تارکین وطن، پاکستان چھٹا بڑا ماخذ، 15واں بڑا میزبان، ترسیلات کی ساتویں بڑی مالیت حاصل کرنے والا ملک

محمد عاطف شیخ  اتوار 18 دسمبر 2016
شہروں کی بڑھوتری 21 ویں صدی کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ فوٹو: فائل

شہروں کی بڑھوتری 21 ویں صدی کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ فوٹو: فائل

نقل مکانی (Migration ) چاہے داخلی (Internal ) ہو کہ خارجی (International ) دنیا کا کوئی بھی ملک اس عمل سے مبرا نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ترک علاقہ (Internal Migration ) یا ترکِ وطن (International Migration) کرنے والے آپ کو ضرور ملیں گے۔

یہ تارکین وطن(International Migrants ) اور داخلی نقل مکان (Internal Migrants )  ممالک کے اقتصادی اور سماجی ترقی کے پہیہ کو رواں رکھنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس استحصالی طرز عمل کا شکار رہتے ہیں۔ تعصب کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ حقارت کا سامنا کرتے ہیں۔ دوسرے درجے کے شہری خیال کئے جاتے ہیں۔

طنز اور تذلیل پر مبنی جملوں اور تحریروں کے نشتر سہتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود جس ملک یا علاقے میں رہتے ہیں اُس کو اپنا ہی خیال کرتے ہیں اور اُس کی تعمیر اور ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان ہی داخلی اور خارجی نقل مکانوں کو خراج تحسین پیش کرنے، ان کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے اور معاشروں( میزبان اور آبائی) میں ان کے بڑھتے ہوئے کردار اور اہمیت کو نمایاں کرنے کی خاطر اقوامِ متحدہ ہر سال 18 دسمبر کو نقل مکانوں (Migrants)  کا عالمی دن مناتا ہے۔

نقل مکانی (Migration) عام طور پردو طرح کی ہوتی ہے۔ داخلی اور خارجی۔ داخلی نقل مکانی (Internal Migration ) ملکی سرحد کے اندر اپنے آبائی علاقہ سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کا نام ہے۔ جبکہ خارجی نقل مکانی یا ترک وطن (International Migration) بین الاقوامی سرحد کے پار منتقلی کا عمل ہے۔ اس کے علاوہ تارکین وطن/ نقل مکان(Migrants)، مہاجرین (Refugees) اور پناہ گزین (Asylum-seeker) کے لئے عموماً ایک ہی اصطلاح  ’’مہاجر‘‘ استعمال کی جاتی ہے اور ان اصطلاحات کو آپس میں گڈ مڈ کردیا جاتا ہے۔

جبکہ یہ ایک دوسرے سے کچھ مختلف ہیں۔ مثلاً اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ’’ ترک وطن یا نقل مکان‘‘  ایسے افراد ہوتے ہیں جو ظلم و ستم یا موت کے براہ راست خوف سے کسی دوسری جگہ ہجرت نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کام کی تلاش اور کچھ کیسز میں تعلیم ، فیملی ری یونین یا دیگر وجوہات کی بنا پر دیس یا علاقہ بدل کرتے ہیں۔ جبکہ  ’’ مہاجرین‘‘  مسلح تصادم یا ظلم وستم سے متاثر ہونے والے افراد ہیں۔ ان کے حالات اکثر بہت خطرناک اور ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں۔

اور انھیں بین الاقوامی سرحد عبور کر کے اپنے ہمسایہ یا قریبی ممالک میں تحفظ کی غرض سے جا نا پڑتا ہے۔ اس طرح وہ مختلف ممالک، یو این ایچ سی آر اور دیگر تنظیموں کی امداد تک رسائی کے ساتھ بین الاقوامی طور پر مہاجر ین تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ  ’’ پناہ گزین‘‘  ایسے فرد کو کہتے ہیں جو یہ کہے کہ وہ مہاجر (Refugee) ہے اور اپنے ملک میں پہنچنے والے شدید نقصان یا ظلم وستم سے بین الاقوامی تحفظ کا متلاشی ہے۔ ہر مہاجر ابتدائی طور پناہ گزین ہی ہوتا ہے لیکن ہر پناہ گزین بالآخر ایک مہاجر کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا تا۔ جب تک وہ اپنی پناہ کی درخواست کے قبول یہ مسترد ہونے کے فیصلے کا انتظار کرے اُسے پناہ کا متلاشی یا پناہ گزین کہتے ہیں۔

ترک ِ وطن/ نقل مکان اور مہاجر کی تعریف کو ایک اورفرق سے مزید واضح کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ نقل مکانی کرنے والے کو ملک یا علاقہ کب چھوڑنے اور کہاں جانے کے فیصلے کا پورا اختیار ہوتا ہے۔ جبکہ مہاجر اس طرح کے اختیار کا حامل نہیں ہوتا حالات اور واقعات اُسے فوری فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجر ین اپنے گھروں کو آسانی سے بحفاظت واپس نہیں آسکتے۔ اور اُنھیں دوسری جگہوں پر محفوظ پناہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس تارکین وطن/ نقل مکانی کر نے والوں کو واپسی کے حوالے سے ایسی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور وہ اپنی مرضی سے واپس آسکتے ہیں۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی گلوبل مائیگریشن ٹرینڈز 2015 ء فیکٹ شیٹ کے مطابق دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد نقل مکان (Migrants) کی حیثیت کے حامل ہیں  یعنی ہر سات میں سے ایک فرد ۔ ان اعداد و شمار میں 24 کروڑ 40  لاکھ تارکین وطن (International Migrants)  اور74 کروڑ سے زائد اندرونِ وطن نقل مکان (Internal Migrants)  شامل ہیں۔

اس وقت دنیا کی 3.3   فیصد آبادی تارکین وطن پر مشتمل ہے جو 2000 ء میں2.8   فیصد تھی۔ تارکین وطن کا 58   فیصد ترقی یافتہ اور42   فیصد ترقی پذیر خطوں میں آباد ہے۔ اقوام متحدہ پاپولیشن ڈویژن کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز کی ٹرینڈز ان انٹرنیشنل مائیگرنٹ اسٹاک دی2015 ء رویژن کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق 2015 ء کے وسط تک دنیا کے 51  فیصد تارکین وطن 10ممالک میں آباد ہیں ۔ سب سے زیادہ تارکین وطن کی تعداد امریکا میںموجود ہے جو 4 کروڑ66  لاکھ سے زائد ہے اور عالمی تعداد کا 19 فیصد ہے۔

دوسرے نمبر پر جر منی ہے جہاں ایک کروڑ 29  لاکھ دیس بدل افراد موجود ہیں۔ ایک کروڑ 19 لاکھ خارجی نقل مکانوں کے ساتھ روس کا تیسرا نمبر ہے۔ جبکہ دنیا کے4.66  فیصد تارکین وطن یعنی ایک کروڑ 13 لاکھ  77 ہزار جنوب ایشیاء کے آٹھ ممالک میں آباد ہیں ۔ تارکین وطن کے میزبان ممالک کی عالمی درجہ بندی میں بھارت12 ویں، پاکستان 15 ویں، بنگلہ دیش 36 ویں، نیپال 64  ویں،  افغانستان 78  ویں، مالدیپ132 ویں، بھوٹان 154 ویں اور سری لنکا 164 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں 36  لاکھ 28  ہزار افراد تارکین وطن کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ عالمی تارکین وطن کا 1.48  فیصد اور جنوب ایشیاء میں مقیم 31.89 فیصد پاکستان میں مسکن پذیر ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ تارکین وطن کا تعلق بھارت سے ہے۔ جس کے ایک کروڑ 55  لاکھ75 ہزار سے زائد افراد دنیا بھر میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔ دوسرے نمبر پر میکسیکو ہے جس کے ایک کروڑ 23  لاکھ 39 ہزار افراد تارکین وطن ہیں۔ روسی ایک کروڑ 5 لاکھ 76 ہزار تارکین وطن کی حیثیت کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ دنیا کے پہلے دس ممالک جن کی زیادہ آبادی تارکین وطن کی حیثیت سے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ جوعالمی تارکین وطن کی تعداد کے 33.75  فیصد پر مشتمل ہے۔ جنوب ایشیاء کے تین ممالک ان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔

بھارت پہلے، بنگلہ دیش پانچویں اور پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ پاکستان کے59  لاکھ 35 ہزار سے زائد افراد انٹرنیشنل مائیگر نٹس کی حیثیت سے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جو عالمی تارکین وطن کی تعداد کا 2.43   فیصد اور جنوب ایشیاء سے تعلق رکھنے والے خارجی نقل مکانوں کا 16.1 فیصد ہے۔ دنیا کے15.13 فیصد دیس بدل افرادکا تعلق جنوب ایشیاء کے خطے سے ہے۔ جبکہ جنوب ایشائی ممالک اس حوالے سے عالمی درجہ بندی میں موجود 233  ممالک میں سے پہلے نمبر سے 218  ویں نمبر کے درمیان میں موجود ہیں۔ بھارت پہلے، بنگلہ دیش پانچویں، پاکستان چھٹے، افغانستان 11 ویں ، سری لنکا 36  ویں ، نیپال37 ویں ، بھوٹان 176 ویں اور مالدیپ 218 ویں نمبر پر ہے۔

تارکین وطن اپنے میزبان ملک اور اپنے آبائی وطن کی کمیونیٹیوں کی اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کی اس تمام عمل میں شرکت کو غیر شناخت شدہ ہی جانا جاتا ہے۔ اور ترسیلات زر جو وہ اپنے آبائی وطن اپنے گھر بھیجتے ہیں صرف اُس کے ذریعے سے ہی اُن کی شرکت کو مانپا جاتا ہے۔ یہ ترسیلات تارکین وطن کے گھر والوں اور کمیونٹی کی غربت میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔

اس کے علاوہ نقل مکانی کرنے والوں کی بھی انفرادی زندگی میں بہتری کا باعث بنتی ہیں۔ ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق 2015 ء میں تارکین وطن نے اپنے آبائی ممالک کو 580.6 ارب ڈالر بھجوائے۔ ان میں سے75 فیصد یعنی438.6 ارب ڈالر ترقی پذیر ممالک میں بھجوائے گئے۔ جو مذکورہ سال ان ممالک کو ملنے والی بیرونی امداد سے تین گنا زائد تھے۔  2015 ء  میںسب سے زیادہ ترسیلات زر بھارت بھجوائی گئیں جس کی مالیت 68 ارب 90 کروڑ97  لاکھ ڈالر سے زائد تھی۔

دوسرے نمبر پر چین رہا جس کو موصول ہونے والی ترسیلات کی مالیت 63 ارب 93  کروڑ 76 لاکھ ڈالر سے زائد تھی۔ فلپائن کو 28 ارب 48 کروڑ 27 لاکھ ڈالر سے زائد ترسیلات ملیں یوں وہ تیسرے نمبر پر رہا جبکہ پہلے10ممالک کو مجموعی ترسیلات کا 51.6 فیصد موصول ہوا ۔ مذکورہ سال جنوب ایشیاء میں آنے والی ترسیلات کی مالیت ایک کھرب 17ارب 65  کروڑ 77  لاکھ ڈالر سے زائد تھی جو عالمی ترسیلات زر کا 20  فیصد تھیں ۔

جنوب ایشیاء کے ممالک کی ترسیلات کے وصول ہونے کی عالمی درجہ بندی میں رینکنگ کچھ یوں رہی۔ بھارت پہلے، پاکستان 7 ویں، بنگلہ دیش9 ویں، سر ی لنکا 19ویں، نیپال 22 ویں، افغانستان 114 ویں، بھوٹان 168 ویں اور مالدیپ 180 ویں نمبر پر تھا۔ پاکستان کو 2015 ء میں تارکین وطن سے موصول ہونے والی ترسیلات زر کی مالیت 19ارب 30 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھی جو عالمی ترسیلات کا 3.32 اور جنوب ایشیائی ترسیلات کا  16.4 فیصد تھیں۔

جن ممالک سے ترسیلات زر بھجوائی گئیں ان میں سر فہرست امریکا تھا جہاں سے تارکین وطن نے اپنے اپنے دیسوں کو 2015 ء کے دوران 61  ارب 38  کروڑ 30 لاکھ ڈالر بھجوائے۔ دوسرے نمبر پر سعودی عرب رہا جہاں سے بھجوائے جانے والی ترسیلات کی مالیت 38 ارب 78  کروڑ 70  لاکھ ڈالر تھی۔ تیسرا نمبر سوئٹزرلینڈ کا تھا جس میں مقیم تارکین وطن نے اپنے آبائی ممالک کو 24  ارب 40  کروڑ 20  لاکھ ڈالر بھجوائے۔ پہلے دس ممالک سے بھجوائے جانے والی رقوم عالمی ترسیلات کا 40 فیصد اور جنوب ایشیا ء کی اعشاریہ 26  (0.26) فیصد حصہ پر مشتمل تھیں۔

جنوب ایشیاء کے سات ممالک ( ماسوائے بھارت)  میں موجود تارکین وطن نے اپنے ممالک کو ایک ارب 52 کروڑ 28  لاکھ ڈالر بھجوائے۔ خطے میں سب سے زیادہ تر سیلات سری لنکا سے بھجوائی گئیں اور عالمی رینکنگ میں سری لنکا اس حوالے سے37  ویں نمبر پر تھا۔ جبکہ مالدیپ 55 ویں، افغانستان 80 ویں، بھوٹان102، پاکستان107، بنگلہ دیش108 اور نیپال 114 ویں نمبر پر تھا۔ مذکورہ سال پاکستان میں موجود تارکین وطن افراد نے اپنے آبائی ممالک کو 3 کروڑ ڈالر بھجوائے۔ جو جنوب ایشیاء سے بھجوائے جانے والی ترسیلات کا 1.96 فیصد تھا۔ (2014 ء میں بھارت سے6 ارب 22 کروڑ20 لاکھ ڈالر مالیت کی ترسیلات زر دیگر ممالک میں بھجوائی گئیں ۔ اس حوالے سے بھارت مذکورہ سال دنیا بھر میں 18  ویں نمبر پر تھا )۔

2015 ء میں دنیا بھر میں بھجوائے جانے والی ترسیلات زر عالمی جی ڈی پی کا اعشاریہ 8  (0.8)  فیصد تھیں۔ موصول ہونے والی ترسیلات زر کا جی ڈی پی میں سب سے زیادہ تناسب نیپال میں رہا جس کی 32.2 فیصد جی ڈی پی تارکین وطن کی جانب سے بھیجے جانے والی ترسیلات پر مشتمل تھی۔ دوسرے نمبر میں لیبیریا اور تیسرے نمبر پر تاجکستان رہا جن کی بالترتیب 31.2  فیصد اور 28.8  فیصد جی ڈی پی ترسیلات پر مشتمل تھی۔ جنوب ایشیاء کے دیگر ممالک سری لنکا 8.5 فیصدکے ساتھ 36  ویں، بنگلہ دیش 7.9  فیصد کے ساتھ 37  ویں ، 7.2 فیصد کے ساتھ پاکستان 40 ویں، بھارت 3.3  فیصد کے ساتھ 68 ویں، افغانستان 1.6 فیصد کے ساتھ 98  ویں، بھوٹان ایک فیصد کے ساتھ 116 ویں اور مالدیپ اعشاریہ ایک (0.1)  فیصد جی ڈی پی تناسب کے ساتھ 158 ویں نمبر پر تھا۔

ہم اب ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو تیزی سے شہری علاقوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس وقت دنیا کی 54  فیصد آبادی شہروں میں سکونت پذیر ہے۔ اور لوگ تیزی سے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ یو این ہبیٹاٹ کے مطابق ہر ہفتہ 30 لاکھ افراد شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی نقل مکانی شہری آبادی میں اضافہ اور شہروں کی وسعت کا بنیادی محرک ہیں ۔

انٹرنیشنل مائیگریشن آرگنائزیشن کی ورلڈ مائیگریشن رپورٹ 2015 ء کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر پانچ میں سے ایک غیر ملکی پیدائشی / غیر ملکی نژاد (foreign-born population) دنیا کے بڑے شہروں ( گلوبل سیٹیز) میں رہتا ہے ۔ کینیڈا میں 46 فیصد غیر ملکی نژاد ٹورنٹو میں رہتے ہیں۔ امریکا میں 40  فیصد نیو یارک، لاس اینجلس، میامی، شکاگو اور سان فرانسیسکو میں رہتے ہیں۔ آسٹریلیا میں28  فیصد غیر ملکی نژاد افراد سڈنی اور ملبورن میں آباد ہیں۔ برطانیہ میں 38  فیصد غیر ملکی نژاد افراد لندن میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں کئی ایک ایسے شہر بھی ہیں جن کی کثیر آبادی غیر ملکی نژاد افراد  پر مشتمل ہے۔ دبئی دنیا کا وہ شہر ہے جس کی 83  فیصد آبادی غیر ملکی نژاد افراد پر مبنی ہے۔ 62 فیصد آبادی کے ساتھ برسلز دوسرے اور تیسرے نمبر پر ٹورنٹو ہے جس کی  46 فیصد آبادی فارن بارن پاپولیشن پرمشتمل ہے۔

شہر بہت سے وسائل، خدمات اور مواقعوں کی پیشکش کرتے ہیں، جو لوگوں کی بہبود کے لئے ضروری ہیں ۔ اس لئے اکثر نقل مکانی کرنے والوں کے لئے شہروں کا رخ کر نا ایک ٹھوس فیصلہ ہے۔ نقل مکانی میں کھچاؤ اور دھکیل کے دو بنیادی اصول کار فرما ہیں۔ دھکیل کے وہ عوامل جو لوگوں کو اپنا ملک یا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں ان میں اقتصادی، سماجی اور سیاسی مسائل نمایاں ہیں۔ اور کھچاؤ کے عوامل انھیں اپنی جانب مائل کرتے اور کھینچتے ہیں۔ یہ دونوں عوامل شہروں کی جانب نقل مکانی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بنیادی محرک ہیں۔

اس کے علاوہ عمر رسیدہ آبادی کے حامل معاشروں کی اس حقیقت کے باعث شہری مراکز میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ایک ناگزیر عمل ہے۔ اسی طرح ملک کے علاقوں اور اقوام کے درمیان غیر متوازن معاشی ترقی، ماحولیاتی اور موسمی عدم استحکام جیسے حقائق بھی نقل مکانی کا محرک بنتے ہیں۔ بہت سے شہروں کے لئے نقل مکانی شرح پیدائش، شرح اموات اور عمر کے ڈھانچے کے مقابلے میں زیادہ اہم عنصر بن گئی ہے۔ اقوام متحدہ پاپولیشن ڈویژن کے ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز کے ورلڈ اربنائزیشن پراسپیکٹس دی2014 ء رویژن کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق 2010-15 ء کے دوران دنیا کی شہری آبادی میں اضافہ کی رفتار 2.05 فیصد جبکہ دیہی آبادی میں اضافہ کی شرح اعشاریہ 13

(0.13)  فیصد سالانہ رہی۔ جنوب ایشیاء ( ایران بھی شامل ہے) شہری اور دیہی آبادی میں سالانہ اضافہ بالتریب 2.52 اور اعشاریہ 67  (0.67) فیصد سالانہ رہا۔ شہری آبادی میں اضافہ کی سالانہ رفتار کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں مالدیپ 4.49 فیصد کے ساتھ 17  ویں، افغانستان 3.96 فیصد کے باعث 26 ویں، بھوٹان 3.96 فیصد کے ساتھ 34 ویں، بنگلہ دیش 3.55 فیصد کی وجہ سے41  ویں، نیپال 3.18  فیصد کے ساتھ 51  ویں، پاکستان 2.81  فیصد کے ساتھ 62 ویں، انڈیا 2.38  فیصد کے باعث 80  ویں اور 0.84  فیصد کے ساتھ سری لنکا 157 ویں نمبر پر تھا۔ جبکہ افغانستان اپنی دیہی آبادی میں سالانہ اضافہ کی رفتار1.85 فیصد کے حوالے سے دنیا بھر میں 35 ویں نمبر پر تھا۔ پاکستان 0.97  فیصد کے ساتھ 76  ویں، 0.80 کے ساتھ سری لنکا 85 ویں، 0.72 فیصد کے ساتھ نیپال 90  ویں، انڈیا 0.70  فیصد کے ساتھ 94  ویں، بھوٹان0.38 فیصد کے باعث 119 ویں جبکہ 0.06  فیصد کے ساتھ بنگلہ دیش 133 ویں اور 0.05  فیصد کی وجہ سے مالدیپ 154 ویں نمبر پر تھا۔

شہری اور دیہی آبادی کے اضافہ کی رفتار میں یہ واضح فرق جہاں شہروں میں موجود صحت کی بہتر سہولیات کے باعث شرح اموات میں کمی کے باعث ہے تو وہیں اس فرق کا نمایاں ترین پہلو نقل مکانی ہے جو اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر جاری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے شہری آبادی میں اضافہ کی بڑی وجہ تارکین وطن ہیں تو ترقی پذیر ممالک میں تارکین وطن کے ساتھ ساتھ زیادہ تر اندرونی نقل مکانی شہری علاقوں کی آبادی میں غیر حقیقی اضافہ کی بنیادی وجہ ہے۔ اس کی ایک مثال چین کی ہے جہاںگزشتہ عشرے کے دوران  11 کروڑ 70  لاکھ چینی باشندے دیہات سے شہروں میں منتقل ہوئے۔

شہر اگر چہ واضح طور پر فوائد لاتے ہیں۔ ان کے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی کا حصول ممکن نہیں۔ نقل مکانی سے پیدا ہونے والے شہری تنوع کو شہرسماجی اور معاشی فوائد میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگر باقاعدہ حکمت عملی کے تحت نقل مکانی کو منظم کر کے معیشت سے منسلک کیا جائے تو یہ پیداواری عمل کو بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔ لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ شہری علاقوں کو ہر جگہ شہری، علاقائی، قومی اور عالمی سطح کے درمیان لو گوں کے مسلسل اتار چڑھاؤ اور بہاؤ کا سامنا ہے۔ اس طرح شہروں کو نقل مکانی کے انتظام کے حوالے سے بڑھتے ہوئے چیلنجز درپیش ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کو اکثر قانونی، ثقافتی اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خاص کر رہائش، روزگار، تعلیم ،صحت اور دیگر سماجی خدمات کے حصول میں وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ مشکلات انھیں علیحدہ ، الگ تھلگ اور پُر خطر حالات میں رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اور وہ ایسے شہری علاقوں( جنہیں ہم کچی آبادیاں کہتے ہیں) میں رہتے ہیں جو تسلی بخش ترقیاتی منصوبہ بندی سے عاری ہوتے ہیں۔ اور بہت ہی محدود وسائل اور مواقعوں تک رسائی مہیا کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں رہنے والے نقل مکانوں کی صحت کے مسائل بہت فکر انگیز پہلو ہیں ۔ کیونکہ جن حالات میں بہت سے نقل مکانی کرنے والے سفر کرتے، کام کرتے اور رہتے ہیں۔ وہ اُنھیں بہت سے متعدی اور غیر متعدی امراض کے لاحق ہونے کے خدشات سے دوچار کردیتے ہیں ۔

اسی طرح حادثات، تشدد اور زیادتی ان کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کو متاثر کر تے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں اور دیگر کمیونیٹیوں کے درمیان بعض اوقات صحت کی سہولیات تک رسائی میں تفریق انفرادیوں اور شہری کمیونٹی کی عمومی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ گزشتہ دو دیہائیوں سے یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ شمالی امریکا اور یورپ میں نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد بڑے شہروں کی بجائے چھوٹے اور درمیانے سائز کے شہروں کا رخ کر رہی ہے۔ اور ایسا روزگار کے مواقعوں، قابلِ برداشت ہاؤسنگ ، ذاتی تحفظ، خاندانی تعلقات، تعلیمی اداروں، پبلک ٹرانسپورٹ، صحت کی سہولیا ت اور تازہ ہوا کی وجہ سے ہے۔

نقل مکانی اوراس کا کنٹرول شہری منصوبہ بندی اور پائیدار ترقی کے صف اول کے مسائل ہیں ۔ لیکن پھر بھی شہری زندگی کے حوالے سے عالمی بحث میں اکثر نقل مکانی بڑی حد تک زیر بحث آنے سے رہ جاتی ہے اورعالمی شہری ایجنڈے میں تارکین وطن کا ذکر  واضح طور پر موجود نہیں ہوتا۔ بہت سی حکومتیں خصوصاً  شہری اور مقامی ابھی بھی نقل مکانوں یا تارکین وطن کو اپنی شہری ترقی کی منصوبہ بندی اور اس کے اطلاق میں شامل نہیں کرتیں ۔ دنیا کے 185 ممالک جن کا سروے کیا گیا اُن کے 80  فیصد کی حکومتوں ( خاص کر کم اور درمیانی آمدن کے حامل ممالک) کی دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کو کم کرنے کی پالسیز ہیں۔ ل

یکن اس کے باوجود نتیجہ شہروں کی بے ہنگم وسعت۔ شہروں کی بڑھوتری 21 ویں صدی کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ زیادہ تر شہروں کی وسعت بین الاقوامی اور مقامی سطح کی نقل مکانی سے ہی ہوگی۔ اس حوالے سے قومی اور مقامی حکومتوں کو اپنی صلاحیتوں اور استعدادکار میں اضافہ کرنا ہو گا تاکہ بنیادی شہری ڈھانچے، ماحول اور سماجی تانے بانے پر نقل مکانی کے باعث پڑنے والے انسانی دباؤکا بہتر طور پر نظم و نسق کیا جاسکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔