سچ سے کھلواڑ

تنویر قیصر شاہد  منگل 20 دسمبر 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

آفتاب احمد انصاری آٹھ سال قبل انڈین ائر فورس میں بطور ائر مین ملازم تھے۔ بھرتی کے وقت اُن کی ڈاڑھی تھی نہ مونچھیں۔ ملازمت کے دوران ہی اُنہوں نے ڈاڑھی بڑھانا اور مونچھیں منڈوانا شروع کیں تو اُن کے انچارج افسر نے اُنہیں وارننگ دی کہ ڈاڑھی نہ بڑھائیں کہ بھارتی ائر فورس کا نظم اِس کی اجازت نہیں دیتا۔ انصاری صاحب نے مگر اُن کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور ڈاڑھی حسبِ منشا بڑھاتے رہے؛ چنانچہ ایک روز اُنہیں ملازمت سے جبری ریٹائر کر دیا گیا۔ انصاری صاحب مقامی عدالت میں چلے گئے۔

اِس ادعا کے ساتھ کہ اُنہیں محض ڈاڑھی رکھنے کی پاداش میں نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا۔ دو سال بعد وہ اپنا مقدمہ ہار گئے لیکن اُنہوں نے بھارتی سپریم کورٹ کے دروازے پر انصاف کے لیے دستک دی، اس دلیل کی بنیاد پر کہ… ’’مَیں ایک عملی مسلمان ہُوں۔ مجھے ڈاڑھی رکھنی چاہیے۔ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں آئین کے مطابق تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جملہ مذہبی آزادیاں دی گئی ہیں۔ اِسی آئین کے مطابق مَیں ڈاڑھی رکھ سکتا ہُوں۔‘‘ انھوں نے اپنے دعوے میں مزید کہا  ’’اگر انڈین ائر فورس میں بھارتی سکھوں کو ڈاڑھی رکھنے اور پگڑی پہننے کی سرکاری اجازت ہے تو مسلمان بھارتی شہری ہونے کے ناطے مجھے بھی ڈاڑھی رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ مجھے ملازمت پر بھی بحال کیا جائے۔‘‘

آفتاب احمد انصاری کے اِس مقدمے کی سماعت تین سینئر جج کر رہے تھے: بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر، جسٹس ڈی وائی چندر اور جسٹس ایل این راؤ۔ پندرہ دسمبر 2016 ء کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ انصاری صاحب کو ملازمت پر بحال کرنے کے بجائے انڈین ائر فورس کے جبری فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ تین رکنی بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا: ’’مسٹر آفتاب احمدانصاری کو دورانِ ملازمت ڈاڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہی انڈین ائر فورس کے چلے آئے ڈسپلن کا تقاضا ہے۔

انڈین ائر فورس کے ترمیمی آئین ( مجریہ یکم جنوری 2002 ء )میں صاف لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بھرتی ہونے سے قبل ڈاڑھی اور مونچھیں رکھتا ہے تو اُسے دورانِ ملازمت بھی ڈاڑھی رکھنے کی اجازت ہو گی لیکن تازہ بھرتی ہونے والوں کو اب یہ بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا: ’’اسلام کے ماننے والوں میں سبھی ڈاڑھی نہیں رکھتے، اس لیے آفتاب انصاری کو نہ تو ڈاڑھی رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی اُنہیں ملازمت پر بحال کیا جا سکتا ہے۔ اُنہیں ڈاڑھی رکھنے کی اجازت دینے کا ایک مطلب یہ ہے کہ انڈین ائر فورس کا ڈسپلن تباہ کر دیا جائے۔‘‘

انصاری میاں کا بجا طور پر کہنا ہے کہ سکھوں کے ڈاڑھی رکھنے سے بھارتی ائر فورس کا ڈسپلن کیوں تباہ نہیں ہوتا؟ مجھے مسلمان ہونے کے ناطے ڈاڑھی رکھنے کی اجازت کیوں نہیں؟ لیکن بھارت بھر میں کوئی اُن کی دہائی سننے اور اُن کی دلیل ماننے پر تیار نہیں۔ امید تو یہی تھی کہ بھارتی سپریم کورٹ کے عنقریب ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس، ٹی ایس ٹھاکر، جاتے جاتے انصاف کا پرچم بلند کریں گے لیکن یہ آس، یہ امید پوری نہیں ہو سکی (نئے بھارتی چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیر ہوں گے۔ وہ مذہبی سکھ ہیں اور باقاعدہ ڈاڑھی رکھتے ہیں۔

4 جنوری 2017ء کو اپنا عہدہ سنبھالیں گے) آفتاب انصاری صاحب کے خلاف سنائے گئے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے عیاں ہوا ہے کہ ایک تو بھارت میں کمزور اقلیتوں کو انصاف فراہم کرتے ہوئے بھارتی ذمے داروں کے ہاتھ کانپتے ہیں اور دوسرایہ کہ ’’بی جے پی‘‘ اور ’’آر ایس ایس‘‘ ایسی مسلم دشمن جماعتوں کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کے خلاف پھیلائے گئے اثر و رسوخ سے بھارتی عدلیہ بھی متاثر ہوئی ہے۔ جس روز انصاری صاحب کو انصاف سے محروم کیا گیا، اُسی روز بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ناگا لینڈ میں چھ ماؤ نواز افراد کو یوں ’’انصاف‘‘ فراہم کیا کہ اُن کے جسم گولیوں سے چھلنی کر دیے گئے تھے۔

یہ سانحہ مذکورہ ریاست کے ضلع چندل میں پیش آیا جو کہ اب وہاں کا معمول بن چکا ہے۔ قتل ہونے والوں کا تعلق علیحدگی پسند جماعت ’’یو این سی‘‘ ( یونائٹڈ ناگا کونسل) سے تھا۔ اُن کا ’’جرم‘‘ محض یہ تھا کہ وہ بھارتی ناانصافیوں سے تنگ آ کر اب نئی دہلی کی گرفت سے آزاد ہو کر اپنا ایک علیحدہ وطن چاہتے ہیں۔ بھارت کی مرکزی حکومت مگر ایسی مانگ مانگنے والوں کو گولیاں مار کر ’’انصاف‘‘ کا جھنڈا بلند کر رہی ہے۔

ایک تاثر مستحکم ہوتا جا رہا ہے کہ مقتدر، مسلح اور انتہا پسند ہندو جماعتوں کے وابستگان کے سامنے بھارتی عدالتیں بے بس سی ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر مالیگاؤں کا خونی سانحہ جو ستمبر 2006ء کو پیش آیا۔ یہ شبِ بارات کا موقع تھا۔ بھارتی مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد سب سے بڑی مقامی مسجد، مسجدِ حمیدہ، میں عبادت کے لیے اکٹھے تھی کہ اچانک مسجد  میں بموں کے کئی دھماکے ہوئے۔ پلک جھپکتے میں درجنوں مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ تحقیقات ہوئیں تو صاف ظاہر ہوا کہ یہ دہشتگردانہ حرکت مقامی مسلمان دشمن انتہا پسند تنظیم کی تھی۔ عدالت نے مگر ’’ناکافی‘‘ شہادتوں کی بنیاد پر سب گرفتار ملزمان کو رہا کر دیا۔ دوسال بعد مہاراشٹر کے ’’اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ‘‘ نے تحقیقات کے بعد ثابت کیا کہ اس خونی سانحے کا اصل ذمے دار بھارتی فوج کا ایک حاضر سروس افسر، کرنل پرشاد پروہت، تھا۔ اُس کے ساتھ آٹھ افراد اور بھی شامل تھے۔

مقدمہ عدالت میں پیش ہوا تو بھارتی تحقیقاتی ادارے، این آئی اے، نے بیان دیا کہ کرنل پروہت کودانستہ اور بد نیتی سے شاملِ تفتیش کیا گیاہے۔ عدالت نے بغیر کسی حیل و حجت کے اس موقف کو سچ مان لیا اور کرنل پروہت اوراُس کے ساتھیوں کو باعزت رہا کر دیا۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ اس فیصلے کے عقب میں بھارتی انتہا پسند جماعتوں کا دباؤ کار فرما تھا۔ پھر سمجھوتہ ایکسپریس کو نذرِ آتش کر کے ستّر سے زائد پاکستانیوں کو شہید کرنے والوں، جن کی قیادت آر ایس ایس کا غنڈہ لیڈر سوامی آسانند کر رہا تھا، کو بھی بھارتی عدالتوں نے بری کر دیا۔ شہید ہونے والے پاکستانیوں کے لواحقین نو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک بھارتی عدالتوں کے اِس کھلواڑ پر سینہ کوبی کر رہے ہیں۔

ستم  یہ ہے کہ بھارت اُلٹا دنیا بھر میں دہشتگردی کے الزامات لگا کر پاکستان کو بدنام کر رہا ہے اور ہم مجموعی طور پر بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ بھارت اپنے گناہوں کی کالک بڑی چالاکی اور عیاری سے پاکستان کے منہ پر ملنے کی مذموم کوشش کرتا ہے۔ ناکام ہوتا ہے لیکن اپنی حرکاتِ بد سے باز نہیں آ رہا۔ ہمارے ایک سابق فوجی افسر میجر نادر پرویز، جنہوں نے مشرقی پاکستان میں بھارتی دہشتگرد تنظیم ’’مکتی باہنی‘‘ کا مقابلہ بھی کیا اور وہ 1971 ء میں بھارت کے ہاتھوں جنگی قیدی بھی بنائے گئے، کا اپنے تازہ انٹرویو میں بجا کہنا ہے کہ ہمارے حکمران سقوطِ مشرقی پاکستان کے موقع پر بھی بھارتی پروپیگنڈے کا جواب نہیں دے سکے تھے اور اب پھر پاکستان کے خلاف زہریلے بھارتی پروپیگنڈے کا جواب نہیں دیا جا رہا۔ کیا ہم پھر کسی سانحہ کے منتظر ہیں؟ اللہ نہ کرے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔