد شہرکراچی میں بھائی چارگی اورامن کو فروغ دینا ہے۔ان دونوں سماجی اداروں کے باہمی اشتراک سے حال حوال کے عنوان سے جولائی 2016 سے ایک پروجیکٹ کا آغازکیا جو پانچ ماہ کے دورانیے پرمحیط تھا ۔ جس کے تحت لیاری سے وابستہ مختلف زبانیں بولے جانے والے نوجوانوں کو صحافتی رپورٹنگ اور فوٹوگرافی کی تربیت فراہم کی گئی، جس کا بنیادی مقصد لیاری کے نوجوانوں میں کمیونٹی صحافت کی طرف راغب کرنا تھا تاکہ وہ اپنے علاقائی بنیادی مسائل کو تحریری اور تصویری صورت میں اجاگرکرسکیں اور ساتھ ہی لیاری کے اصل تشخص کودنیا میں متعارف کرائیں اورتعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مثبت سر گرمیوں میں مشغول کرنا تھا ۔لیاری لیبر ویلفئیر سینٹرمیں منعقدہ اس تربیتی پروجیکٹ میں 30 تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیوں کو 32 سیشن میں رپورٹنگ،کالم نویسی اور فوٹوگرافی کی تربیت دی گئی اوران کو مشق بھی کروائی گئی۔

قبل ازیں لیاری بھر میں مختلف علاقوں میں ترغیبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس سے نوجوانوں میں ایک جوش ولولہ پیدا ہوا اور ان نوجوانوں پر مشتمل فوٹوگرافی واک بھی کروائی گئی، جس میں انھوں نے لیاری کے مختلف علاقوں کی تصاویر اتاریں اور ساتھ ہی ایک پروقار شاندار تقریب میں ان تصاویرکی نمائش کی گئی اورانھی نوجوانوں کی رپورٹنگ اور تصاویر پر مبنی چار ہزارکی تعداد میں حال حوال کے نام سے چارمختلف نیوزلیٹرزکا بھی بلا قیمت اجراء کیا گیا ۔

راقم الحروف اس جریدے کا ایڈیٹر ہے جسے قارئین نے بے حد سراہا، تقریب میں ان نوجوانوںکو تعریفی اسناد سے نوازا گیا۔ لیاری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منعقدہ اس انوکھے پروجیکٹ میں جن نوجوانوں نے حصہ لیا۔ ان میں پروگرام منیجر پروین ناز، ایگزیٹو پروگرام عمیر رزاق ، پروگرام لیڈ فہیم شاد ، مزمل الٰہی،ارباب خان ، حسن اختر، شعیب سرہندی، بھرت مشھوری اورعبدالمعتین شامل تھے یہ تمام نوجوان لیاری کے ہیں جن کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے ۔اس پروجیکٹ کے ایڈوائزری کمیٹی میں سینئر صحافی لطیف بلوچ،لیاری لیبر ویلفیئرسینٹرکے صدر عابد حسین بروہی، رائٹر رمضان بلوچ ، راقم الحروف،ماہر تعلیم شبیرحسین بلوچ اور ممتاز سماجی رہنما عبدالستار بلوچ شامل تھے ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لطیف بلوچ نے کہا کہ لوگوں کو آپس میں حال حوال کرنا چاہیے،اس سے نفرتیں مٹ جاتی ہیں اورمحبتیں پروان چڑھتی ہیں ۔عابد حسین بروہی نے کہا کہ بندوق اٹھانا بہت آسان ہے لیکن قلم اٹھانا بہت مشکل ہے، بندوق سے انسانی جان ضایع ہوتی ہے خوف پیدا ہوتا ہے،مایوسی جنم لیتی ہے جب کہ قلم سے انسانی زندگی پروان چڑھتی ہے ، زندگی کو حوصلہ ملتا ہے ، معاشرہ پروان چڑھتا ہے، میں ان تمام لڑکے اورلڑکیوں کو جو حال حوال کا حصہ تھے یہ کہوں گا کہ وہ قلم کی حرمت کا پاس رکھیں اور ہمیشہ سچ لکھیں، نوجوانوں کی یہ محنت قابل ستائش ہے۔

ان نوجوانوں نے اس عزم کا اظہارکیا کہ وہ آیندہ اپنی مدد آپ کے تحت اس سلسلے کو جاری رکھیں گے،اپنی ادارت میں ایک نیوز لیٹر کا اجراء کریں گے،اپنے قلم سے لیاری کی مثبت عکاسی کریں گے ۔ ان نوجوانوں نے مطالبہ کیا کہ لیاری میں قائم بے نظیر بھٹوشہید یونیورسٹی میں ماس کمیونیکشن کی بھی تعلیم دی جائے تاکہ لیاری کے نوجوان بھی صحافت میں قدم رکھ سکیں ۔

مدتوں بعد لیاری پھر سے امن کا گہوارہ ہے، ایسے میں لیاری کی سول سوسائٹی،لیاری کی تصویر کا دوسرا رخ یعنی مثبت چہرے کے احیاء کی کوششوں میں مصروف ہے تاکہ لیاری کو دوبارہ ماضی کے اس پس منظر میں دیکھا جاسکے جہاں راتیں جاگتی تھی ۔ ہر طرف اسپورٹس کا دوردورہ تھا ، سماجی ، ادبی تقاریب منعقد ہونا معمول ہواکرتا تھا ، لیاری کو ایک اچھی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیاری کے باسیوں کو شکایت ہے کہ لیاری کو ہر دور میں نظر اندازکیا گیا ہے جب کہ لیاری کے نوجوان اپنے علاقے کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثرکو ختم کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں جنھیں زائل کرنے کے لیے مثبت سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

لیاری کے نوجوانوں کو شکایت ہے کہ میڈیا لیاری کی سماجی اوراسپورٹس سرگرمیوں کی کوریج نہیں کرتا،لیاری میں جو اچھے کام ہورہے ہیں انھیں بھی ہائی لائٹ کریں، شہر میں لیاری والوں کو ایسے دیکھا جاتا ہے کہ جیسے کوئی آسمانی مخلوق زمین پر اترآئی ہو ۔لیاری کے نوجوانوں کی اس احساس کمتری کا سدباب کیا جائے، لیاری کے اسکولوں سے بچے ٹاپ کرتے ہیں لیکن میڈیا میں انھیں نہیں دکھایا جاتا ، لیاری اب امن کا گہوارہ ہے ، یہاں کے نوجوانوں میں خداداد صلاحیتیں موجود ہیں، حال ہی میں لیاری میں وطن عزیز کی پہلی گرلز باکسنگ ٹیم کا قیام عمل میں آیا ہے جس میں لیاری کی لڑکیاں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں ۔ لیاری میں پہلی مرتبہ گرلز فٹبال ٹیم بھی قائم ہوئی ہے جن کے کھیل سے شائقین فٹبال حیرت زدہ ہیں کہ کیا خوب کھیلتی ہیں ، لیاری میں پہلی مرتبہ گرلز اسکاوٹ گروپ کی تشکیل ہوئی ہے جو شہر کراچی سے باہر تربیتی کیمپ بھی لگاتی رہتی ہیں۔

لیاری فٹبال کی نرسری ہے یہاں کے فٹبالروں نے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے، لیاری کے نوجوان کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں،کبھی پیس آف لیاری کے نام سے مجلس اور مذاکرہ کرتے رہتے ہیں،کبھی فٹبال، باکسنگ کے ٹورنامنٹ منعقد کرتے رہتے ہیں،کبھی لیاری کی تاریخ کو کتابی شکل دیتے ہیں،کبھی لیاری کی عکس بندی کرتے ہیں،کبھی لیاری کے طلبا وطالبات کے مابین تقریری، مصوری، فوٹوگرافی ونعت گوئی کے مقابلے کراتے ہیں ۔کبھی شارٹ فلموں کی نمائش کرتے ہیں، ویڈیوز فلمیں بناتے ہیں،نوجوان پروڈیوسر ، ڈایریکٹراور فوٹوگرافر احسان شاہ کی شارٹ فلم ’’جاور‘‘ کو بحرین کے عالمی یوتھ مقبلہ مین پہلا انعام ملا۔ اسی طرح بے شمار نوجوان تعلیمی میدان میں اچھی ڈویژن میں پاس ہورہے ہیں، سماجی سطح پر بیرون ممالک کا دورہ کررہے ہیں وہاں تعلیمی، سماجی تربیت حاصل کرکے لوٹ رہے ہیں، یہ لیاری کے نوجوانوں کی آواز ہے۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ لیاری کی اس نئی پود کو پروان چڑھانے کے لیے لیاری میں فٹبال، باکسنگ ، فلم اکیڈمیز قائم کی جائیں ، سرکاری درسگاہوںکو بہترکیا جائے۔ اس طرح تعلیم، فن وثقافت اوراسپورٹس کو فروغ حاصل ہوگا، لیاری کے یہی لڑکے اور لڑکیاں وطن عزیزکا نام روشن کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔