- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس جاری
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
- اڈیالہ جیل میں عمران خان سمیت قیدیوں سے ملاقات پر دو ہفتے کی پابندی ختم
- توانائی کے بحران سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کرنا ترجیح میں شامل ہے، امریکا
- ہائیکورٹ کے ججزکا خط، چیف جسٹس سے وزیراعظم کی ملاقات
- وزیر اعلیٰ پنجاب کا مسیحی ملازمین کیلیے گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بونس کا اعلان
- سونے کی عالمی ومقامی قیمتوں میں اضافہ
سوئس حکام کو خط‘ درمیانی راستے کی تلاش
سپریم کورٹ نے این آر او عمل درآمد کیس میں وزیر اعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے 8 اگست تک نئی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ آیندہ تاریخ تک قابل قبول حل نکال لیا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر آصف علی زرداری ان کے بھی صدر ہیں لیکن قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق کوئی درمیانی راستہ نکالیں جس پر اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ معاملے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ این آر او عمل درآمد کیس میں سپریم کورٹ نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے وزیر اعظم کو 8 اگست تک نئی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔
تاہم عدلیہ کی جانب سے اس مسئلے کا کوئی درمیانی حل نکالنے کی خواہش کا اظہار غمازی کرتا ہے کہ ارباب انصاف بھی ریاست کے دو اہم ستونوں کے مابین تنائو کی کیفیت میں شدت پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو مناسب انداز میں حل کر لیا جائے اور ظاہر ہے کہ ایسا کرتے ہوئے عدالت کے ذہن میں یہ ہرگز نہیں ہو گا کہ آئین سے کسی بھی طور انحراف کیا جائے چنانچہ اٹارنی جنرل نے درمیانی راستہ نکالنے کے سلسلے میں عدالت کے روبرو جو ذمے داری اٹھائی ہے وہ بلاشبہ ایک بھاری ذمے داری ہے جس سے انھیں عہدہ برآ ہونے کی سنجیدہ کوشش کرنا چاہیے۔
عدالت کی جانب سے نئی ڈیڈ لائن دینے کا مقصد بھی یہی ہو سکتا ہے کہ اسے کوئی ایسا فیصلہ نہ کرنا پڑے جس سے پورا سسٹم دائو پر لگ جائے چنانچہ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت بھی اس سلسلے میں کچھ لچک کا مظاہرہ کرے تاکہ حالات کو مزید خراب ہونے اور تنائو کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ یہ باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں کہ عدلیہ کی جانب سے جمہوریت کو ڈی ریل اور نظام کو ختم نہ ہونے دینے کی یقین دہانیاں کرائی جاتی رہی ہیں۔
اسی طرح حکومت کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ عدلیہ اور اس کے فیصلوں کا مکمل احترام کرتی ہے‘ پھر دونوں ہی ریاستی ستون یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ آئین میں ہر ریاستی مسئلے کا حل موجود ہے اور یہ کہ ہر ادارے کو آئین میں دیئے گئے پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر مسئلہ کہاں پر ہے جو این آر او کیس پر مکمل عمل درآمد کا معاملہ دونوں اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کے گلے کی بھی پھانس بن چکا ہے جسے نکالنا ایک مشکل امر ثابت ہو رہا ہے۔
کہیں نہ کہیں ایسا معاملہ ضرور ہے جو مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ اٹارنی جنرل کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اس معاملے کا پتہ چلائیں جو مشکلات بڑھانے کا باعث ہے اس سے انھیں اپنی وہ ذمے داری پوری کرنے کا کوئی رستہ ضرور مل جائے گا جس کی انھوں نے اعلیٰ عدلیہ کو یقین دھانی کرائی ہے یعنی یہ کہ سوئس حکام کو خط لکھنے سے متعلق کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے گا۔
یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ یہ کام آٹھ اگست سے پہلے مکمل کر لیا جائے گا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ ملک میں آئین اور قانون کا مکمل نفاذ چاہتی ہے کیونکہ ایک مبنی بر عدل معاشرہ قائم کرنے اور عوام کو شفاف انصاف فراہم کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے‘ ہمارے خیال میں حکومت کو اس سلسلے میں عدلیہ کا مددگار ہونا چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔