میں کیسے زندہ بچا؟

سالار سلیمان  جمعرات 15 دسمبر 2016
اب موت ہمیں بھی سامنے دکھائی دے رہی تھی کیونکہ اندر دھویں، گرمی اور حبس کی وجہ سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ ناک، آنکھوں اور منہ سے پانی نکل رہا تھا جبکہ سانس لینا ناممکن بنتا جارہا تھا۔

اب موت ہمیں بھی سامنے دکھائی دے رہی تھی کیونکہ اندر دھویں، گرمی اور حبس کی وجہ سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ ناک، آنکھوں اور منہ سے پانی نکل رہا تھا جبکہ سانس لینا ناممکن بنتا جارہا تھا۔

چند ہفتوں قبل جب کراچی کے ایک معروف ہوٹل میں آگ لگی تو وہ آگ ہر چینل کی بریکنگ نیوز تھی۔ لاہور میں الیکٹرانک میڈیا کے صحافی کی زبان میں اس کو ’’پھٹا‘‘ کہتے ہیں۔ اب جس وقت پھٹا چل رہا تھا تو میں اپنی مصروفیت کی وجہ سے اُس کو مکمل وقت نہیں دے سکا۔ بس اتنا ہی معلوم تھا کہ کراچی کے ایک ہوٹل میں کسی وجہ سے شدید آتشزدگی ہوئی ہے، جس میں جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ اگلے دن اخبار سے خبر اور اُس آگ کی نوعیت کا علم ہوا اور اُسی روز مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے ہی ادارے کا ایک نوجوان اُسی ہوٹل میں موجود تھا اور وہ بھی خوش قسمتی سے زندہ بچنے والوں میں شامل تھا۔ اُس دوران ہوٹل میں کیا ہوا اور وہ کس طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا، آئیے اُس کی ’سروائیویونگ اسٹوری‘ مختصراً اُسی کی لکھی پڑھتے ہیں۔

میرا نام یاسر نیازی ہے اور میں پاکستان کے سب سے بڑے پراپرٹی پورٹل کے مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ مینجر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہا ہوں۔ میں دفتری امور کے سلسلے میں کراچی میں موجود تھا، دن بھر کام کرنے کے بعد حالت ایسی تھی کہ دل کررہا تھا کوئی یہیں چارپائی دے اور میں یہاں ہی سوجاؤ۔ تھکن سے چُور بدن کے ساتھ میں ریجنٹ ہوٹل پہنچا اور آٹھویں فلور پر اپنے کمرے ’کمرہ نمبر 828‘ میں چلا گیا۔ میرے دوست نے اندر آکر ٹی وی آن کردیا اور میں نے کپڑے تبدیل کرکے اپنے آپ کو بستر پر گرا دیا۔ تھکن اِس قدر زیادہ تھی کہ میں چند ہی سیکنڈ میں سوچکا تھا۔ رات کے کسی پہر میرے دوست نے مجھے زور سے جھنجھوڑا،

’’ابے یاسر اُٹھ‘ آگ لگی ہے‘ بھاگ۔۔۔‘‘

اُس کے یہ بے ربط الفاظ تھے جو میرے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح سے لگے۔ میں اُٹھا تو کمرے کی روشنی میں دیکھا کہ کمرے میں ہلکا ہلکا دھواں آرہا ہے۔ یہ دھواں ایگزاسٹ اور ائیر کنڈیشن سے آرہا تھا۔ میرا دوست دروازے تک پہنچ چکا تھا، میں نے جلدی سے سائڈ ٹیبل سے موبائل اُٹھائے اور باہر کی جانب دوڑ لگادی، ہمیں نہیں پتا تھا کہ آگ کہاں لگی ہے۔ میری حس اب جاگ رہی تھی اور میں نے سوچا کہ اب پریشانی سے کچھ نہیں ہوگا، ہم آٹھویں فلور پر ہیں اور ہمیں سب سے پہلے جتنا جلدی ہوسکے نیچے آنا ہے۔ کمرے میں لیپ ٹاپ، بیگ، پیسے، جوتے، کپڑے اور سب ہی کچھ موجود تھا، جو وہیں چھوڑدیا حتٰی کہ جوتے بھی نہیں پہنے اور ہم باہر بھاگے۔ میں تھا، میرا دوست تھا اور میرے ہاتھ میں دونوں موبائلز تھے۔ ہم فوری طور پر لفٹ کی جانب دوڑے۔ مگر اُسی لمحے خیال آیا کہ لفٹ تو بند ہوگی۔ جس کے بعد ہم نے وہیں سے فائر ایگزٹ کی جانب دوڑ لگا دی۔

اِسی اثناء میں مختلف کمروں سے لوگ باہر آرہے تھے اور باقی کے کمروں پر ہم ٹھونک بجا کر چلا رہے تھے کہ بھاگو آگ لگی ہے۔ فائر ایگزٹ کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ ذہن میں ایک دم سے ہی مختلف خیالات دوڑنا شروع ہوگئے، اِس دوران بلدیہ فیکٹری کا سانحہ بھی یاد آیا۔ اِس منزل پر تیزی سے دھواں پھیل رہا تھا۔ ہم نے دروازے کو ٹھوکریں مارنا شروع کردی۔ میں نہیں جانتا کہ وہ دروازہ ٹوٹا تھا کہ کھلا تھا، لیکن جیسے ہی دروازہ ایک جھٹکے سے دیوار سے ٹکرایا تو کالے رنگ کا سیاہ گاڑھا دھواں ہمارے نتھنوں سے ٹکرایا۔ اُس کی بدبو متلی کیلئے کافی تھی لیکن حواس کو قابو میں رکھنے کی وجہ سے ہم بس بھاگے۔ اُس فائر ایگزٹ میں دھواں اِس قدر شدید تھا کہ سانس لینا دشوار تھا، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اور ہم سیڑھیاں پھلانگ رہے تھے۔ دھویں کی شدت کے سبب ہمیں محسوس ہوگیا کہ اب ہم زیادہ نیچے نہیں جاسکتے ہیں۔ موبائل کے ٹارچ کی روشنی میں ہم نے سیڑھیوں کے ایک دروازے کو زور سے دھکا دیا تو وہ کھل گیا۔

اب ہم پانچویں منزل پر تھے۔ ہم اُس منزل کے آخری کنارے پر پہنچے اور ایک کمرے میں گھس گئے۔ اس کمرے میں اور لوگ بھی تھے۔ سامنے کی کھڑکیاں تھی جو کہ مضبوطی سے بند تھی، ہم نے دروازہ بند کردیا کیونکہ پانچویں فلور پر اِس قدر شدید دھواں تھا کہ سانس لینا ناممکن بنتا جارہا تھا۔ ناک، آنکھ اور منہ سے پانی بہہ رہا تھا۔ ہم نے سب سے پہلے کھڑکیاں توڑیں۔ کھڑکی کا بڑا سا شیشہ ایک زور دار چھناکے کے ساتھ ٹوٹا۔ اِسی اثناء میں اوپر سے بھی شیشے نیچے کی جانب گر رہے تھے۔ ہم نے لوگوں کو دیکھا وہ نیچے کھڑے ہوکر اوپر کی جانب دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی ہم نے نیچے دیکھا تو آگ کا ایک بہت بڑا شعلہ نیچے ہی جانب سے اوپر کو اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ اب معلوم ہوا کہ آگ نچلی منزل پر لگی تھی۔

باہر ایمبولینسوں کی قطاریں تھی، لوگ تھے، پریشان صورتیں تھیں اور اگر کوئی نہیں تھا تو مدد نہیں تھی۔ ہوٹل کی آٹھویں منزل پر مجھے کمرہ دیا گیا تھا جس کا سادہ سا مطلب یہ تھا کہ ہوٹل مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی جانیں بچا رہے تھے۔ شیشے توڑنے کے بعد ہوا اندر کی جانب آرہی تھی اور اب سانس لینا قدرے آسان تھا۔ کمرے میں کل چھ آدمی تھے۔ اب ہم نے یہاں سے نکلنے کا سوچا۔ اس کیلئے ہم نے ایک از خود ایک امدادی رسی بنائی۔ یہ بیڈشیٹوں کو پھاڑ کر اور اُن کی گانٹھیں باندھ کر بنائی تھی۔ ہم نے وہ رسی نیچے لٹکائی تو وہ تیسری منزل کے قریب تک ہی پہنچ پا رہی تھی۔ ہم نے اُس رسی کو بیڈ کے فریم سے مضبوطی سے باندھا، اُس پر میٹرس رکھا، پھر ایک اور میٹرس رکھا اور اس پر کمرے میں موجود بھاری سامان رکھ دیا۔

اب باری تھی کہ سب سے پہلے نیچے کون جائے گا؟ اگر ہم کسی طرح سے نیچے سیکنڈ فلور تک پہنچ جاتے تو اُس کے ٹیرس سے بچنے کا امکان تھا۔ تھرڈ فلور اور سیکنڈ فلور سے کچھ لوگ وہیں سے نیچے کی جانب گئے تھے۔ وہاں ایک سیمنٹ کی ایک سلائڈ سی تھی جو کہ نیچے کی جانب جاتی تھی۔ لیکن پریشانی یہ تھی کہ پانچویں فلور سے دوسرے فلور تک کیسے جائیں؟ ہم سے کچھ ہی فٹ کے فاصلے پر اسکیف فولڈنگ کی طرح کی موٹی سی رسی جھول رہی تھی۔ وہاں سے بچنا ممکن تھا لیکن اُس تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ بیڈشیٹس کو کاٹ کر بنائی گئی رسی نیچے لٹک رہی تھی۔ کمرے میں دھواں تیزی سے پھیل رہا تھا، لوگوں میں پریشانی، بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا تھا، لیکن مدد تھی کہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور فائر ایگزیٹ میں دھواں بھر جانے کی وجہ سے وہاں سے نیچے جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔

اُس کمرے میں موجود چھ لوگوں نے یہی کہا کہ پہلے میں نیچے جاؤں کیونکہ سب سے کم وزن میرا ہی تھا۔ خیر تھوڑی سی بحث کے بعد میں جانے کیلئے تیار ہوگیا۔ میں نے اُسی کمرے سے کسی کے جوتے پہنے اور کھڑکی کے راستے خود ساختہ رسی کو پکڑ کر باہر نکلا۔ ابھی میں نے اپنے آپ کو نیچے لٹکایا ہی تھا کہ میری نظر نیچے کی جانب گئی۔ مجھے ایک دم سے شدید قسم کا چکر آیا۔ میری بیڈ شیٹ کی رسی پر گرفت کمزور ہورہی تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ مجھے فوراً اوپر کھنچیں، جس کے بعد میں بڑی مشکل سے واپس اوپر پہنچا۔ میں جیسے ہی ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے راستے سے کمرے میں پہنچا تو اوپر سے بھاری تعداد میں شیشہ نیچے کی جانب گرا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں بچ گیا ورنہ میرے سر پر گہری چوٹ لگ سکتی تھی۔ اِسی دوران کسی کمرے سے ایک خاتون نے پریشانی کے عالم میں پانچویں فلور سے نیچے چھلانگ لگادی اور ہماری آنکھوں کے سامنے وہ خاتون نیچے گرتے ہی دم توڑ گئی۔

اب موت ہمیں بھی سامنے دکھائی دے رہی تھی کیونکہ اندر دھویں، گرمی اور حبس کی وجہ سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ ناک، آنکھوں اور منہ سے پانی نکل رہا تھا جبکہ سانس لینا ناممکن بنتا جارہا تھا۔ کھڑکی سے بھی ہوا نہیں آرہی تھی اور دم گھٹ رہا تھا۔ اتنے میں کسی نے تولیے اٹھائے اور اُن کو باتھ روم سے گیلا کرکے لے آیا۔ ہم نے بھی اُس کی پیروی کی۔ ہم اُس کو اپنی آنکھوں پر مل رہے تھے اور اُس کو چوس کر اپنے حواس بحال رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وقتی طور پر یہ کوششیں کارآمد ثابت ہورہی تھیں۔ واش روم سے واپسی پر باہر نکلتے ہوئے میرا پاؤں پھسلا اور میں بہت بُری طرح سے نیچے گرا۔ میرے ہاتھ میں موجود ایک موبائل گر کر بند ہوگیا۔ میں کسی طرح سے دوبارہ اُٹھا اور جان بچانے کی ترکیب سوچنا شروع کردی۔ ایک بات واضح تھی کہ اس کمرے میں موت صاف تھی اور اب کمرہ تبدیل کرنا ناگزیر ہوگیا تھا۔

میں اور میرا دوست باہر بھاگے اور ایک اور کمرے میں گھس گئے۔ وہاں بھی پہلے سے لوگ موجود تھے۔ ہم نے سب سے پہلے اُس کمرے میں گیلے تولیے سے خود کو تھوڑا گیلا کیا۔ دروازے میں بیڈشیٹ پھنسائی اور کھڑکیوں کو توڑ کر ہوا کی ترسیل کیلئے جگہ بنائی۔ ابھی خود کو بچانے کے لیے ہماری کوششیں جاری ہی تھیں کہ باہر آرمی، رینجرز اور فائر بریگیڈ کا عملہ نظر آیا جو لوگوں کی مدد کے لئے اب مکمل طور پر تیار تھا۔ آرمی کو دیکھتے ہی ایک سکون سا ہوا کہ شاید اب زندگی بچ جائے۔ نیچے سے کسی نے آواز لگائی کہ آگ پر قابو پالیا گیا ہے اور اب حالات قابو میں ہیں۔ اگرچہ آگ پر قابو پالیا تھا مگر آگ کی وجہ سے کمرے کے حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوتے جارہے تھے۔ سب سے زیادہ معاملہ دھویں کی وجہ خراب تھا جو کہ ایگزاسٹ اور ائیرکنڈیشن کی جگہ سے آرہا تھا۔ یہ سنٹرل سسٹم تھا جسے بند کرنا ممکن نہیں تھا اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اُس وقت ہوٹل کا عملہ کیا کررہا تھا۔

اب فوجی جوانوں نے سیڑھیاں لگا کر لوگوں کو بحفاظت باہر نکالنا شروع کردیا تھا۔ ایمبولینسیں لاشیں اور زخمیوں کو اُٹھا رہی تھی۔ بہت سے ایسے زخمی تھے جنہوں نے جان بچانے کیلئے پریشانی میں چھلانگ لگائی اور اُن کی ٹانگیں اور بازو ٹوٹ چکے تھے۔ فوجیوں نے سیڑھی کے ساتھ سیڑھی باندھ کر اُس کو مطلوبہ اونچائی تک پہنچایا تھا۔ مزید امداد ابھی آرہی تھی۔ نیچے سے ایک جوان نے ہمیں کہا کہ صاحب آپ کو ساتھ والے کمرے میں آنا ہوگا، ہم آپ کو یہاں سے نہیں بچاسکیں گے۔ ہم نے کہا کہ بھائی ہمیں معلوم نہیں ہے کہ راستہ کہاں ہے، تو انہوں نے کہا کہ ابھی دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا اور آپ نے فوراً ہی باہر کی جانب دوڑ لگانی ہے۔

جیسے ہی اُس نے بات ختم کی تو ساتھ ہی دروازہ روز سے بجا، ہم نے دروازہ کھولا تو باہر چند فوجی تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک کمرے میں پہنچایا جہاں تک ان کی سیڑھی کی رسائی تھی۔ اب ہم باری باری نیچے اتر رہے تھے۔ پانچویں فلور سے نیچے کی جانب دیکھیں تو دل دہل جاتا ہے۔ ہمیں جوان نے کہا کہ صاحب آپ نے نیچے نہیں دیکھنا ہے۔ اِس رسی کو درمیان میں کرلیں، ایک ہاتھ سے رسی پکڑیں اور دوسرے ہاتھ سے سیڑھی کو پکڑیں اور اپنا وزن سامنے کی جانب رکھیں اور آہستہ آہستہ نیچے کی جانب جائیں، کچھ نہیں ہوگا۔ معلوم نہیں کہ اُس کے لہجے میں ایسا کیا تھا کہ میں نے یقین کرلیا کہ مجھے کچھ نہیں ہوگا، اور الحمداللہ میں کھڑکی کے راستے باآسانی نیچے پہنچ گیا۔

نیچے پہنچ کر دیکھا تو وہاں سے میڈیا لائیو رپورٹنگ کر رہا تھا، میں بھیڑ سے ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ مجھے ایک آدمی نے کہا کہ جناب آپ کا سامان کہاں ہے؟ میں نے کہا سامان کی کس کو ہوش تھی، ابھی سب واپس مل جائے گا۔ اُس نے کہا کہ کچھ بھی واپس نہیں ملے گا۔ کوئی نہ کوئی اس کو غائب کردے گا اور اگر واپس ملا تو وہ کپڑے ہوں گے، میں ریجنٹ ہوٹل کے اندر دوبارہ سے داخل ہوا کیونکہ میرا لیپ ٹاپ، پیسے اور سب کچھ زمین سے آٹھ منزلیں اوپر تھا اور جس جگہ سے میں جان بچا کر بھاگا تھا۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ میں میں اب واپس وہیں جارہا تھا جہاں سے جان بچا کر واپس آیا تھا۔ اندر جلنے کی بو شدید ترین تھی اور حبس اور گرمی سے بُرا حال تھا۔ برائے کرم مجھے پاگل مت سمجھئیے گا، ایسی صورتحال میں ایسا ہوسکتا ہے۔

اوپر جانے کیلئے اب میں نے فائر ایگزٹ کا راستہ چنا۔ یہ ایک عجیب فائر ایگزٹ تھی جو کہ بند تھی کیونکہ فائر ایگزٹ کی غرض سے بنائے جانے والے راستے ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کی صورت میں وہاں سے نکلا جاسکے۔ اندر شدید حبس اور گرمی تھی اور ساتھ میں جلنے کی شدید ترین بدبو تھی۔ ہر منزل پر لگتا تھا کہ کسی نے ان دروازوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ میں آٹھویں فلور پر پہنچا تو میرا بُرا حال ہوچکا تھا۔ وہاں پر سیکورٹی اداروں کے جوان تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا کہ صاحب کون ہو؟ کہاں جانا ہے؟ واپس نیچے جاؤ۔ میں نے کہا کہ میرا سارا سامان اوپر ہے اور میں نے اُس کو ہر حالت میں لینا ہے۔ اُس منزل پر شدید ترین دھواں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اچھا جائیں، اور سامان لے آئیں۔ میں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ آئیں، میرے پاس تو ٹارچ بھی نہیں ہے۔

وہ میرے ساتھ آئے۔ میں نے کمرہ کھولنے کی کوشش کی تو وہ بند تھا حالانکہ میں اُسی راستے سے تو باہر نکلا تھا۔ خیر، انہوں نے کوئیک مارچ کے بوٹس کا استعمال کیا اور دروازے کو چند ہی سیکنڈ میں توڑ دیا۔ اب میں نے اپنا لیپ ٹاپ، والٹ اٹھایا، بیگ میں کپڑے پھینکے اور باہر نکل کر نیچے آگیا۔

اب فجر کی اذانیں ہورہی تھیں، میں نے فوری طور پر گھر فون کرکے اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ میں وہاں سے اپنے دوست کے گھر گیا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب لگ رہا تھا کہ میں شاید زندہ نہیں بچوں گا، لیکن میں اللہ کے کرم سے زندہ تھا۔ میرے سامنے لوگ چھلانگیں لگا کر گر رہے تھے، زخمی ہو رہے تھے، مر رہے تھے لیکن اللہ نے مجھے زندہ رکھا۔

اس سانحہ سے ایک بات جو میں نے سیکھی وہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں حواس کا بحال رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ آپ کی زندگی کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا ہے۔ اس حادثے کی حتمی تحقیقات کیا کہتی ہیں، اس پر بات بعد میں کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ فائر ایگزٹس کو اپ ڈیٹ کب کریں گے؟ اُن کے دروازے کب ٹھیک کریں گے؟ آگ بجھانے کے مناسب انتظامات کب ہونگے؟ میڈیا کی رپورٹس سے میں متفق نہیں ہوں کہ 14 لوگ مرے ہیں، شاید تعداد زیادہ ہی ہو لیکن حتمی بات تو یہ ہونی چاہئیے کہ اُن کا خون کس کے سر ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔