ہر حادثہ خیال کو گہرائی دے گیا

شاہد سردار  اتوار 18 دسمبر 2016

ملکی منظر نامے پر پے درپے رونما ہونے والے دو المناک سانحات نے وطن عزیزکو سوگ میں ڈبو دیا ہے اور ان کی زد میں آجانے والوں کے لواحقین پر قیامت صغریٰ توڑ دی ہے۔ کراچی کے ایک بڑے اور معروف ہوٹل میں آتشزدگی سے ڈاکٹروں، کھلاڑیوں اورغیر ملکی مہمانوں سمیت تقریباً دو درجن قیمتی جانوں کا نقصان اور سو سے زائد کا زخمی ہوجانا بلاشبہ ایک الم انگیز سانحہ ہے۔

دستیاب معلومات کے مطابق آگ ہوٹل کے کچن میں لگی جس کا دھواں ایئرکنڈیشننگ کے نظام کے ذریعے رہائشی کمروں تک جا پہنچا اور لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، اگر اے سی سسٹم بروقت بند کردیا جاتا تو کوئی ایک شخص بھی زندگی سے محروم نہ ہوتا۔ قرین قیاس یہ بھی ہے کہ ہنگامی راستے موجود تھے مگر انتظامیہ لوگوں کی مناسب رہنمائی میں ناکام رہی۔ اس طرح فی الحقیقت کچن میں آگ لگنے کا ایک معمولی واقعہ بدانتظامی کے باعث بڑا سانحہ بن گیا۔ اس واقعے کا ایک افسوسناک پہلو اور بھی سامنے آیا کہ بے حس شاطر اور موقع پرست عناصر نے اس قیامت کے برپا ہونے سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل میں مقیم لوگوں کی قیمت اشیا ہتھیانے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔

چترال سے اسلام آباد جانے والی قومی ایئرلائن کے طیارے کے حادثے میں 50 کے لگ بھگ افراد کے نذر اجل ہونے کا واقعہ بھی پاکستانی قوم کے لیے صدمے اور افسوس کا سبب بنا ہے۔ یہ حادثہ جو پاکستان کی تاریخ کے 12 بڑے فضائی حادثوں میں اضافہ کہا جاسکتا ہے اور یہ حادثہ اتفاق سے 7 دسمبر کو اس دن پیش آیا جب ’’یوم ہوا بازی‘‘ کے دن کے حوالے سے دنیا بھر میں یہ دن منایا جا رہا تھا، یوں اب اس واقعے کو عالمی طور پر بھی یاد رکھا جائے گا۔

رونما ہونے والے اس فضائی حادثے میں عملے کے ارکان اور مسافروں سمیت جہاز پر سوار تمام کے تمام افراد اپنی ابدی منزل کی طرف روانہ ہوگئے ان میں اپنے کام اور خدمات کی نوعیت کے حوالے سے معروف ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جن کی جدائی سے ملک و قوم کے لیے پیدا ہونے والا خلا ہم وطنوں کی بڑی تعداد کو طویل عرصے تک محسوس ہوتا رہے گا۔ ان میں سابق پاپ سنگر اور مبلغ جنید جمشید، ان کی تیسری اہلیہ، ڈی سی او چترال اور چترال کے شاہی خاندان کے شہزادے اور بعض سماجی اداروں کے کارکن اور کئی غیر ملکی شخصیات شامل تھیں۔

اس بدقسمت طیارے میں سوار سبھی افراد اپنے اپنے پیاروں کے بہت پیارے اور مقدم تھے تاہم ان میں سے جنید جمشید متحرک مبلغ اورکامیاب بزنس مین بننے سے پہلے پاکستانی پاپ موسیقی کا ایسا روشن ستارہ تھے جس کی چمک دمک ملک کے کونے کونے میں پہنچی ہوئی تھی۔ انھوں نے موسیقی کی چکا چوند دنیا سے اسلام کی تبلیغ تک کا سفرکیا اور یہ دونوں پہلو متضاد تو ہیں لیکن یہی دونوں پہلو ان کی زندگی کے دو رخ کہے جاسکتے ہیں۔ جنید جمشید ایک معروف برانڈ کے بھی مالک تھے اور تبلیغی جماعت کے ساتھ ملک اور دنیا بھر میں تبلیغ کے لیے جایا کرتے تھے اور چترال کا دورہ بھی ان کا اسی مقصد کے تحت تھا۔

بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) دنیا کی بہترین ایئرلائن میں شمار قطارکی جاتی تھی لیکن گزشتہ ایک دہائی سے یہ زوال اور تنزلی کا شکار چلی آرہی ہے اور اس کی نجکاری کی خبریں گردش کر رہی ہیں اور یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ یہ پی آئی اے دنیا کی دیگر فضائی کمپنیوں کی طرح اپنے قیام کے بعد سے اب تک کئی بڑے حادثات کا شکار ہوئی ہے اور پچھلے پچاس سالوں میں پی آئی اے طیاروں کے 15 بڑے حادثات ہوئے ہیں جس میں سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے لیکن آج تک کوئی انکوائری رپورٹ نہیں پڑھی گئی جس میں کسی طیارے کے حادثے کی واضح وجوہات بتائی گئی ہوں؟

پاکستان میں قومی ایئرلائن کے طیاروں کی پرواز سے قبل ان کی فٹنس کی جانچ پڑتال کا جو طریق کار بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی موجودگی میں یہ توقع نہیں کی جاتی کہ چترال میں پرواز شروع کرنے سے پہلے ایک انجن کی خرابی کی صورت میں اس جہاز کو پرواز کی اجازت دی جاسکتی تھی تاہم اس بات میں بعض حلقوں کی طرف سے جن شکوک کا اظہار کیا گیا ہے ان کی سنجیدگی اور باریک بینی سے تحقیق بہرطورکی جانی چاہیے۔

ترقی یافتہ ممالک میں کمرشل طیاروں کے حادثات کی تحقیقات کرنے والے برسوں کا تجربہ رکھتے ہیں اور مختلف اقسام کے طیاروں کے ماہرین الگ الگ ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں فضائی حادثات کی تحقیقات میں حکومتی مشینری کا عمل دخل بہت ہوتا ہے، تحقیقاتی رپورٹ میں عموماً حادثے کی ذمے داری پائلٹ پر عائد کردی جاتی ہے جوکہ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کے لیے موجود نہیں ہوتا۔

چند سال پہلے بھی ملتان کے قرب و جوار میں فوکر طیارے کا حادثہ پیش آیا تھا اور اب چترال میں ہونے والا یہ حادثہ فضائی سفر کی سلامتی کے بارے میں سو سو سوالات اٹھائے ہوئے ہے اور یہ سانحہ یہ احساس بھی دلا رہا ہے کہ ہماری انتظامی اور فنی صلاحیتیں تشویشناک حد تک مفلوج ہوتی جا رہی ہیں اور ایک خوفناک اخلاقی بحران سر اٹھا رہا ہے۔ اس حادثے کے بعد سول ایوی ایشن کی جانب سے ہوائی جہاز کے سفر کو محفوظ بنانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور یہ کہ یہ حادثہ اس امر کی طرف بھی واضح اشارہ کر رہا ہے کہ پی آئی اے کے معاملات زوال پذیر ہیں ، فرائض سے غفلت سبھی اداروں میں برتی جا رہی ہے بلکہ یہ ہماری رگ و پے میں اترتی جا رہی ہے۔

اس بات میں کوئی باک نہیں کہ حادثات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم حادثات سے سبق سیکھ کر مستقل بنیادوں پر اصلاحات نہیں کرتے۔ ہر سانحے کے بعد چند روز شور و غوغا ہوتا ہے لیکن کوئی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آتی ہے نہ آئندہ بچاؤ کے لیے پائیدار اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف اپنے حقوق کا مطالبہ اور دوسروں پر الزام تراشی کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ مثبت ذہن کے ساتھ سوچ بچار سے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں جب کہ ہم سبھی نے بحیثیت قوم منفی سوچ کی روش اپنا رکھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ایک دوسرے پر الزام لگانے کا چلن عام ہے۔ ہر شخص حقوق کی بات کرتا ہے لیکن اپنی ذمے داریاں اور فرائض نبھانے کو تیار نہیں۔ بے بنیاد اور بے ثبوت الزام تراشی، ایک دوسرے پر ہر معاملے میں شکوک و شبہات آج ہمارے قومی کلچر کا جزو اعظم ہے۔ اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی سے انحراف، دوسروں پر الزامات اور اپنی حق تلفی کا شکوہ معاشرے کے تمام طبقات میں عام ہے۔ افراد ہی نہیں ریاستی ادارے بھی اس مرض کا شکار نظر آتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں بے اعتمادی اور مایوسی بڑھ رہی ہے جو ترقی کے سفر کے لیے زہر قاتل ہے۔ اپنے فرائض سے غفلت، دوسروں کو قصور وار ٹھہرانے اور صرف اپنے مفاد کی بات کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں، قومی نفسیات میں ناامیدی کا زہر گھل جاتا ہے اور ترقی کے بجائے زوال اور انحطاط ایسے معاشروں کا مقدر بن جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔