جب بزم سجی اُردو کی...

اقبال خورشید  جمعـء 16 دسمبر 2016
تذکرہ آرٹس کونسل کی چار روزہ ’’نویں عالمی اردو‘‘ کانفرنس کا! ۔  فوٹو : ایکسپریس

تذکرہ آرٹس کونسل کی چار روزہ ’’نویں عالمی اردو‘‘ کانفرنس کا! ۔ فوٹو : ایکسپریس

دسمبر کے اوائل میں، جب فوج کی کمان تبدیل ہوچکی تھی، اور پاناما کیس میں ایک اہم موڑ آگیا تھا، شہر قائد میں ایک عالمی بیٹھک ہوئی۔ علم و ادب کے ستارے، شعرا، داستان گو، ماہر تعلیم؛ سب اُس وسیع و عریض عمارت میں اکٹھے ہوگئے، جو کراچی میں فنون لطیفہ کا سب سے بڑا مرکز تصور کی جاتی ہے۔ جی، ہم بات کر رہے ہیں، آرٹس کونسل آف پاکستان کی، اور یہ جو ’’عالمی بیٹھک‘‘ کہا، تو اشارہ ہے عالمی اردو کانفرنس کی جانب۔

آپ کو خبر تو ہوگی، اب یہ کانفرنس نو برس کی ہوچکی ہے۔ کئی موسم دیکھے۔ کئی مراحل اس نے طے کیے۔ اب قد نکلنے لگا ہے۔ شہرت بھی پھیل گئی ہے۔ ایونٹ کے بعد پوری اردو دنیا میں چرچا ہوتا ہے۔ تجزیے کیے جاتے ہیں۔ تبصرے ہوتے ہیں۔ کھٹی میٹھی باتیں ہوتی ہیں۔ سمجھ لیجیے، یہ بیٹھک اب آرٹس کونسل کی پہچان بن گئی ہے۔ اور مستقبل میں جو بھی اس ادارے کی ذمے داری سنبھالے گا، اس پر لازم ہوگا کہ اس سلسلے کو جاری رکھے۔

ماضی میں جب انتظار حسین اور عبداﷲ حسین اِس کانفرنس میں چلتے پھرتے نظر آتے تھے، تو تقریب کا وقار بڑھتا۔ دیکھنے والوں کی آنکھیں دمکنے لگتیں۔ مداح ان کی سمت لپکتے۔ ہاتھ ملاتے۔ آٹو گراف لیتے۔ ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتے۔ کیسا سانحہ ہوا، یہ دونوں جید ادیب ہم سے جدا ہوگئے۔ ان کا خلا پُر نہیں ہونے والا صاحب۔ پھر جو ناول کے تیسرے حسین ہیں، یعنی مستنصر حسین تارڑ، وہ بھی خرابی صحت کے باعث نہیں پہنچ سکے۔ ہندوستان سے آنے والے جناب شمیم حنفی، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی اور ڈاکٹر انیس اشفاق کی راہ میں نفرتوں کی وہ رکاوٹیں حائل، جنھیں اِس خطے کے حکم راں اپنا قد بڑھانے کو بڑھائے چلے جارہے ہیں۔ اِن معتبر ہستیوں کی عدم موجودی کا غم اپنی جگہ، مگر دسمبر کی خوش گوار صبح جب اِس تقریب کا افتتاحی سیشن ہوا، تو منتظمین نے جناب شمیم حنفی کو ٹیلی فون لائن پر لے لیا۔ کچھ اطمینان ہوا۔ کچھ راحت ملی۔ یہ کمال ہے ٹیکنالوجی کا، دنیا بدل رہی ہے۔

ہاں، جب عشاق اردو نے اس شخص جو دیکھا، جس سے مزاح کا یہ عہد منسوب، یعنی جناب مشتاق احمد یوسفی، اور جب ’’مئی دادا‘‘ اور ’’باسودے کی مریم‘‘ جیسے زندہ افسانوں کے خالق اسد محمد خاں دکھائی دیے، تو جوش و خروش کی لہریں اٹھنے لگیں۔ پھر رجحان ساز شاعرہ، کشور ناہید، معتبر قلم کار اور سوشل ایکٹوسٹ ، آئی اے رحمان، ممتاز شاعرہ، زہرہ نگاہ، ’’جرنیلی سڑک‘‘ والے رضا علی عابدی، یادگار ڈرامے لکھنے والی حسینہ معین پر نگاہ پڑی، پنڈی سازش کیس میں فیض صاحب کے ساتھ جیل کاٹنے والے ظفر اللہ پوشنی نظر آئے، تو صاحب محبت، عقیدت اور جوش و جذبے کا ایسا ریلا آیا کہ حاضرین بہتے چلے گئے۔

یہ لہریں چار روز تک اٹھتی رہیں، اردو کے چاہنے والے سرشار ہوتے رہے۔ باہر کتابوں کے بھی کئی اسٹال تھے۔ کتابیں، جو اپنی سمت بلاتی تھیں، بھاؤ تاؤ کریں، تو اچھی خاصی رعایت مل جاتی تھی۔ کہہ لیجیے، ایک کانفرنس آڈیٹوریم کے اندر جاری تھی، ایک باہر۔ حاضرین میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود، جو اس پر اکتفا کرنے کو تیار نہ تھی کہ سنیئر ادیبوں کو سن لیا، تالیاں بجالیں، ان کے ساتھ تصویر بنانا وہ لازمی خیال کرتے تھے، تاکہ ’’فیس بک‘‘ پر اپ لوڈ کرسکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے تو اس ایونٹ کو کور کیا ہی، مگر سوشل میڈیا پر بھی اس کی مسلسل کوریج ہوتی رہی۔ حاضرین وہیں بیٹھے بیٹھے تصاویر اور ویڈیوز بناتے، اور کھٹ سے اپ لوڈ کردیتے۔
آئیں، ذرا کانفرنس کے چار دنوں پر نگاہ ڈال لیں۔

٭ جب پہلا دن طلوع ہوا
’’ادب کو سرحدوں کا پابند نہیں کیا جاسکتا‘‘: کانفرنس کا آغاز جمعرات کی سہ پہر ہوا۔ مشتاق یوسفی، اسد محمد خاں، آئی اے رحمن، زہرا نگاہ، پیرزادہ قاسم، رضا علی عابدی، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، فاطمہ حسن، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، آصف اسلم فرخی، پروفیسر سحرانصاری، شہناز صدیقی، زاہدہ حنا، امداد حسینی اور اطہر وقارعظیم جیسی شخصیات نے اسٹیج کی شان بڑھائی۔ نظامت کر رہی تھیں، سیکریٹری آرٹس کونسل، ڈاکٹر ہما میر۔ تقریب کے منتظم احمد شاہ نے مائیک سنبھالا، تو جہاں اس کانفرنس کو زبانوں سے محبت کرنے والوں کا قافلہ ٹھہرا، وہیں یہ اعلان بھی کیا کہ اب یہ ادارہ ایک قومی ثقافتی کانفرنس کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ تنگ نظروں کو شکست ہو، تمام زبانیں بولنے والے اکٹھے ہوجائیں۔ پھر جناب شمیم حنفی نے ’’جدید ادب: مسائل وامکانات‘‘ کے موضوع پر آڈیو خطاب کیا۔ انھوں نے ان جید ادیبوں کو یاد کیا، جو کل تک ہمارے ساتھ تھے۔

ساتھ ہی بولے: ادب کو سرحدوں کا پابند نہیں کیا جاسکتا، اُردو ایک فرقے یا قوم کی زبان نہیں، اس کے اثرات ہر زبان نے قبول کیے۔ اس سیشن میں ڈاکٹر آصف فرخی نے ’’ہمارا ادب اور ہماری دُنیا‘‘ کے موضوع پر مقالہ پڑھا، جس میں فیڈل کاسترو اور ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی تذکرہ آیا۔ کہا: ہمارے ہاں ادیب کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ سامعین رضا علی عابدی، امدادحسینی، زاہدہ حنا، نورالہدیٰ شاہ، پیرزادہ قاسم، اسد محمد خاں کے خیالات سے بھی مستفید ہوئے۔

’’فیض لوگوں سے محبت کرتے تھے‘‘: دوسرے سیشن کا موضوع تھا؛ فیض اور امنِ عالم۔ پنڈی سازش کیس میں فیض صاحب کے ساتھ جیل کاٹنے والے ظفر اﷲ پوشنی نے ان سیاسی مباحث کا ذکر کیا، جو ان کے اور دیگر قیدیوں کے درمیان ہوتے، اور جب کبھی جھگڑے میں بدلتے، تو فیض صاحب آگے بڑھ کر سب کو چپ کروادیتے۔ ممتاز دانش وَر آئی اے رحمان نے فیض کی شاعری سے جو پیغام کشید کیا، وہ ان الفاظ میں دہرایا: جب تک مسلم اور غیرمسلم کو برابری کا درجہ نہیں دیا جائے گا پاکستان اور دُنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے صاحب زادے اور معروف سیاست داں، حاصل بزنجو نے فیض کو اصلاح کے لیے مزاحمت کرنے والوں کا لیڈر ٹھہرایا۔ زہرہ نگاہ نے سچ کہا کہ فیض لوگوں سے محبت کرتے تھے، جب ہی تو انھیں عالمی محبت ملی۔

برلن سے آنے والے عارف نقوی نے بھی بات کی، جنھوں نے جرمنی میں فیض صاحب کا طویل انٹرویو کیا تھا، جسے کچھ صاحبان فیض کا آخری انٹرویو ٹھہراتے ہیں۔ سنیئر براڈ کاسٹر رضا علی عابدی، کشور ناہید، معروف شاعرہ اور فکشن نگار، فہمیدہ ریاض نے بھی فیض کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس سیشن کے ماڈیٹر تھے ممتاز ڈرامانگار، اصغر ندیم سید۔

تیسرے سیشن کا تعلق بھی فیض ہی سے تھے۔ عنوان تھا: ذکریارچلے! ممتاز رقاصہ اور سماجی کارکن شیما کرمانی نے اپنی ٹیم کے ساتھ فیض کے کلام اور ان کی زندگی کو رقص اور تمثیل کے ڈھب پر بیان کیا۔ اس پرفارمینس کو انور جعفری نے ڈائریکٹ کیا۔

٭ دوسری صبح کی کرنیں
’’نعتیہ شاعری عظیم ورثہ ہے‘‘: دسمبر کی 2 تاریخ تھی۔ موسم خوش گوار تھا۔ آرٹس کونسل کی نویں عالمی اردو کانفرنس میں آج پہلے سیشن کا موضوع تھا: نعت اور ہماری روایات۔ اسپیکرز میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر جہاں آراء لطفی، عزیز احسن، ڈاکٹر شاداب احسانی، تنظیم الفردوس، عنبرین حسیب عنبر شامل تھے۔ نظامت کا فریضہ نبھایا عزیز الدین خاکی نے۔ صدارتی خطبہ دیا، جناب سحر انصاری نے۔ انھوں نے جہاں اس فن کی تاریخ پر روشنی ڈالی، وہیں یہ بھی کہا کہ ابھی اس صنف میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عزیز احسن بولے، یہ عقیدت کا اظہار، سو اس میں احتیاط شرط۔ عنبرین حسیب عنبر نے اس صنف میں مولانا حالی، مولانا ظفرعلی خان اور حفیظ جالندھری کا تذکرہ کیا۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے نعتیہ شاعری کو عظیم ورثہ ٹھہرایا۔

’’تعلیمی ایمرجینسی کی ضرورت‘‘: دوسرے سیشن کا موضوع تھا: زبان و ادب کا فروغ اور نصابِ تعلیم۔ نظامت نزہت عباسی نے کی، اور سید جعفر احمد نے ’’سماجی علوم کی تدریس اور جدید دنیا‘‘، پروفیسر ہارون رشید نے ’’نصاب تعلیم اور عصری تقاضے‘‘، ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ’’زبان وادب کا فروغ نصاب‘‘، پروفیسر انیس زیدی نے ’’ہمارا تعلیمی نظام اور عصر حاضر کے رحجانات‘‘ اور نعمان نقوی نے ’’لبرل آرٹس اور ہمارا نصاب‘‘ پر مقالے پڑھے۔ اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے بین الاقوامی ہدف حاصل کرنے کے لیے ملک میں تعلیمی ایمرجینسی لگانے کی ضرورت پر زور دیا۔ بولے، تعلیمی پالیسیاں تو ٹھیک ہیں، بس ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی نظام تعلیم میں ادب کی اہمیت اجاگر کی۔

جہاں دیگر مقالہ نگاروں نے اہم نکات اٹھائے، وہاں پروفیسر انیس زیدی نے نشان دہی کہ سماج کے مانند ہمارے ہاں نظام تعلیم میں بھی مڈل کلاس، لوئر کلاس، اپر کلاس کی تقسیم نظر آتی ہے۔

’’غالب، اقبال اور کائناتی کلیہ‘‘: تیسرا سیشن کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ عنوان ہے: ’’چہ مستانہ می رود، غالب سے اقبال تک‘‘، مقالہ نگار تھے، ڈاکٹر نعمان الحق، جنھوں نے بھرپور گفت گو کی، جدید شاعری کو غالب اور اقبال کی مشترکہ پہچان ٹھہرایا۔ ساتھ کہا؛ جدید شاعری کی روایت میں حالی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی نشان دہی کہ غالب اور اقبال کے ہاں کائناتی کلیہ سے بات شروع ہوتی ہے۔ مزید کہا، شاعری میں تہہ در تہہ معنی نہ ہوں تو شاعری نہیں ہوتی شاعری کسی فکری نظام کا نام نہیں۔

’’سوشل میڈیا اور بازار کا ادب‘‘: اگلے سیشن کا موضوع تھا: نئے سماجی ذرائع اور ابلاغ کی صورت حال۔ اظہارخیال کیا، رضا علی عابدی، غازی صلاح الدین، مظہرعباس، نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹر نعمان نقوی، وسعت اﷲ خان، ڈاکٹر محمد ایوب شیخ نے۔ غازی صلاح الدین نے اہم نکتے کی نشان دہی کی کہ سوشل میڈیا نے ادب کو بازار کا ادب بنادیا ہے۔ اب تربیت یافتہ لوگوں کا ادب نہیں رہا۔ سنیئر صحافی وسعت اﷲ خان بولے، سوشل میڈیا نے اظہار کے مختلف ذرائع متعارف کروائے، مگر یہ آزادی کچھ مسائل بھی ساتھ لائی۔ رضا علی عابدی نے کہا کہ سوشل میڈیا کو پرکھنے کی ابھی ہمارے یہاں ابتدا ہے، اس لیے ہمیں اسے برتنے کا فن بھی نہیں آتا۔ نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ اس میڈیم پر سب ہی اپنے جذبات کا آزادانہ اظہار کررہے ہیں۔ یہ عمل اپنے اندر مثبت و منفی، ہر دو اثرات رکھتا ہے۔

’’ہم اپنی تہذیب سے نابلد ہیں‘‘: ’’پاکستانی زبانیں اور قومی ہم آہنگی ‘‘ پانچواں سیشن کا موضوع تھا۔ جہاں جامی چانڈیو، گل حسن کلمتی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، رمضان علی، ڈاکٹر نذیر تبسم، فہمیدہ ریاض، احمد فواد، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر قاسم بگھیو اور سید مظہر جمیل نے خطاب کیا۔ نظامت کے فرائض حارث خلیق نے انجام دیے۔ ڈاکٹر قاسم بگھیونے شکوہ کیا ہم اپنی تہذیب اور ثقافت سے نابلد ہیں، اور ہمیں اپنے کلچر کو آگے بڑھانے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ انھوں نے اکادمی کی جانب سے ’’دارالترجمہ‘‘ قائم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ سید مظہر جمیل نے جہاں یہ کہا کہ پاکستان کی ساری زبانوں کا احترام ضروری ہے۔ وہیں یہ نشان دہی بھی کی کہ ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ اور ’’اُردو ڈکشنری بورڈ‘‘ جیسے ادارے اب غیرفعال ہوگئے ہیں۔

’’ہمیشہ گلوبل فریم ورک سامنے رکھا‘‘: ’’غلام باغ‘‘ اور ’’صفر سے ایک‘‘ تک جیسے ناولوں کے خالق سے اگلے سیشن میں ڈاکٹر آصف فرخی گفت گو کرتے دکھائی دیے۔ مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے مرزا اطہر بیگ نے کہا، فلسفہ میری زندگی کا حصہ ہے، ڈرامے فقط آمدنی کی غرض سے لکھے، مگر اسے ناول نگاری کا فائدہ ہوا۔ میرے ناول میں میرا تنقیدی نقطۂ نظر بھی موجود ہے۔ ہمیشہ گلوبل فریم ورک سامنے رکھا۔ آج پانچ ناولوں پر بیک وقت کام کررہا ہوں۔ انھوں نے یونیورسل قاری کے تصور کو رد کرتے ہوئے کہا، ہررائٹر کے مخصوص ریڈر ہوتے ہیں، میرا بھی یہی معاملہ ہے۔

’’چار کتابیں اور حویلی‘‘: دوسرے دن کے ساتویں سیشن میں چار کتابوں کی رونمائی ہوئی۔ یہ تھیں، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کی ’’خاک کی مہک‘‘، مبین مرزا کی کتاب ’’زمین اور زمانے‘‘، خالد احمد انصاری کی ’’راموز‘‘، ڈاکٹر حسن منظر کا ناول ’’حبس۔‘‘ اس سیشن میں ڈاکٹر ضیاء الحسن، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر امجد طفیل اور شکیل عادل زادہ نے گفت گو کی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر جمال نقوی نے انجام دیے۔

پھر آخری اجلاس شروع ہوا، جس میں آڈیٹوریم بھر گیا۔ اور یہ متوقع تھا کہ جناب مشتاق احمد یوسفی کی معروف کہانی ’’حویلی‘‘ کو داستان کی ڈھب پر پیش کیا جارہا تھا۔ پرفارمینس تھی فواد خان، میثم نقوی اور نذر الحسن کی۔ یوسفی صاحب بھی موجود تھے۔ حاضرین نے کھڑے ہوکر داد دی۔

٭ تیسرے روز کی کہانی
’’سوات پر لکھی گئی نظمیں‘‘: سرمئی دھوپ تھی۔ لوگ دھیرے دھیرے اکٹھے ہورہے تھے۔

آج پہلا اجلاس کا موضوع تھا۔ ’’روایت اور نیا شعر منظرنامہ۔‘‘ اسپیکرز کا پینل ڈاکٹر یاسمین سلطانہ، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر، تنویر انجم، صبا اکرام، احمد فواد، یاسمین حمید، ڈاکٹر نجیب جمال جیسی شخصیات پر مشتمل تھا۔ مجلس صدارت میں افضال احمد سید اور کشورناہید شامل تھے۔ نظام کی راشد نور نے۔ کشور ناہید صاحبہ نے اپنے صدارتی خطبے میں شعرا اور ادیب سماجی حالات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، اس موقع پر انھوں نے سوات کے حالات پر لکھی ایک نظم کا حوالہ دیا، جس میں تمام مظلوموں کے احساسات شامل تھے۔

’’دھند میں ڈوبا شہر‘‘: اب ’’فکشن کے بدلتے قالب‘‘ پر بات نکلی، جس میں ڈاکٹر شیبا سید، اخلاق احمد، امجد طفیل، ڈاکٹر ضیاء الحسن، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر نجیبہ عارف نے مقالے پڑھے۔ مجلس صدارت زاہدہ حنا اور اسد محمد خاں پر مشتمل تھی۔ بھرپور گفت گو ہوئی، ڈاکٹر شیبا سید نے ناول کو ایک مکمل دستاویز قرار دیا، اخلاق احمد بولے، کہانی انسانوں میں تبدیلی لاتی ہے، امجد طفیل نے ناول کو انسانی وجود کے دریافت کی کوشش ٹھہرایا، ڈاکٹر ضیا الحسن کہنے لگے، اُردو افسانہ انسان کے وجود ی انکشافات کی منزل میں داخل ہوگیا، ڈاکٹر نجیہ عارف نے کہا، فکشن دھند میں ڈوبے ہوئے شہر کا منظر ہے، مگر حاضرین اسد محمد خاں کو سننے سے محروم رہے۔ زاہدہ حنا نے اپنے مختصر خطاب میں کہا، اچھا فکشن لکھنے والے سامنے آرہے ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

’’قاسمی صاحب، مشعل راہ‘‘: تیسرا سیشن احمد ندیم قاسمی کی صد سالہ تقریب سے متعلق تھا۔ نظامت کی عرفان جاوید نے۔ کشور ناہید، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر قاسم بگھیو ، ناہید قاسمی اور احمد شاہ نے خطاب کیا۔ ناہید قاسمی نے اپنے والد کو ایک محبت کرنے والا باپ ٹھہرایا۔ قاسمی کے نواسیم نیئر حیات قاسمی نے ان کے لیے ایک نظم پڑھی۔ اصغر ندیم سید نے قاسمی صاحب کی جدوجہد کو مشعل راہ ٹھہرایا۔ پروفیسر سحر انصاری نے ’’فنون‘‘ کو ایک ٹھہرایا، جسے احمد ندیم قاسمی نے زندگی بخشی۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو نے اکادمی ادبیات پاکستان کے احمد ندیم قاسمی نمبر کا تذکرہ کیا۔ کشور ناہید نے کہا؛ احمد ندیم قاسمی استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ احمد شاہ نے کہا، جو معاشرہ اپنے محسنوں کو بھلا دے، وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔

’’شاعر تہذیب کا عکاس ہوتا ہے‘‘: اب ’’ثقافتی ادارے اور عصری تقاضے‘‘ زیربحث آئے۔

اس سیشن میں عطا الحق قاسمی، احمد شاہ، قاسم بگھیو، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، جمال شاہ، فاطمہ حسن نے خطاب کیا۔ ناظم حمید شاہ تھے۔ الحمرہ آرٹس کونسل اور پی ٹی وی کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی نے کہا؛ شاعر تہذیبوں کا عکاس ہوتا ہے، وہ ثقافتوں کو اُجاگر کرتا ہے، اگر ثقافتی ادارے کے سربراہ فعال ہوں، تو کسی حکومت تعاون کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس موقع پر انھوں نے احمد شاہ کی بھی تعریف کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر قاسم بگھیو نے آیندہ سال کراچی میں تین روزہ شیخ ایاز فیسٹیول منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا۔

٭ ’’اہل جرمن اردو سے ناواقف ہیں‘‘
پانچواں اجلاس ’’اُردو کی نئی بستیاں، نیا ادبی منظر نامہ‘‘ کی بابت تھا۔ نظامت انجم رضوی نے کی۔ اسپیکرز کا پینل عشرت آفرین (امریکا)، یشپ تمنا (برطانیہ)، نجمہ عثمان (برطانیہ)، سعید نقوی (امریکا)، باصر کاظمی (برطانیہ) پر مشتمل تھا۔ صدر تھے عارف نقوی، جو برلن سے تشریف لائے تھے، جنھوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ اہل جرمن اردو سے ناواقف ہیں۔ یاد بازیافت کرتے ہوئے اس زمانے کا بھی ذکر کیا، جب سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، سردار جعفری جرمنی گئے، تو انھوں نے جرمن ادیبوں سے ان کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا، تاکہ عالمی سطح پر اُردو کا تذکرہ ہو۔

’’کراچی بھی زندہ دلوں کا شہر ہے‘‘: چھٹا اجلاس دراصل ’’عطاء الحق قاسمی سے ملاقات‘‘ کا بہانہ تھا، جس میں گفت گو کی محمد احمد شاہ نے۔ اس سیشن میں عطا الحق قاسمی نے یہ کہہ کر خود داد سمیٹی کہ لاہور کے مانند کراچی بھی زندہ دلوں کا شہر ہے، بس، تھوڑا کم ہنستا ہے۔ اس دوران انھوں نے وزیر اعظم پاکستان سے ہونے والی شگفتہ گفت گو، لاہور کی کھلی ڈلی محفلوں کا ذکر کیا۔ اس دوران احمد فراز، احمد ندیم قاسمی امجد سلام امجد اور دل دار بھٹی سے متعلق بھی بات ہوئی۔ انھوں نے ایک نظم بھی پڑھی۔

’’ایک اجلاس، پانچ کتابیں‘‘: ساتواں اجلاس تھا کتابوں سے متعلق۔ کلیات ثروت حسین ’’ایک کٹورا پانی‘‘ پر افضال احمد سید نے بات کی۔ صابر ظفر کی کتاب پر سعادت سید نے مقالہ پڑھا۔ تنویر انجم کی کتاب پر یاسمین حمید نے گفت گو کی۔ عذرا عباس کی کتاب پر محمد حنیف کے مضمون کا ترجمہ سید کاشف رضا نے پڑھا۔ خالد معین کی کتاب پر سائرہ غلام نبی نے اظہار خیال کیا۔

’’انور شعور کے لیے نشان سپاس‘‘: اگلے اجلاس میں یارک شائر ادبی فورم کی جانب سے نام ور شاعر، انور شعور کو اعتراف کمال ایوارڈ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے گفت گو کی۔ انور شعور نے اپنے خطاب میں یارک شائر ادبی فارم اور آرٹس کونسل کا شکریہ ادا کیا۔

’’مشاعرہ ، ہمارا روایات کا عکاس‘‘: تیسرے دن کے آخر میں ممتاز شاعر، رسا چغتائی کی صدارت میں مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں سحر انصاری، کشور ناہید، پیرزادہ قاسم، انور شعور، امداد حسینی، عطاالحق قاسمی، فہمیدہ ریاض، افضال احمد سید، یاسمین حمید، عشرت آفرین، فاطمہ حسن، صابر ظفر، لیاقت علی عاصم، انعام الحق جاوید، احمد نوید، احمد فواد، عباس تابش، نذیر تبسم، سعادت سعید، شکیل جاذب، فاضل جمیلی، صغرا صدف، ریحانہ روحی، عقیل عباس جعفری، شہناز نور، اجمل سراج، عنبرین حسیب عنبر، یشب تمنا، باصر کاظمی، غالب ماجدی، نجمہ عثمان، اے ایچ خانزادہ، غزل انصاری شامل تھے جب کہ ٹیلی فون پر انڈیا سے خوشبیر سنگھ شاد، منیش شکلا اور رنجیت سنگھ چوہان نے اپنا کلام سنایا۔ مہمان خصوصی میئر کراچی وسیم اختر تھے۔ اس موقع پر وسیم اختر نے کراچی کے مسائل، وسائل کی کمی اور اپنے ارادوں سے متعلق اظہارخیال کیا۔ مشاعرے میں ملک بھر سے آئے ہوئے شعراء کرام نے اپنے اشعار سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔ مشاعرے کی صدارت رسا چغتائی کر رہے تھے۔

٭ چوتھا ٹکڑا دھوپ کا
’’فلسفے کی اہمیت‘‘: آخر دن کے پہلے اجلاس کا موضوع ’’نئی دُنیا اور آج کے ادبی تقاضے‘‘ تھا۔ اس تقریب میں زاہدہ حنا، سعادت سعید، ناصر عباس نیئر، عذرا عباس، انوار احمد نے بھرپور مقالے پڑھے، اور کئی اہم سوالات اٹھائے۔ نظامت کے فرائض احمد شاہ نے انجام دیے۔ کشور ناہید نے اپنے خطاب میں لکھنے والوں کو فلسفہ پڑھنے کا مشورہ دیا، انھوں نے کولمبیا کے دورے کا ذکر کیا، تھا، ہی ایک بار پھر سوات کا تذکرہ کیا، جہاں لوگوں کو ذبح کرکے ان کے سروں سے کھیلا جاتا تھا۔

’’اگر سرسید نہ ہوتے‘‘: دوسرا اجلاس انتہائی اہم تھا، جس میں ’’اُردو میں بچوں کے ادب کی صورتِ حال‘‘ کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں ڈاکٹر نجیبہ عارف، رومانہ حسین، پروفیسرمجیب ظفرحمیدی، علی حسن ساجد ، حمیرا اطہر نے خطاب کیا۔ صدر رضا علی عابدی تھے، جنھوں نے اس موقع پر سرسید احمد خان اور اسماعیل میرٹھی کی خدمات پر روشنی ڈالی، جن کے فن پارے آج بھی گراں قدر ادبی سرمایہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔

’’وہ جو بچھڑ گئے‘‘: اگلا اجلاس ’’یادِ رفتگاں‘‘ کے زیرعنوان ہوا، جس میں ڈاکٹر جمیل الدین عالی، مصطفی زیدی، ڈاکٹر اسلم فرخی، فاطمہ ثریا بجیا، اسلم اظہر، آغا سلیم اور اظہر عباس ہاشمی کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس سیشن میں پروفیسر سحر انصاری، انور مقصود، اختر وقار عظیم، ڈاکٹر آصف فرخی، سید صفوان اﷲ، جاوید حسن، ایس اے ناگ پال نے خطاب کیا۔ صدارت زہرہ نگاہ نے کی۔

’’ڈراموں نے زندگی بدل دی‘‘: آخری دن کے چوتھا ا اجلاس کا موضوع تھا ’’فلم، ٹیلی ویژن، اسٹیج اور عصرِحاضر۔‘‘ اسپیکرز تھے، فرہاد زیدی، حسینہ معین، نورالہدیٰ شاہ، طلعت حسین، اختر وقارعظیم، راجو جمیل اور شیماکرمانی۔ نظامت کے فرائض اقبال لطیف نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں تمام شخصیات نے موضوع سے متعلق بھرپور گفت گو کی۔ فرہاد زیدی نے فلم، ٹی وی ریڈیو کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ڈراموں کو انھوں نے بالخصوص تذکرہ کیا، جس نے لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔

’’کتاب اور انتظار حسین‘‘: اگلے اجلاس میں عہدساز ادیب انتظار حسین کو یاد کیا گیا۔ یہ دراصل ڈاکٹر آصف فرخی کی کتاب ’’چراغِ شب افسانہ‘‘ کی تقریب اجرا تھی، جس کا محور جناب انتظار حسین کی ذات تھی۔ اس موقع پر مصنف نے اپنے تجربات بانٹے۔ اس سیشن میں زہرہ نگاہ، کشور ناہید، ناصر عباس نیئر نے گفت گو کی۔ سیشن کے صدر مشتاق احمد یوسفی تھے۔ نظامت کے فرائض رخسانہ صبا نے انجام دیے۔

’’خدا حافظ‘‘ : انور مقصود کا ہر رنگ نرالا ہے۔ مزاح کمال لکھتے ہیں، پَل میں محفل کو زعفران زار بنا دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی چوتھے روز کی شام ہوا، جب انھوں نے کھچا کھچ بھرے ہال میں اپنا مضمون پڑھا۔

’’اختتامی اجلاس‘‘: نویں عالمی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں جہاں شمیم حنفی صاحب سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا گیا تھا، تو آخری اجلاس میں معروف ہندوستانی نقاد اور محقق ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی کی آواز سنائی دی، جنھوں نے اس بزم کو سجانے پر احمد شاہ کو مبارک باد پیش کی۔ تقریب کے صدر، مشتاق احمد یوسفی تھے۔ اس سیشن میں زہرہ نگاہ، عطاء اللہ قاسمی، ڈاکٹر قاسم بگھیو، رضا علی عابدی، باصر کاظمی، پروفیسر سحر انصاری، مبین مرزا، ڈاکٹر عارف نقوی، شیما کرمانی، نورالہدیٰ شاہ، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، حسینہ معین، کشور ناہید، عشرت آفرین، پروفیسر اعجاز احمد فاروقی اور شہناز صدیقی نے بھی خطاب کیا۔

٭ حروف آخر
صاحبو! نویں عالمی اردو کانفرنس اختتام کو پہنچی، اور اپنے پیچھے کئی یادیں چھوڑ گئی۔ کتابیں، کتابوں کی باتیں، صاحب کتاب سے ملاقات۔ جو گزر گئے، ان ادیبوں کا ذکر، جو آنے والے ہیں ان کے تذکرے۔ کہیں آنسو، کہیں مسکراہٹ۔

عالمی اردو کانفرنس بلاشبہہ ایک میگا پراجیکٹ ہے۔ دو درجن سیشن، چار درجن مندوب۔ انتظامات، بھاگ دوڑ، ٹائم مینجمنٹ، حاضرین کی بھاری تعداد، مگر انتظامیہ نے اپنا تجربہ اور مہارت بروئے کار لاتے ہوئے تمام معاملات احسن طریقے سے سنبھالے۔ اب یہ عالمی بیٹھک کراچی کی پہچان بن چکی ہے۔ ہاں، بہتری کی گنجایش تو رہتی ہے۔ کچھ اقدامات اِس کا حسن مزید نکھار سکتے ہیں، جیسے:

٭ اگر اسپیکرز کی تعداد کم رکھی جائے، تو مقالہ نگار زیادہ موثر انداز میں اپنے دلائل پیش کرسکیں گے، اور سیشن کی اہمیت دو چند ہوجائے گی۔ ٭ ایک اسپیکر کو چار چار سیشنز میں آزمانے کے بجائے دو سیشن تک محدود رکھنے سے تنوع پیدا ہوگا ٭ ٹاک شوز کے طرز پر سیشن منعقد کیے جائیں، حاضرین بھی سوالات کر سکیں ٭ کراچی دو کروڑ کی آبادی کا شہر ہے، اس کی موثر نمایندگی ایک کانفرنس میں سہل نہیں، آرٹس کونسل کے تحت دو روزہ ’’کراچی اردو کانفرنس‘‘ منعقد کرنے سے اس شہر کو اپنی صلاحیت شناخت کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔