خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ

اوریا مقبول جان  جمعـء 16 دسمبر 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

دنیا جس قدر تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرتی جا رہی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ اس کا رویہ انسانوں کے ساتھ بیگانہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بیگانگی اس لیے بھی ہے کہ دن بدن مشینوں کی حکمرانی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ حیرت ہے اقبال نے آج سے سو برس پہلے اس کیفیت کو کس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

مشینوں کی حکومت میں ایک حکومت ایئرپورٹ پر سیکیورٹی چیکنگ کی مشینیں بھی ہیں۔ آج سے بیس سال قبل جب میں امریکا آیا تھا تو اس کے ایئرپورٹ اس طرح عام آدمی کے لیے کھلے تھے کہ لوگ اپنے مسافروں کو جہاز کے دروازوں تک چھوڑنے آتے تھے۔ لیکن ’’گیارہ ستمبر‘‘ کے بعد کا خوف جہاں دنیا بھر کے ہوائی اڈوں میں نظر آتا ہے وہاں امریکا اس خوف کی بدترین مثال ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ بیس سال قبل جب میں یہاں آیا تو وہ سفر ایک بالکل مختلف انداز کا تھا۔ 1996ء میں جب میں ڈپٹی کمشنر سبی اور میری عمومی شہرت ایک شاعر اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامہ نگار کی تھی تو ایک دن مجھے پاکستان میں متعین امریکی سفیر کا خط موصول ہوا جس کا آغاز کچھ یوں تھا کہ میں آپ کو امریکی عوام اور حکومت کی جانب سے امریکا دیکھنے کی دعوت دیتا ہوں۔ اس کے بعد اس سارے سفر کی تفصیل درج تھی۔ میرے لیے یہ حیرت کا باعث تھا۔ عموماً بیورو کریسی میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ایسی دعوت آدمی سفارت خانے والوں سے میل جول بڑھا کر حاصل کرتا ہے۔ لیکن میری تو بلوچستان جیسے دور دراز خطے سے اسلام آباد تک رسائی ہی مشکل تھی۔

بہرحال میری امریکا جانے کے لیے چھٹی کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ میں نے حکومت سے پوچھے بغیر ان سے رابطہ کر کے یہ دورہ حاصل کیا ہے۔ میں نے اسی سفیر سائمن جونیر کو معذرت خواہانہ خط لکھ دیا۔ لیکن خط ملتے ہی اس کا سیخ پا قسم کا فون آیا کہ یہ کیسے کیا گیا۔ انداز ایسا تھا کہ یہ جرأت پاکستان میں کس نے کی ہے۔ سکندر جمالی بلوچستان کے چیف سیکریٹری تھے۔ معلوم نہیں انھیں کیا کہا گیا، مجھے اتنا معلوم ہے کہ امریکی سفارت خانے نے میرا جو پروفائل حکومت کو بھیجا جس کی بنیاد پر مجھے امریکی دورے کی دعوت دی گئی تھی، اس میں کتنی ایسی چیزیں تھیں جو مجھے بھی یاد نہ تھیں کہ یہ مجھ سے سرزد ہو چکی ہیں۔ یہ کمپیوٹر کا زمانہ تھا لیکن مجھے حیرت تھی میرے جیسے نسبتاً کم جانے جانے والے شخص کو امریکی کتنا جانتے ہیں۔

چشم زدن میں سکندر جمالی صاحب نے رخصت منظور کی اور میں 15 جون 1996ء کو امریکی زمین پر تھا۔ میری حیرت اس وقت اور بڑھ گئی جب ایئرپورٹ پر میرا استقبال کرنے اور اس سارے دورے کے دوران میرے گائیڈ کا کردار جس شخص نے ادا کیا وہ جیمز بوڈنز تھا جو سوویت یونین میں 1992ء تک امریکا کا سفیر رہ چکا تھا۔ دو ماہ پر محیط یہ امریکا یاترا بہت وسعت رکھتی تھی جس میں امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ دفتر میں طویل ملاقاتوں اور بریفنگز کا اہتمام تھا۔ میں اس زمانے میں ایک ایسے دور سے گزر رہا تھا جب افغانستان میں امریکی عزائم کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد وہاں پر موجود مجاہدین کی خانہ جنگی سے بھی آگاہ تھا اور بلوچستان میں ہونے کی وجہ سے ملا محمد عمر اور طالبان کے عروج کو بھی قریب سے دیکھ چکا تھا۔

میں اس سارے پس منظر کو جانتا تھا کہ ملا محمد عمر نے قندھار میں مجاہدین کے گروہوں کے خلاف جہاد کا اعلان اپنے صرف پچاس کے قریب ساتھیوں کے ساتھ اچانک کیا تھا کہ یہ سب اس خانہ جنگی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ رسول اکرمؐ کے قندھار کی مسجد میں موجود جبہ مبارک پر بیعت لی گئی تھی اور اس جہاد کو اس قدر پذیرائی ملی تھی کہ چند مہینوں میں پچانوے فیصد افغانستان بغیر لڑے طالبان کے زیر نگیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ باقی پانچ فیصد پر شمالی اتحاد کو مدد فراہم کرنے اور طالبان سے لڑانے کے لیے امریکا، بھارت اور ایران کود پڑے تھے۔

کل تک ان تینوں میں کوئی قدر مشترک نظر نہیں آئی تھی۔ ایک دوسرے کے مخالف لیکن طالبان کے خلاف متحد۔ لیکن آج ان تینوں کا خفیہ معاہدہ کیسے طشت ازبام ہو چکا۔ مجھے اس سارے معاملے کا بہت قریبی مشاہدہ جس پر میرے سوالات اکثر تلخ ہو جاتے، جس پر امریکی حکام اور میرے میزبان سابق سفیر جیمز بوڈنر کو بھی حیرت ہوتی۔ عمر نے فرصت دی تو اس دو ماہ پر محیط دورے پر لکھوں گا اور جو مقاصد میں سمجھ پایا ہوں وہ بھی عرض کردوں گا۔ لیکن میرے لیے وطن واپسی کے بعد وہی تسلی اور عافیت تھی کہ امریکا کے نظام حکومت اور طرز زندگی کے بارے میں جو ذہن میں تھوڑی بہت خوش فہمی تھی وہ دور ہو چکی تھی اور میرے خیال میں ان کو بھی میرے بارے میں جو خوش فہمی تھی وہ ختم ہوچکی ہو گی۔

لیکن آج بیس سال بعد جب میں امریکا میں محبت کرنے والے پاکستانیوں کے درمیان ہوں تو ایئرپورٹ پر سیکیورٹی مشینوں کے عذاب سے بھی گزر رہا ہوں۔ حیرت یہ ہے کہ ان مشینوں سے لوگ گزرتے رہتے ہیں لیکن اچانک مجھے علیحدہ کر دیا جاتا ہے کہ مشین نے آپ کے سامان اور آپ کو “Random” یعنی اچانک منتخب کر لیا ہے اور آپ کی مفصل تلاشی ہو گی۔ حالانکہ میں اسکریننگ مشین سے گزر چکا ہوتا ہوں۔ نیویارک میں اسے ایک ’’رینڈم‘‘ عمل سمجھا، لیکن تلاشی پر میرا لیپ ٹاپ مشین نے اچانک منتخب کر لیا۔ حالانکہ میں یہ نیا انگلینڈ سے خرید کر گیا تھا تا کہ میرے لیپ ٹاپ کی ہسٹری پر سوال نہ ہونے لگیں کہ تم کیوں ان سائٹس پر جاتے ہو۔

مینی سوٹا کے مینی اوپلس ایئرپورٹ پر مجھے اسکریننگ سے گزارنے کے لیے پھر مشین نے منتخب کر لیا۔ یہ سب حسن اتفاق ہے یا کہ امریکا کی حکومت کے پاس میرا اسی طرح مکمل پروفائل موجود ہے جیسا آج سے بیس سال قبل 1996ء میں ایک شاعر، ڈرامہ نگار اور بیورو کریٹ کی حیثیت سے موجود تھا۔ آج تو میری پہچان اس نظام کے ایک ناقد کی حیثیت سے ہے۔ اس حکومت کے ناقد کی حیثیت سے ہے۔

جو یہاں بیس سال بعد دوبارہ آ کر مزید مستحکم ہو چکی ہے۔ اس نظام اور اس حکومت سے نفرت اور اس ملک میں زندہ رہنے کا خوفزدہ تصور میرا نہیں بلکہ امریکا میں رہنے والے ایک کروڑ مسلمانوں کا خوف بن چکا ہے۔ یہی وہ خوف ہے جو استاد نعمان جیسے شخص کو قرآن پاک میں سورہ الصفت میں اس آیت کی ایک مختلف تفسیر پر مجبور کر دیتا ہے کہ جس میں اللہ کہتا ہے کہ ہم اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دیں گے۔ لیکن یہاں آنے کے بعد میرا اس آیت پر ایمان اور محکم ہو گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔