ہندوستان اور مسلمان

عبدالقادر حسن  جمعـء 16 دسمبر 2016
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دنیا کے سبھی ملک سوائے دو چار کے اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں اور انھیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے بروقت کوئی نہ کوئی بڑا خطرہ درپیش رہتا ہے اور اسے اپنا وجود قائم سلامت اور برقرار رکھنے کے لیے حالات اور ماحول دوستی درکار ہوتی ہے، آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کسی نہ کسی بیرونی امداد کی ضرورت رہتی ہے یا اتنی طاقت درکار ہوتی ہے جو اسے باہر کے خطروں سے بچا سکے کیونکہ خود پاکستان میں حالات اتنے ساز گار نہیں رہتے اور یہ ملک اتنی طاقت حاصل نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے وجود کو اپنی طاقت سے برقرار رکھ سکے۔

مجھے یہ نامناسب اور غلط باتیں نہیں لکھنی چاہیے تھیں کیونکہ ہمارے قارئین بعض لکھنے والوں کو ان کی اہمیت سے زیادہ وزن دے دیتے ہیں اور بددل یا پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسی باتیں لکھ کر قارئین کو بے چین اور پریشان کیا جاتا ہے جو مناسب نہیں ہے لیکن پھر یہ بھی ہے کہ جب ایسی باتیں نہیں کی جاتیں یا ان پر مصلحت کا پردہ ڈالا جاتا ہے تو شکایت ہوتی ہے کہ اخبار والے اپنے قارئین کو بے خبر رکھنا چاہتے ہیں۔ خود انھیں تو بہت کچھ معلوم ہوتا ہے لیکن وہ اپنی معلومات کو اپنے تک محدود کر لیتے ہیں اور قارئین تک نہیں پہنچاتے۔

اس نازک موضوع پر لکھنے کو جی نہیں چاہتا یا ہمت نہیں پڑتی جس میں سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر ہو لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ایک حقیقت ہے، ایسی حقیقت جس کا یاد رکھنا اور یاد دلانا ضروری ہے کیونکہ بعض لوگوں کے خیال میں جن میں خود میں بھی شامل ہوں ایسے سانحہ پھر بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے اسباب بدستور موجود ہیں اور ان اسباب کو ختم کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جب کہ بعض لوگوں کے خیال میں یہ اسباب ختم ہو سکتے ہیں، بہر کیف ان اسباب کی موجودگی کے باوجود ہمیں ملک کی سلامتی کی جدوجہد بلکہ جہاد جاری رکھنا لازم ہے جس کا ثواب کسی جہاد سے کم نہیں۔ پاکستان صرف ایک ملک ہی نہیں ایک تحریک ہے جو برصغیر میں برسہا برس سے شروع ہے۔

قیام پاکستان بہت پرانی بات نہیں آپ اسے یاد کیجیے اور دیکھئے کہ بھارت کی اکثریت یعنی ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود کیسی جرات اور دلیری کے ساتھ اپنا حصہ وصول کیا اور اسے پاکستان کا نام دیا۔ یہ پاکستان کبھی مشرقی پاکستان بنے یا مغربی ہر حال میں یہ برصغیر کے مسلمانوں کا امین ہے اور اس کا وجود مسلمانوں کی اس اقلیت کے نام پر ہے جو اس خطے میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کا پتہ دیتی ہے۔ کبھی غور کیجیے گا کہ ہمارے لیڈروں نے کس دانش مندی کے ساتھ اس خطے میں اپنا وجود برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی جب کہ ہندو قوم مسلمانوں کے اس وجود کو قبول نہیں کرتی۔ اندرا گاندھی اسی وجود پر احتجاج کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہم مسلمانوں سے ان کی ہزار سالہ حاکمیت اور اپنی غلامی کا بدلہ لیں گے۔ اندرا نے یہ بات مشرقی پاکستان کے سانحہ کے موقع پر کہی تھی جو بہت سارے اشارے رکھتی تھی۔ ہم نے ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ان کے ملک میں گھس کر ان پر اپنی حکومت قائم کی جسے آج ہندو لیڈر اندرا اپنی غلامی سے تعبیر کرتی ہے۔

اندرا گاندھی ہو یا کوئی دوسرا ہندو لیڈر سبھی کہتے ہیں کہ یہ خطہ ہندوؤں کا خطہ تھا جس پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا اور یہاں اپنی حکومتیں اور بادشاہتیں قائم کر لیں جو تاریخ کی ایک حقیقت ہے لیکن ہندوستان کی ہندو قوم کے لیے ایک انتہائی ناپسندیدہ اور ناقابل برداشت حقیقت ہم مسلمان جو ہندوؤں کے بھارت میں ڈٹ کر رہتے ہیں اور اس خطے کی وراثت میں حصہ بھی رکھتے ہیں ہندوؤں کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے اور ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا مرحلہ ہے جو ہندو ازم کو پنپنے نہیں دیتا اسے دبا کر رکھتا ہے۔ اندرا گاندھی جس عرصہ کو ہندوؤں کی غلامی سے تعبیر کرتی ہے وہ عرصہ اس خطے میں مسلمانوں کی حاکمیت اور بادشاہت کا عرصہ تھا جس نے اس بڑے ملک کی تاریخ بدل دی اور مٹھی بھر مسلمانوں نے یہاں حکومت ہی نہیں بادشاہت کی۔

ہندوستان کی مالک ہندو قوم اگر اس خطے کو اپنی ملکیت تصور کرتی ہے تو تہذیبی لحاظ سے شاید یہ درست ہو کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں ہندو ہی تھے اور یہ ان کا ملک تھا لیکن جاندار اور جرات مند مسلمانوں کی یہاں ایک پردیسی کی حیثیت سے آمد ہوئی اور انھوں نے ہندوؤں کے اس ملک پر بقول اندرا گاندھی کے ہزار برس تک حکومت کی۔ مسز اندرا کو شاید یہ یاد نہیں آیا کہ مسلمان اب بھی اس اجنبی ملک میں ایک حاکمانہ حیثیت رکھتے ہیں اور ہندوستان مسلمانوں کی اس حیثیت کا گواہ ہے اندرا گاندھی یوں بھی کہہ سکتی تھیں کہ اب بھی مسلمانوں کی اقلیت اکثریت پرحکومت کر رہی ہے اور اہل ہند اس کے گواہ ہیں۔

بہرکیف حالات جیسے بھی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں اور ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بھاری اکثریت اور اپنے آبائی وطن کے باوجود ہندوستان کے ہندو مسلمانوں کی غلامی پر راضی رہے اور تاریخ کے مطابق ایک ہزار برس تک وہ حکمران رہے۔ یہ تو مسلمانوں کی سیاسی قیادت کی سستی یا لاپروائی تھی کہ یہاں ان کی حکومت ختم ہو گئی ورنہ اگر وہ اس خطے کے بعض دوسرے ملکوں کی مثال سامنے رکھتے تو ہندوستان ایک غیر ہندو ملک ہوتا۔ کسی ایران کی طرح وہ اپنا الگ وجود اور نظریہ رکھتا لیکن جیسا کہ عرض کیا ہے ہندوستان اور یہاں کے باشندوں میں کوئی کشش ایسی تھی کہ مسلمان ان کی پرستش کرتے رہے اور ہر مسلمان بادشاہ نے ہندو عورتوں کو گھر میں رکھا اور ہمارے کتنے ہی بادشاہ ان کی اولاد تھے۔

نکاح کے بغیر ایک طویل سلسلہ تھا جو یہاں رائج ہوا اور مسلمان بادشاہوں نے اسے قبول کر لیا۔ ہندوستان کے باشندوں نے مسلمانوں کے اس طریقے کو قبول کیا اور ان کی بادشاہت کے استحکام میں ہر ممکن مدد کی۔ ملک ہندوستان ہی نہیں یہاں کے باشندے بھی مسلمان حکمرانوں کی رعیت میں شامل رہے اور ان کی سرپرستی میں اپنی علاقائی حکومتیں قائم رکھیں اور راجے مہاراجے محدود حکومتیں کرتے رہے وہ تو قیام پاکستان کے بعد ہمارے کئی لیڈر بھارت کی ناری، اس کی ساڑھی اور بندیا پر مر مٹے ورنہ ہندوستان وہ نہ ہوتا جو اب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔