کنویں میں سچ

زاہدہ حنا  اتوار 18 دسمبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دنیا کی ہر ریاست سچ پر دبیز پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے، ابتدا میں وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہو جاتی ہے، پرانی نسل حقائق کو نسیان کے طاقچے میں دھر دیتی ہے اور زندگی آرام سے گزارتی ہے۔ نئی نسل نصاب میں درج کیے جانے والے واقعات کو سچ جانتی ہے اور اس سے سرسری گزرتی ہے۔ یہ ادیب ہیں جو تاریخ کو کہانی کا لبادہ پہناتے ہیں اور سچ نسل در نسل سفر کرتا ہے۔

16 دسمبر 1971ء بنگلہ دیش کی پیدائش اور متحدہ پاکستان کے دولخت ہونے کا دن۔ تاریخ کی اس کروٹ پر 45 برس گزر چکے، اس کے باوجود پاکستان میں بہت سے لوگ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ متحدہ پاکستان کے دولخت ہونے میں کچھ ذمے داری ان کی بھی تھی۔

سچ پوچھئے تو یہ کہانی 1947ء کے آخری دنوں میں اسی دن سے شروع ہوگئی تھی جب بانی پاکستان نے ڈھاکا شہر میں یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ بنگلہ ایک قدیم اور شاندار پس منظر رکھنے والی زبان ہے۔ اس وقت وہ پاکستانیوں کی اکثریت کی زبان تھی۔ اسے یوں رد کردینا جیسے اس کی کوئی حیثیت نہ ہو، مشرقی بنگال کے لوگوں کے ساتھ آخری درجے کی سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی نا انصافی تھی۔ یہ وہی مشرقی پاکستان تھا جس کے مسلمانوں نے اگر مسلم لیگ کو اجتماعی طور پر ووٹ نہ ڈالے ہوتے تو پاکستان کا وجود میں آنا ممکن نہ تھا۔ اس ناانصافی نے اس وقت کے مشرقی پاکستان کو اپنی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا۔

بنگلہ بولنے والے پاکستانی ایک دوسرے سے سوال کرنے لگے کہ کیا اسی لیے ہم نے مسلم لیگ کو ووٹ دیے تھے؟ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد مشرقی بنگال میں آباد تھی، ان کے اور عام بنگالی مسلمان کے رہن سہن، پہناوے اور زبان میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔ مغربی پاکستان سے جانے والی نوکرشاہی جس کی اکثریت پنجابی اور اردو بولنے والوں پر مشتمل تھی، اس حکمران اشرافیہ نے بنگالی مسلمان کو سچا کھرا مسلمان ماننے سے انکار کیا اور عمومی طور پر ان کے ساتھ وہ برتاؤ رکھا جو کسی نوآبادی کے ساتھ اس کے غیر ملکی آقا رکھتے ہیں۔

یہاں سے دلوں اور تعلقات میں جو دراڑ پڑی وہ تیزی سے ایک خلیج میں بدل گئی۔ ہمیں ہندوستان سے شکایت ہے کہ یہ سب کچھ اس کا کیا دھرا تھا۔ نہ اس نے مکتی باہنی کی تربیت کی ہوتی، نہ اسلحہ فراہم کیا ہوتا اور نہ پاکستان دولخت ہوتا۔ مشکل یہ ہے کہ ہمیں اپنی غلطیاں بلکہ فاش غلطیاں یاد نہیں، ہم اپنے ہی ملک اور اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنے گئے تھے، اور 90 ہزار سے ہتھیار ڈلوا کر لوٹے۔ ہم نے انتخابی نتائج سے رو گردانی کرتے ہوئے ان کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا اور ملک کو دو لخت کرا بیٹھے۔ اس کے بعد آج بھی جب 16 دسمبرآتی ہے تو ہم ’متحدہ پاکستان‘ کو یاد کرتے ہیں، الزام اپنے پڑوسی کے سر دھرتے ہیں لیکن اپنی غلطیوں پر سرسری نگاہ ڈالنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ آج بھی ہم ایک بحرانی دور سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ ایک طویل عرصے تک آمروں کی حکومت ہے۔ 2008ء سے جمہوری دور آیا ضرور ہے لیکن اس کے راستے میں بھی کیسے روڑے نہیں اٹکائے گئے اور آج بھی کیسی کوششیں نہیں کی جارہیں کہ جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے۔

بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ ریاست اگر کسی سچ کو چھپا بھی دے تو یہ ادیب کی لکھت ہوتی ہے جو حقیقت حال کو سامنے لے آتی ہے۔ کچھ ایسا ہی مشرقی بنگال کے سانحے کے ساتھ بھی ہوا۔ اس کا نثری مرثیہ ہماری بے بدل ادیب الطاف فاطمہ نے لکھا۔ یہ وہ الطاف فاطمہ ہیں جو 1927ء کے لکھنو میں پیدا ہوئیں اور تقسیم کی اکھاڑ پچھاڑ نے جنھیں لاہور میں لا بٹھایا۔ ناصر کاظمی انبالہ سے اور انتظار حسین ڈبائی سے آئے اور لاہور کے ہو رہے۔ ان تینوں میں فرق ہے تو اتنا کہ اپنی تمام صلاحیتوں کے باوجود الطاف فاطمہ سے بے اعتنائی برتی گئی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ تعلقات عامہ کے پرچے میں بری طرح فیل ہوئیں۔ نہایت جی لگاکر لڑکیوں کو پڑھاتی رہیں۔ چھینٹ کی قمیض، لٹھے کی شلوار، اس پر سے سفید ململ کے دوپٹے کا بکل مارے کالج اور ادبی تقریبات میں آتی جاتی رہیں لیکن مجال ہے کہ کسی طرف زیادہ مسکرا کر دیکھا ہو۔ ان سے بے اعتنائی کا جو عالم پہلے تھا، وہ ماشااللہ اب بھی عروج پر ہے۔ برسوں پہلے آنکھوں کی بینائی ازحد متاثر ہوئی، تب بھی اندازے سے ہنڈیا بھونتی رہیں۔

ایک بدحواس لڑکا جسے صرف اپنی تنخواہ سے دلچسپی تھی، وہ مارے باندھے انھیں نمک اور کٹی ہوئی مرچ کے ڈبے اٹھا کر دیتا تھا۔ یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ عالم ہوا ہے کہ ’آہیں نہ بھریں، شکوے نہ کیے، ہاتھوں سے کلیجا تھام لیا‘ انھوں نے اس کے باوجود کسی سے گلہ نہیں کیا اور اس بات پر خوش رہیں کہ میں کراچی سے آئی ہوں اور ان کی قدم بوسی کو حاضر ہوئی ہوں۔ اس دور میں بھی انھوں نے کیسے خوبصورت افسانے لکھے۔ آصف فرخی کو یاد کرتی رہیں جو انھیں فون کرتے ہیں اور ان سے کہانیوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ نیلم احمد بشیر جن کی کرم فرمائی سے میں ان کے گھر پہنچی تھی، آب دیدہ تھیں اور چپکے چپکے کہہ رہی تھیں ’دیکھو ہم اپنے بڑوں سے کیسا ناروا سلوک کرتے ہیں‘۔ میں نے کہا ’ ٹھیک کہتی ہو، کرتے تو ہیں‘۔

الطاف فاطمہ نے مشرقی بنگال کے بارے میں ایک ناول ’چلتا مسافر‘ لکھا جس کے پہلے صفحے پر ایک پہیلی تحریر ہے:

تنگ سی ڈبیا ڈب ڈب کرے
چلتا مسافر گِر گِر پڑے

یہ آنکھ میں ڈبڈباتے ہوئے آنسو کی طرف اشارہ ہے جو آنکھوں میں تیرتا ہے اور پھر رخسار پر ڈھلک جاتا ہے۔

کہانی انھوں نے بہار کے شہر پٹنہ سے اٹھائی ہے، اس میں مونگیر کا بھی ذکر آتا ہے۔ بہار کے ایک گھرانے میں مسلم لیگ کا زور ہے۔ مرد اور نوجوان اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح پاکستان بن جائے اور بزرگ عورتیں اس نئی ہوا سے ناراض ہیں۔ وہ صدیوں سے بسے ہوئے گھر بار ’کھیت کھلیان‘ قبرستان چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں، لیکن زمانہ وہ ظالم شے ہے کہ بادشاہوں کی ناکوں سے لکیریں کھنچوالیتا ہے، تو یہ بے بضاعت عورتیں کس شمار قطار میں ہیں۔

بہار سے اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان پر قدم رکھا۔ سفر کرتے ہوئے خاندان، ایک خواب کے تعاقب میں، لیکن خواب سے آنکھیں آخرکار کھل جاتی ہیں، ان سب کی بھی آنکھیں کھلیں۔ کچھ کی کبھی نہ بند ہونے کے لیے اور کچھ کی اپنے پیاروں کی لہولہان لاشیں دیکھنے کے لیے، بچوں کی بھوک اور پیاس سہنے کے لیے ۔ کیمپ کی مشکل زندگی کاٹنے کے لیے اور اس آس میں رہنے کے لیے کہ اچھے دن دوبارہ آئیں گے۔ چٹاگانگ، نواکھالی، راج شاہی، رانگا ماٹی، حویلیاں، ڈھاکا اور پھر کھٹمنڈو اور بنکاک اور پھر پنجاب۔

1958ء میں لگنے والے مارشل لا نے مشرقی پاکستانیوں کو جس طرح مایوس کیا اور اگلے برسوں میں ان کے اندر جو جذبات پیدا ہوئے اس کی علامتی عکاسی الطاف فاطمہ نے یوں کی ہے:

’’اُس نے حکمرانوں کو چیلنج کیا اور قانون کا یہ نکتہ اُٹھایا کہ یہ حکومت غیر قانونی اور ناروا ہے، کہ حکمران عوام کے ادا کیے ہوئے ٹیکسوں کو اپنی ذاتی عشرتوں پر صرف کررہے ہیں۔ تب اس عالمِ کو ایک اندھے اور خشک کنویں میں قید کر دیا گیا۔ تب اس کے شاگردوں نے اس کے محافظوں سے درخواست کی کہ ہم میں سے ہر ایک کو تھوڑی تھوڑی دیر کنویں کی جگت پر بیٹھ کر اپنے استاد سے سوال کرنے کی اجازت دے دو۔‘‘ اور تم جانو کہ محافظ تو محافظ ہوتے ہیں۔ انھوں نے سوچا، کون سے ان کو اس کی آنکھیں یا لب نظر آئینگے۔ نظر سے نظر کے ملنے میں قباحت ہے، مگر آواز اور کان کے تعلق میں کیا قباحت ہے، چنانچہ آواز اور کان کا تعلق پیدا ہوگیا۔

’’ہر روز باری باری شاگرد کنویں کی جگت پر آبیٹھتے۔ ان کے ہاتھوں میں کاغذ اور قلم ہوتے۔ پھر وہ کنویں میں منہ ڈال کر چلا چلا کر سوال کرتے اور اس وقت کا عالم چیخ چیخ کر جواب دیتا رہتا۔ ’’یہ سلسلہ 14 سال تک جاری رہا۔ 14 سال تک انھوں نے بین الاقوامی قوانین کے متعلق سوال کیے اور پھر اپنے نکتۂ نظر سے ان کا موازنہ اور تجزیہ کیا اور اس طرح بین الاقوامی قوانین کے نئے تصور پر ایک کتاب 14 سال کے سوال و جواب پر مبنی تیار ہوئی۔ استاد کنویں کے اندر تھا، شاگرد کنویں کی جگت پر اور تصنیف کی خوشبو کھونٹ کھونٹ پھیلنے لگی‘‘۔

اسی خوشبو نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی۔

16 دسمبر ہم سے کہتا ہے کہ سچ کو کنویں میں قید نہ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے سچ نہیں چھپتا۔ افسوس کہ ہم نے اب تک اس سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔