وہ چور نہیں تھی

نسیم انجم  اتوار 18 دسمبر 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

اس نے کبھی چوری نہیں کی تھی، اچانک چوری کا الزام لگنے پر وہ تڑپ کر رہ گئی تھی، اس کا دل گھائل اور روح زخمی ہوگئی، اس نے بہت کوشش کی کہ اس کی پیشانی سے الزام کا سیاہ دھبا صاف کردیا جائے۔ اس کی بات کا یقین کیا جائے کہ وہ اور اس کا خاندان چور نہیں ہے۔ وہ اور اس کے اپنے لوگ محنت مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں، اگر انھیں حرام رزق حلق سے اتارنا ہوتا تو بہت سے ذرایع ہیں جہاں آسانی سے اور بہت کم وقت میں ضروریات زندگی حاصل کی جاسکتی ہیں، لیکن محنت کش طبقہ باضمیر اور عزت دار ہوتا ہے اپنی عزت کی حفاظت کے لیے جان قربان کردیتا ہے، جیسے ساجدہ نے خودکشی کرلی اور گلے میں پھندا لگا لیا۔

اس پر الزام تھا، چوری کا اور چوری بھی صرف 21 ہزارکی، یہ رقم آج کے زمانے میں بڑی حقیر سی ہے، کراچی کے کسی بھی شاپنگ سینٹر میں چلے جائیے ، دو چار جوڑے خریدنے میں 21 ہزارکی رقم بہت تیزی سے خرچ ہوجاتی ہے، اور بعض اوقات تو ایک جوڑا 21 ہزار سے لے کر 5 لاکھ اور 10 لاکھ تک کا فروخت ہوتا ہے اور خریدا بھی جاتا ہے۔

ہمارے یہاں نت نئے ڈیزائن کے کپڑے فروخت کرنے اورخریدنے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے، خواتین ہر تقریب میں ایک نیا جوڑا پہننا چاہتی ہیں، اسی طرح دوسری اشیا بھی مہنگی ترین ہو چکی ہیں ان حالات میں پوش علاقوں کے رہنے والوں کے لیے 21 ہزار کیا معنی رکھتے ہیں؟ لیکن ایک انسان کی جیتی جاگتی زندگی بہت معنی رکھتی ہے، نوجوانی کی عمر میں بہت سے شوق جنم لیتے ہیں، اچھا پہننا، اوڑھنا، کھانا پینا، سیر وتفریح کرنا ہر شخص کی خصوصاً عہد بلوغت میں داخل ہونے والوں کی شدید خواہش ہوتی ہے صاحب حیثیت گھرانوں کے بچے اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں لیکن غربت کی گود میں پلنے والے بچپن و لڑکپن کے خوبصورت، کھیل کود اور بے فکری کے زمانوں سے محروم ہوتے ہیں، یہ بے چارے تو اپنا بچپن سڑکوں اور روڈوں پر محنت مزدوری کرکے گزار دیتے ہیں۔

ہمارے ملک کے مقتدر حضرات کی طرح روپوں پیسوں میں ہیرا پھیری کرنا اور تعیشات زندگی کے لیے اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹنے کے فن سے ناواقف ہوتے ہیں اور اگر نفس گمراہی کی طرف راغب کردے اور ان کی اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پکڑ ہو جائے تب انھیں بڑی آسانی کے ساتھ سزا دے دی جاتی ہے لیکن اس غریب و بے سہارا شخص کے برعکس صاحب اقتدار و اختیار پر کوئی ہاتھ ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ قانون کے تقاضے دولت کی چمک میں ماند پڑ جاتے ہیں۔

وہ محنت کش لڑکی ساجدہ غیرت مند تھی۔ اس کی بات پر جب کسی نے یقین نہیں کیا تو اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی ان معصوم بچوں کی طرح جو چھوٹی بڑی باتوں پر دل برداشتہ ہوکر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹی وی کے مختلف چینلز پر خودکشی کرنے کے نقصانات اور عذاب الٰہی کی طرف آگاہی دلائی جائے تو یقینی بات ہے خودکشی کے واقعات میں کمی واقع ہو اور اب ان اداروں کو متعارف کرانا ناگزیر ہوگیا ہے، جو حقیقتاً بقائے انسانی کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ یہ مسائل میں گھرے، پریشان لوگ بروقت ان سے مدد لے سکیں۔ لیکن ٹی وی کے تقریباً ہر چینل پر نیم عریاں لباس میں ملبوس کرداروں کو بذریعہ ڈراما اور فن موسیقی متعارف کرایا جاتا ہے، تعلیمی درسگاہوں کا بھی حال ابتر ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ظالم کی رسی دراز ہوگئی ہے۔

ساجدہ کی خودکشی پہلی نہیں ہے، آئے دن اس طرح کی خبریں میڈیا و اخبارات کی زینت بنتی ہیں ، دو چار روز کی ہی بات ہے جب سمیعہ چوہدری کی لاش ایک ایم این اے کے کمرے سے برآمد ہوئی، طرح طرح کی قیاس آرائیاں بھی سامنے آئیں ۔ عموماً والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سے اولاد بھی دل برداشتہ ہوکر خودکشی کرلیتی ہے، لیکن جنھیں چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جانا چاہیے وہ خودکشی پر آسائشوں بھری زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں حکومت ان کی ہے، قانون ان کا اور ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، اور اس کی ہر چیز پر قابض ہوکر نہ کہ لوٹ مارکی جاتی ہے بلکہ خون کی ہولی بھی کھیلی جاتی ہے اور جہاں قانون نے حرکت کی وہاں انھوں نے دبئی کا ٹکٹ کٹا لیا، عبرت پکڑنے کی جگہ دھڑلے سے آئندہ کے الیکشن لڑنے کی بات کرتے ہیں۔

افسوس کہ ایسے لوگوں کی کوئی پکڑ نہیں، ہمارے ملک کے مقتدر حضرات اپنی اپنی باریاں لیتے اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور پھر فرار ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے ہی دوست احباب ٹی وی کے مختلف چینلز پر آکر ان کے سیاہ کرتوتوں کا ذکر ببانگ دہل کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ناانصافی، کرپشن، دہشت گردی اور ناخواندگی انھی کی دین ہے، خودکشی کرنے یا خودکشی کا رنگ دینے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے۔

تعلیم کو محدود طبقوں میں قید کردیا گیا ہے، آج بے شمار بچے بھیک مانگنے یا محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، والدین غربت کے باعث اپنے بچوں کو گھروں میں کام کرنے کے لیے مستقل طور پر چھوڑ دیتے ہیں اور یہ کم ظرف نو دولتیے اپنے ملازمین پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں۔ بات بات پر تشدد کرتے ہیں، ان بچوں کو اس قدر مارا جاتا ہے کہ ان کے جسم کے اعضا متاثر ہوجاتے ہیں اور اکثر اوقات تو یہ بے بس و بے کس جان سے چلے جاتے ہیں، ساجدہ کے ساتھ بھی ایسے ہی ظلم وستم کو دہرایا گیا اور ہر روز بے شمارگھرانوں میں یہ کہانی جنم لیتی ہے اور بہت جلد انجام کو پہنچتی ہے

۔ ان حالات میں ملک کے کسی بھی شخص یا حکومت اور حکومتی اداروں کو رحم نہیں آتا ہے کہ وہ قاتلوں کوگرفتارکریں اور قرار واقعی سزا دیں اور بچوں کے کام کاج کرنے پر پابندی لگائیں اور والدین کو گرفتارکرنے کا قانون نافذ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا بن چکا ہے۔

محنت کش بچوں کے لیے مفت تعلیم فراہم کرنے کے لیے اسکولوں سے مویشیوں اور غیر ضروری سامان کو نکال باہرکریں۔ اندرون سندھ کے اسکول ہوں یا پنجاب کے دیہاتوں کے ایک ہی سی صورتحال ہے۔ پچھلے دنوں ایک ایسا اسکول ٹی وی کے اینکر پرسن نے متعارف کرایا جو قبرستان میں واقع تھا، چاروں طرف چھوٹی بڑی قبریں تھیں اور ان قبروں کے درمیان چلنے کی جگہ بھی نہ تھی یہ تو طالب علموں کا علم حاصل کرنے کا جذبہ تھا جو وہ اس ویرانے میں کاندھوں پر بستر لٹکائے جوق در جوق روشنی کی لکیر کی طرح بڑھتے چلے آتے ہیں، آفرین ہے ان اساتذہ پر جو ملک و وطن کی خدمت بڑی خاموشی سے خاموش کالونی میں انجام دے رہے ہیں۔

اختتامی سطور میں ساجدہ کی مختصر ترین کہانی کہ وہ ڈیفنس کے ایک بنگلے میں ملازم تھی اس کی بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا لہٰذا اس نے پولیس کے ہاتھوں مارپیٹ اور بے عزتی سے بچنے کے لیے موت کو گلے لگا لیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔