کرپشن کے خاتمے کے لیے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 19 دسمبر 2016
’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں متعلقہ حکومتی اداروں و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فوٹو: فائل

’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں متعلقہ حکومتی اداروں و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فوٹو: فائل

کرپشن کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے اور اگر یہ کسی معاشرے میں پھیل جائے تو وہ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے کرپشن اس وقت دنیا بھر میں موجود ہے جبکہ عالمی رپورٹس کے مطابق ہمارے ملک کا شمار بھی کرپشن زدہ ممالک میں ہوتا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔

اگرچہ حکومتی سطح پر کرپشن کو روکنے کے لیے مختلف ادارے کام کررہے ہیں، لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی بھی دی جارہی ہے مگر تاحال اس پر قابو نہیں پایا جاسکا۔کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر میں9دسمبرکو ’’عالمی یوم انسداد رشوت ستانی‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے  ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں متعلقہ حکومتی اداروں و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

بریگیڈیئر (ر)مظفر علی رانجھا ( ڈی جی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ)

آج معاشرہ، میڈیا اور ادارے ماضی کی نسبت موبلائز ہیں جبکہ بین الاقوامی فضا میں بھی کرپشن کے خاتمے کی آواز بلند ہوچکی ہے۔ہم نے اپنی قوم کا معیار بہت بلند کردیا ہے کہ ہم کرپشن ختم کردیں گے حالانکہ دنیا سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی لیکن اسے کم سے کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ مایوسی پھیلانا غلط ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہر شعبے میں ترقی کررہا ہے۔ ہمارے اداروں کے نظام میں ماضی کی نسبت بہت بہتری آچکی ہے۔ نیب ،ایف آئی اے، لینڈ ریونیو سمیت دیگر ادارے بہتر کام کررہے ہیں جبکہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ بھی اب کافی مضبوط ہوچکا ہے اور مزید بہتری کی طرف جارہا ہے۔

محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کا 90 فیصد ڈیٹا ڈیجیٹل کردیا گیا ہے۔ہم نے لاء، آئی ٹی اور انوسٹی گیشن کا تمام سٹاف مکمل کرلیا ہے۔ ہم اپنے سٹاف کی پولیس کے ساتھ ٹریننگ کروا رہے ہیں، ان کی ریونیوڈیپارٹمنٹ کے ساتھ بھی ٹریننگ ہوگی اور بعد ازاں انہیں تربیت کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے گا۔ برطانیہ کا اینٹی کرپشن کا نظام بہتر ہے، ہمارے قوانین بھی برطانیہ سے کافی ملتے ہیں اس لیے سٹاف کی ٹریننگ کے حوالے سے برٹش ایمبیسی کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔پنجاب اینٹی کرپشن ایکٹ2017ء کا مسودہ تیار کیا جاچکا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے محکمہ اینٹی کرپشن کو ایک نیا ویژن دیا ہے، اب اسے اینٹی کرپشن ایجنسی بنایا جارہا ہے جو خود مختار اور آزاد ہوگی۔ اس حوالے سے کمیٹی بنا دی گئی ہے، دسمبر کے آخری ہفتے میں یہ مسودہ پیش کیا جائے گا اور پھراس حوالے سے قانون سازی کی جائے گی۔ بعض کیسوں میں نیب کے ساتھ ہمارا کلیش ہوتا تھا لیکن اب ہم نیب کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، جس کیس میں نیب زیادہ کام کرچکا ہے وہ کیس نیب دیکھتا ہے جبکہ جس میں ہم کام زیادہ کرچکے ہیں وہ کیس ہم ڈیل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے دونوں محکمے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تاکہ وقت ضائع نہ ہو اور دونوں ایک ہی کیس کے بجائے مختلف کیسوں کی تفتیش کریں۔

یورپی یونین کے سٹینڈرڈز کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب سب سے بہتر ہیں۔ ان سٹینڈرڈز میں ڈیٹا منیجمنٹ ٹرانسپرنسی، ٹریننگ اور کپیسٹی بلڈنگ شامل ہیں۔ ہم اپنے آزاد ’’سیٹ اپ‘‘ بنا رہے ہیں جن کے اندر رہائش، دفتر ، تھانے قائم ہوں گے، ان کے اندر ہی تفتیش ہوگی اور ممکن ہے کہ اینٹی کرپشن کی عدالتیں بھی اس کے ساتھ ہی قائم ہوں۔ میں پاکستان خاص کر پنجاب کے لوگوں کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا پہلا ’’سیٹ اپ‘‘ مارچ 2017ء میں سرگودھا میں قائم ہوگا۔ دوسرے سینٹر کے لیے بجٹ مل گیا جو ساہیوال میں قائم کیا جائے گا جبکہ تیسرے کے لیے ڈی جی خان میں زمین ہمیں مل چکی ہے اور چوتھا سینٹر لاہور میں قائم کیا جائے گا۔

کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے سیاسی طور پر اور ادارے کی سطح پر ہماری سمت درست ہے، سیاسی سطح پر ایسی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں جن سے کرپشن کی روک تھام ہوسکے ۔ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو ایجنسی بنانے کی پالیسی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ یہ ادارہ آزاد اور خودمختار ہو اور لوگوںکو اس سے ریلیف مل سکے۔ ہم عوامی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کررہے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ عوام ہمارے سے ایکشن چاہتے ہیں اور اسی لیے ہم ہر سطح پر کارروائی کررہے ہیں۔ محکمہ مکمل آزاد ہے اور آج تک مجھے کسی نے کوئی سفارش نہیں کی اور نہ ہی کسی کیس کی تفتیش سے روکا گیا۔

خیبر پختونخوا، سندھ اور آزاد جموں و کشمیرکے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹس نے ہمارے ساتھ رابطہ کیا ہے اور اب ہم ان کی کپیسٹی بہتر بنا رہے ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ محکمہ کام نہیں کررہا ہے بلکہ ہم اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کررہے ہیں۔ ہم ادارے کو موبیلٹی کی طرف لے جارہے ہیں۔ ادارے کے لیے 40 گاڑیاں، انفراسٹرکچر میں بہتری کے ساتھ ساتھ ورکرز کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ ہمارے ادارے میں نچلی سطح سے لیکر اعلیٰ افسران تک تمام بھرتیاں میرٹ پر ہورہی ہیں اور اس کے لیے پبلک سروس کمیشن کا طریقہ کار ہے۔ کسی بھی بھرتی میں میرا یا کسی دوسرے افسر کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔

محکمہ کی بہتری کے لیے مانیٹرنگ سسٹم بھی بنایا جارہا ہے تاکہ معاملات بہتر بنائے جاسکیں اور اگر ہمارے لوگ بھی کرپشن یا کسی غلط کام میں ملوث ہوں تو ان کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ اس کے لیے انٹیلی جنس، سرویلنس اور ڈیٹیکشن ڈیپارٹمنٹ لارہے ہیں جس کی منظوری ہوچکی ہے۔ اس میں سپیشل برانچ، انٹیلی جنس افسر و دیگر لوگ لائے جائیں گے جو اپنے لوگوں پر نظر رکھیں گے اور ان کے خلاف شواہد بھی اکٹھے کریں گے۔ عدلیہ کے ساتھ بھی معاملات بہتر بنائے جارہے ہیں تاکہ سزا کا عمل یقینی بنایا جاسکے اور لوگوں کو بروقت انصاف مل سکے۔

محکمہ کے مینڈیٹ کے مطابق تمام اداروں کے بڑے ،چھوٹے کرپٹ افسران کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جارہی ہے۔ اس وقت 22گریڈ تک کے افسران کے خلاف تفتیش جاری ہے اور ان میں سے کچھ کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے، ان کی جائیداد و دیگر چیزیں قبضے میں لی جاچکی ہیں جبکہ گزشتہ دنوں عدالت نے بعض مجرموں کو 5سے 20سال تک کی سزا بھی سنائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسز کی بہتر انداز میں انوسٹی گیشن ہورہی ہے۔

پاکستان ایک بہترین ملک ہے، ہم نے آزادی سے لے کر اب تک بے شمار کام کیے ہیں، ادارے بنائیں ہیں، قانون سازی کی ہے اور وہ سب کچھ کیا ہے جو ایک قوم اپنے ابتدائی مراحل میں کرتی ہے۔ ہم بہتری کی طرف جارہے لہٰذا ابھی خود کا کسی ترقی یافتہ ملک کے ساتھ موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ ہمیں انقلاب کے بجائے ارتقاء کی پالیسی پر چلنا چاہیے، کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بہتر ہوتی ہیں۔ اگر ہم صحیح نیت اور جذبے کے ساتھ اسی طرح کام کرتے رہے تو وہ وقت دور نہیں ہے جب یہاں تمام حالات بہتر ہوجائیں گے، کرپشن بھی نہ ہونے کے برابر ہوگی اور ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوں گے۔

چودھری خلیق الزمان ( ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب)

کرپشن ایک عالمی مسئلہ ہے۔ 2003ء میں بین الاقوامی سطح پر یہ تسلیم کیا گیا کہ کرپشن ایک خطرناک چیز ہے اور پھر اس کے خاتمے کے حوالے سے پوری دنیا نے معاہدہ کیا۔ اس سے بہت پہلے دین اسلام نے رشوت کے حوالے سے سخت وعید سنائی۔ قائد اعظم نے بھی رشوت کو روکنے کی بات کی لہٰذا یہ دیرینہ مسئلہ ہے جس کے خاتمے میں وقت لگے گا۔ نیب کی پالیسی تین طرفہ ہے۔ ہم سب سے پہلے لوگوں میں آگاہی پیدا کررہے ہیں تاکہ کرپشن کے بارے میں نفرت پیدا کی جائے۔ ہم پرائمری سکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح کے طلباء کو آن بورڈ لے رہے، ان کی تربیت کی جارہی ہے جبکہ اس وقت 2لاکھ طلباء ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔

دوسرا یہ کہ ہم کرپشن کو روکنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ تیسرا یہ کہ جو قانون توڑتا ہے یا کرپشن کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔نیب تمام بڑے ، چھوٹے کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ رواں سال مجرموں کو سزا کی شرح 93 فیصد ہے جو کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ بعض جگہ وسائل کی کمی کی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے لیکن ہم اچھی تفتیش اور ثبوت کے ساتھ عدالت میں جارہے ہیں تاکہ مجرم سزا سے نہ بچ سکیں۔ اگر کیس کی تفتیش ٹھیک ہو، مواد قانون کے مطابق اکٹھا کیا جائے اور پھر اسے عدالت میں پیش کیا جائے تو مجرم سزا سے نہیں بچ سکتا۔

تعلیم بنیادی چیز ہے، جب تک لوگوں کو تعلیم نہیں دی جائے گی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یورپی ممالک میں سکاٹ لینڈ یارڈ و دیگر ایجنسیوں کی کارروائیوں میں کئی سال لگتے ہیں لیکن ان پر تنقید نہیں کی جاتی۔ ہر کیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اور اس کے حوالے سے شواہد اکٹھے کرنے اور پھر عدالت میں کیس چلانے میں وقت لگتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ محکمہ کام نہیں کررہا۔کرپشن کے خاتمے کے لیے نیب پوری تندہی اور یکسوئی کے ساتھ کام کررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری کارکردگی کی شرح بہت بہتر ہے۔

رواں سال ہم نے 2بلین روپے مختلف افسران سے ریکور کیے ہیں، اس کے علاوہ ہم نے مختلف محکموں کے بڑے افسران کو بھی گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں۔ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں ہورہی بلکہ کرپٹ لوگوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہورہی ہے۔ کرپشن ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی، یہ ہمارے معاشرے کی جڑوں میں پہنچ چکی ہے، اب ہم نے ایک سٹرکچر بنالیا ہے، لوگوں کو آگاہی دی جارہی ہے اور اب ہر شخص کرپشن کے خلاف بات کررہا ہے۔ میرے نزدیک اگر کرپشن کا صحیح معنوں میں خاتمہ کرنا ہے تو انتخابی نظام بہتر کرنا ہوگا کیونکہ قانون سازی پارلیمنٹ نے کرنا ہوتی ہے۔ اگرقانون سازی بہتر ہوگی تو رکاوٹیں ختم ہونگی اور کرپشن کا خودبخود خاتمہ ہوجائے گا۔

بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن ( سابق ڈی جی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ)

اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعمال کے حوالے سے سزاو جزا رکھی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سزا و جزا کا قانون موجود ہے لیکن یہ صرف غریب پر لاگو ہوتا ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمدﷺ نے فرمایا’’ رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ قائد اعظم نے کرپشن کو زہر قاتل قرار دیا لیکن افسوس ہے کہ ہم نہ مسلمان بن سکے اور نہ ہی انسان۔2003ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد 58/4پر 140ممالک نے دستخط کیے ہیں جس کے مطابق اختیارات کا ناجائز استعمال کرپشن ہے، ہمارے ملک میں اداروں کے سربراہان، بڑے افسران، حکمران و دیگر طاقتور لوگ اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں، کرپشن بھی کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی جبکہ قانون صرف کمزور کے لیے ہے۔

پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے۔ اسلام اس لیے پھیلا کہ ہمارے نبی حضرت محمدﷺ نے اپنے عمل سے مثال قائم کی ۔ ہمارے حکمران تو کرپشن کررہے ہیں،پاناما لیکس کا معاملہ دیکھا جائے تو اس میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جہاں انصاف نہیں ہوگا وہاں ظلم ہوگا، کرپشن ہوگی اور وہاں معاشرتی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ اداروں کو مضبوط اور خودمختار بنایا جائے اور سربراہوں کی تقرری میرٹ پر کی جائے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو بروقت اور بلا تفریق انصاف فراہم کیا جائے اور کرپٹ لوگوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے تب جاکر معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔

میاں رحمان عزیز ( نائب صدر ایف پی سی سی آئی)

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ و دیگر عالمی سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان کا شمار کرپشن کے حوالے سے بدترین ممالک میں ہوتا ہے، اس رینکنگ میں ہمارے ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک ہمارے قریب نہیں ہیں۔ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں عالمی رینکنگ کو بہتر کرنا ہوگا اور اس کے لیے سسٹم کو بہتر کرکے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان میں عام شہری سے لے کر بزنس مین کو کرپشن کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔

بزنس مین کو ریونیو ڈیپارٹمنٹ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جوڈیشل سسٹم سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان اداروں میں ایف آئی اے کی کارکردگی قدرے بہتر ہے لیکن اگر صرف پنجاب پولیس کی بات کی جائے تو کوئی اچھی مثال موجود نہیں ہے حالانکہ وزیراعلیٰ پنجاب محکمہ پولیس میں ریفارمز لائے، درخواست کا سسٹم بنایا گیا جو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ تک پہنچتی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ ہر درخواست پر نوٹس نہیں لے سکتے۔اس کے لیے ہمیں سسٹم کو بہتر کرنا ہوگا۔ ہمیں کوئی نیا سسٹم بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دنیا نے جو کرپشن کے خاتمے کا ماڈل اپنایا ہمیں بھی اسے اپنانا چاہیے۔

کرپشن کے خاتمے کے لیے لوگوں کو تعلیم کے ذریعے آگاہی دی جائے، پرائمری کی سطح سے ہی بچوں کو یہ بتایا جائے کہ کرپشن غلط ہے اور اس کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ کرپشن کا خاتمہ کسی ایک شخص یا حکومت کی نہیں بلکہ ہم سب کی مجموعی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی سے رشوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے چاہیے کہ متعلقہ اداروں کو شکایت کرے لیکن ایسا اس وقت ہی ہوگا جب لوگو ں کو اس حوالے سے شعور ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جوڈیشل سسٹم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی بہتری لانا ہوگی تاکہ سزا کو یقینی بنایا جاسکے۔

اگر کوئی شخص کسی افسر یا شخص کو رشوت دیتا ہے تو وہ خود بھی کرپٹ ہے، ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کو اپنانا ہوگا اور اس کے لیے لوگوں کی تربیت کی جائے تاکہ وہ کرپشن کو برا سمجھیں اور اسے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ بزنس مین کا سب سے بڑا مسئلہ ایف بی آر کے ساتھ ہے اور اس ادارے میں کرپشن بہت زیادہ ہے۔ ایف بی آر کا ڈسپیوٹ ریزولوشن کا میکانزم درست نہیں ہے، بزنس مین ٹیکس دینے کے بجائے ، ٹیکس سے زیادہ رقم دیکر خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے۔

فیڈرل ٹیکس محتسب کو ابھی تک فعال نہیں کیا جاسکا، اسے فعال بنایا جائے اور ایف بی آر کے معاملات کو بہتر کیا جائے تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے۔ یہ کام قومی اسمبلی نے کرنا ہے اور وہاں سے ہی قانون پاس ہونے کے بعد اس ادارے کی تشکیل نو ہو سکے گی۔ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ آج سے 30سال پہلے بن جانا چاہیے تھا لیکن یہ 4سال قبل بنایا گیا، اس بل کے نفاذ سے پہلے جو پیسہ باہر جا چکا ہے، اس کا ٹریل نہیں پوچھا جاسکتا۔ اب جب اس پر قانون سازی ہوگی تو بزنس مین اور ٹریڈرز بھی اپنا پیسہ ڈکلیئر کریں گے۔

اگر اس قانون پر صحیح طریقے سے عملدرآمد ہوجائے تو معاملات بہتر ہوجائیں گے۔ زمین خریدنے کے لیے ہمیں پٹواریوں کے نظام سے مسائل کا سامنا ہے، اب اس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ صوبائی سطح پر ریونیوڈیپارٹمنٹ میں بہتری آئی ہے، اسی طرح بہتر حکمت عملی سے دیگر محکموں میں بھی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ میرے نزدیک اہم یہ ہے کہ موجودہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنا کر، کرپٹ لوگوں کو سخت سے سخت سزا دے کر معاشرے میں مثال قائم کی جائے تاکہ کرپٹ لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔