Labour of Love

شیریں حیدر  اتوار 18 دسمبر 2016
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میں ایک ایک ٹانکہ بنتے ہوئے، اس سویٹر کی ایک لائن کو پہلی سلائی سے دوسری سلائی پر منتقل کرتی، اسے مکمل کر کے اسے واپس موڑ کر اپنے سامنے کرتی، اسے تھوڑا سا بڑھا ہوا دیکھ کر خوش ہوتی، اسے ہاتھ لگا کر اس کے نرم لمس سے لطف اندوز ہوتی اور اگلی سلائی بننا شروع کر دیتی، میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس عمل کو میرے علاوہ بھی کوئی دیکھ رہا ہے اور اس سے محظوظ ہو رہا ہے… ’’ کس کا سویٹر بن رہی ہو تم پیاری؟ ‘‘ میرے سامنے بیٹھی خاتون نے مجھ سے انگریزی میں سوال کیا۔ ’’اپنی بہن کے بیٹے کا!‘‘ میں نے مختصراً اسے بتایا، ’’وہ پاکستان میں ہے، اسے بھجواؤں گی‘‘ …’’ بہن کے بیٹے کا؟ جس پیار سے تم اسے بن رہی ہو میں سمجھی کہ تمہارے اپنے بچے کا ہو گا… یہ سویٹر تم اسے مفت میں دو گی یا کہ اس نے تم سے خریدنا ہے؟ ‘‘ اس کے سوال پر میرا منہ حیرت سے کھل گیا۔’’یہ میں اسے یقینا تحفے میں دوں گی… بہن کا بیٹا بھی تو میرے بیٹے جیسا ہی ہے نا ، تحفے کا بھی کوئی عوضانہ ہوتا ہے بھلا اور پھر بہن بھائیوں سے بھی کوئی یوں کچھ بنا کر دینے کے پیسے وصول کرتا ہے؟ ‘‘ میں نے اسے جواب بھی دیا اور اگلے حصے میں اپنی حیرت کو سوال بنا کر شامل کر دیا ۔

’’ باقی سب کا تو مجھے علم نہیں… مگر میں یہ جانتی ہوں کہ ہمارے ہاں اپنے ہاتھ سے بن کر دیا ہوا تحفہ… تحفوں میں سب سے بہترین شمار ہوتا ہے ، اس تحفے کے ایک ایک ملی میٹر کو بنتے ہوئے آپ کا ہاتھ ، نظر اور محبت اس کے ساتھ ساتھ گندھتی ہے، میں ابھی دیکھ رہی تھی کہ اس کی ہر سلائی کے بعد تم اسے دیکھتی ہو تو تمہارے چہرے پر ایک لو نظر آتی ہے، تم چشم تصور سے اس بچے کودیکھتی ہو جسے یہ سویٹر پہننا ہے ، یہی سب سے بڑا اور خوب صورت احساس ہے!! ‘‘

میں اس روز ٹرین سے سینٹرل لندن سے Slough جا رہی تھی تو اپنا بنائی کا تھیلا ساتھ رکھ لیا کہ ایک گھنٹہ فارغ بیٹھنے کے بجائے سویٹر کا کچھ حصہ بن لوں گی، معمول میں تو ہم بھی انگریزوں کی طرح اپنے پاس ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب بیگ میں رکھتے تھے جو کہ اس وقت بھی تھی کہ ان کے ہاں وقت کا کوئی لمحہ ضایع کرنے کا رواج نہ تھا، وہ ہر لمحے سے فائدہ اٹھاتے تھے کہ ان کے ہاں اس وقت زندگی تیز رفتار تھی۔

میں نے اس روز اس کی باتیں سن کر سوچا کہ شکر ہے وقت کی ایسی تیز رفتاری اور ایسی مادہ پرستی والی سوچ کا ہمارے معاشرے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، ہمیں اقدار کا علم ہے، ہم میں محبت ہے، رشتوں کی پہچان ہے اور محبت ہر چیز سے اہم ہے-آج اس واقعے کے فقط اٹھارہ برس کے بعد… میں افسوس سے سوچتی ہوں کہ ہمارے ہاں مغربی معاشرے کے منفی اثرات اور سوچیں اتنی تیزی سے در کر آئی ہیں کہ انھوں نے ہماری اپنی اقدار پر جھاڑو پھیر دیا ہے۔ جو عادات، اطوار اور محبت ہمارے معاشرے کا حسن تھیں، ان کی جگہ مادہ پرستی اور خود غرضی نے لے لی ہے، ہم نے ان اپنی صلاحیتوں کو بھی دوسروں کی فلاح کے لیے استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے جو ہمارے لیے عطیۂ خداوندی ہیں۔ ایک انسان کے پاس اس کی صلاحیتیں ہی تو ایسی چیز ہیں جن کے باعث وہ دوسروں کو فائدہ دیتا ہے، ان کے دل جیتتا ہے، یا ان کی ضروریات پوری کرتا ہے۔

’’ میں یا اپنی دکان سے اپنے ابا کو بھی سودا مفت میں نہیں دیتا! ‘‘…’’ میں معاوضہ لے کر پینٹنگ اپنے دوستوں اور اہل خاندان کو بنا کر دیتا ہوں … ‘‘

’’ میں کمپیوٹر کا استعمال اپنے بزرگوں کو سکھاتا ہوں تا کہ وہ نئی ٹیکنالوجی سے آگاہ ہوں اور ان کا رابطہ نئی نسل سے بہتر ہو سکے، ہاں مگر میں اس کام کا معمولی سا عوضانہ بھی لیتا ہوں !! ‘‘ …’’ میں شام کو اپنی نندوں اور دیوروں جیٹھوں کے بچوں کو انگریزی اور سائنس پڑھاتی ہوں … آف کورس میں مفت میں یہ کام نہیں کر سکتی، میرے ماں باپ نے مجھ پر رقم خرچ کر کے مجھے پڑھایاہے اور میں دوسروں پر مفت میں اپنا وقت برباد نہیں کر سکتی!! ‘‘

’’ ہاں مجھے کپڑوں کی سلائی کرنا آتی ہے مگر میں نے اپنی سسرال میں کسی کو نہیں بتایا تا کہ وہ لوگ مفت میں مجھ سے کپڑے نہ سلوانا شروع کر دیں!!‘‘ …’’ میں دن کو اپنی دکان پر کمپیوٹر کی مرمت کا کام کرتا ہوں اور شام میں اپنے دوستوں اور خاندان کے لوگوں کے کمپیوٹرز کے مسائل حل کرتا ہوں … ظاہر ہے کہ اس پر میری محنت لگتی ہے ، میں ان سے بھی رقم لیتا ہوں !! ‘‘

’’ ڈاکٹر ہوں … ساری دنیا کے علاج کے پیسے لیتا ہوں تو خاندان اس سے مستثنی تھوڑا ہی ہو سکتا ہے، ان پر بھی میری اتنی ہی محنت لگتی ہے… وہ اگر مجھے رقم نہیں دیتے تو کسی اور سے علاج کروا لیں!!‘‘

آج کل ایسے فقرے میں اپنے ارد گرد کثرت سے سنتی اور سر دھنتی ہوں … ایسی خود غرضی، لاتعلقی، بے مروتی و بے اعتنائی، بد لحاظی، لالچ اوربے حسی کا اس معاشرت کا حصہ بن جانا ہماری بد قسمتی ہے۔ ہم نے مغربی معاشرے کے منفی اثرات کو خود پر جتنی رفتار سے طاری کیا ہے کاش اس سے ذرا سا بے شک کم مگر ان کی مثبت عادات کو بھی اپنی معاشرت کا حصہ بننے دیتے۔ہمارے پاس جو کچھ ہے، اسے ہم نے اپنے پاس سمیٹ رکھا ہے، اسے دوسروں پر خرچ کر دینا اس کا زیاں سمجھتے ہیں خواہ وہ وقت ہو، مسکراہٹ، احساس، محبت یا صرف محبت کی ایک نظر… ان پر ہمارا کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا مگر پھر بھی ہم کسی کو ان میں حصہ دار نہیں بنانا چاہتے۔

مسکراہٹ تو چھوت کی بیماری کی طرح ہے، آپ مسکراتے ہیں تو ارد گرد کے لوگ بھی مسکرا اٹھتے ہیں، آپ کسی کا ذرا سا احساس کرتے ہیں تو اس کا دل جیت لیتے ہیں ، محبت کو جتنا تقسیم کرو اسے دوسرے اتنا ہی ضرب کے عمل سے گزار کر آپ کو لوٹا دیتے ہیں اور محبت کی ایک نظر دینے میں تو اور بھی کچھ خرچ نہیں ہوتا، صرف دل کو صاف کرنے اور انسان کو انسان سمجھنے کی ضرورت ہے۔

جس باپ نے تمہیں پڑھا لکھا کر، پال پوس کر اس قابل بنایا کہ تم اپنی دکان چلا سکو تو اس سے تو کاروباری انداز کا برتاؤ نہ کرو، تم ڈاکٹر ہو، انجینئر، سائنس دان یا مکینک، آرکیٹیکٹ ، نرس، ڈیزائنر، یا کلرک، ڈرائیور، مستری، رنگ ساز ہو یا کچھ بھی اور… کام کے وقت کام کرو اور جب کام سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے جامے میں آ جاؤ اور اپنوں میں اپنی قابلیت کو مفت میں بانٹو، تمہارے پاس ہنر، سلیقہ، گر، قابلیت یا کوئی علم ہے تو اس سے اپنوں میں کاروبار نہیں بلکہ تحفے بانٹو۔ کسی کو کچھ دینا ہے تو اپنا وقت دو، اپنی صلاحیتوں سے انھیں مشورے دو، جو ٹیلنٹ تمہارے پاس ہے، خداداد یا پڑھ لکھ کر سیکھا ہوا ، اس سے اپنوں کو مستفید کرو، اب یہی کچھ رہ گیا ہے جو ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں۔

ہم کسی کو اپنی دولت میں سے کچھ دیتے ہوئے تو سوچ سوچ کر ’’ رہ ‘‘ جاتے ہیں مگر جو ہنر ہمارے پاس ہے اس پر سوچنا موقوف کر دیں، ڈاکٹر ہیں توکسی کی بیماری کی تفصیل سن کر انھیں کوئی دوا بتا دیں، اس میں آپ کا کیا جائے گا؟ اسی طرح جو ٹیلنٹ کچھ آپ کے پاس ہے اسے پھیلائیں، اگر آپ کو سلائی کڑھائی آتی ہے تو اسے خود اپنی ذات کے لیے کر کے اپنا ہنر اپنے ساتھ لے کر مر نہ جائیں بلکہ خاندان میں ، دوست احباب میں بچوں کو اس ہنر سے روشناس کریں۔

ہمارے ہاں تو خواتین میں سے کسی کو آج کل اگر اچھاکھانا پکانا آتا ہے تو وہ بھی ان کا ٹیلنٹ ہے جو نئی نسل سے مفقود ہو رہا ہے اس لیے کہ اس ٹیلنٹ کو کسی نے اگلی نسل میںبعینہ منتقل نہیں کیا… کسی سے کسی کھانے کی ترکیب پوچھ لو تو وہ مارے باندھے بتا تو دے گی مگر بلی کے درخت پر چڑھنے کے گر کی طرح ایک نہ ایک tip چھپا جائے گی تاکہ لوگ کہیں بھابی جیسا کھانا کوئی اور نہیں بنا سکتا!! گھر کے بچوں کو ٹیوشن پڑھائیں تو ان کا بھی فائدہ ہے، آپسیں محبت بڑھتی ہے اور بچے استاد ہونے کی حیثیت سے آپ کا اور بھی احترام کریں گے اور ان کے والدین آپ کے جذبے کی وجہ سے آپ کے قدر دان ہوں گے۔ ہم دوسروں سے مستقل ربط اسی صورت رکھ سکتے ہیں کہ ان کے مفادات ہم سے وابستہ ہوں یا کم از کم انھیں ہمارے ہونے سے کوئی فائدہ ہوتا ہو۔

دوسروں کو اہمیت، فائدہ اور وقت دیں، یہ وہ وصف ہے جو ہمیں اپنی اگلی نسل کو منتقل کرنا ہے اگر ہم اس میں کامیاب نہ ہوئے تو ہماری اگلی نسل اپنے سرد رویے، مادہ پرستی، لالچ، بے حسی اور لاپروائی کی وجہ سے ایسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی جس کا اندازہ ہمیں یہاں آج نہیں ہو رہا… کیونکہ ہم میں سے بہتوں نے مغرب کی چکا چوند کو تو دیکھا ہے مگر اس رخ کو نہیں دیکھا جہاں اندھیرا ہے، تنہائی ہے، پچھتاوے ہیں اور اولڈ ہومز میں بیٹھے بڈھے ہر روز شام کو ایک سرد آہ بھرتے ہیں اور خود سے سوال کرتے ہیں کہ جانے ان پر سے تنہائی کا یہ عذاب کب ٹلے گا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔