- کراچی: مبینہ مقابلے میں ڈکیت زخمی حالت میں گرفتار
- پی ٹی آئی رہنما شاہ فرمان وزیراعلیٰ کے سینئر مشیر کے عہدے سے مستعفی
- بھارتی حکومت نے محمد سراج کو ڈی ایس پی تعینات کردیا
- کراچی میں پانچ روز کیلیے دفعہ 144 نافذ
- ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ: سری لنکن ٹیم چوتھا میچ بھی ہار گئی
- کراچی: ٹریفک حادثے میں بزرگ شہری جاں بحق
- بھارت: مشہور سیاستدان بابا صدیقی قاتلانہ حملے میں جاں بحق
- ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ: جنوبی افریقا نے بنگلادیش کو شکست دے دی
- 1100 گرام چٹ پٹی چٹنی کھانے کا ریکارڈ
- غزہ اور دنیا بھر میں قتل عام کیوجہ ہماری قرآن سے دوری ہے، ذاکر نائیک
- کراچی سے نامعلوم شخص کی مسخ شدہ لاش برآمد
- کرم میں قبائل کے مابین فائرنگ میں 15 افراد جاں بحق
- شادی کی تقریب میں ہوائی فائرنگ کرنے والا نوجوان اپنی ہی گولی سے جاں بحق
- عمران خان کی خیریت کے بارے میں خدشات پر فوری جواب دیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
- ایلون مسک نے روبو ٹیکسی کی رونمائی کر دی
- کراچی: ڈیفینس میں لائن لیک ہونے سے تیل سڑکوں پر بہہ گیا، علاقہ سیل
- ٹی 20 بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ اگلے ماہ پاکستان میں کھیلا جائے گا
- بھارت نے ٹی 20 انٹرنیشنل کی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا اسکور بنادیا
- ایم کیو ایم نے آئینی ترمیم پر حکومت کی حمایت بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے سے مشروط کردی
- کراچی میں ٹیکنالوجی فیسٹیول، طالبعلم نے نئی اسمارٹ ہوم ٹیکنالوجی متعارف کرادی
بھارت روس دفاعی معاہدہ، پاکستان کے سوچنے کی بات
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن ان دنوں بھارت کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ صدر پیوٹن نے پیر کو بھارت کی اعلیٰ ترین قیادت سے ملاقاتیں کیں ہیں‘ ان میں بھارت کے صدر پرناب مکھرجی اور حکمران کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کے علاوہ وزیراعظم من موہن سنگھ شامل ہیں‘ اس دور ے کی خاص بات روس بھارت دفاعی معاہدے پر دستخط ہونا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق صدر پیوٹن اور وزیراعظم من موہن سنگھ نے تقریباً 2.9 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت روس بھارت کو 71 ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر اور 41 سخوئی لڑاکا طیاروں کی کٹس فروخت کرے گا۔ ان کٹس کی مدد سے بھارت سخوئی طیارے مقامی طور پر تیار کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ بھارتی قیادت نے صدر پیوٹن سے تامل ناڈو میں بھارت کا سب سے بڑا جوہری بجلی گھر تعمیر کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔ بھارت اور روس کے درمیان ہونے والے ان معاہدوں سے صدر پیوٹن کے دورے کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
بھارت نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت امریکا اور یورپ سے اچھے تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور روس کے ساتھ بھی اس کے قدیم دوستانہ تعلقات برقرار ہیں۔روس جب سوویت یونین تھا، اس کے وقت بھی بھارت کے اس کے ساتھ گہرے مراسم تھے جو اب تک چلے آرہے ہیں۔ بھارت پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے‘ اس لیے وہاں ہونے والی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنا اور ان کا جائزہ لینا پاکستان کے لیے لازمی ہے۔بھارت کی خارجہ پالیسی ہمارے سامنے ہے، نائن الیون کے بعد دنیا کی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے ‘ بھارت نے اس کے مطابق اپنی ترجیحات طے کرلی ہیں۔ پاکستان کو بھی بدلتے ہوئے حالات کو سامنے رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف متعین کرنے چاہئیں‘ اس وقت محسوس یہی ہو رہا ہے کہ پاکستان کے امریکا اور یورپ کے ساتھ تعلقات اتنے آئیڈیل نہیں ہیں جتنے کہ سرد جنگ کے دور میں تھے‘ دہشت گردی کی خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کئی ایشوز پر کشیدہ رہے ہیں۔
پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوششیں بھی کی ہیں تاہم ان کے حوصلہ افزا نتائج منظر عام پر نہیں آ سکے‘ گزشتہ دنوں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے پاکستان آنا تھا، اس دورے سے خاصی توقعات وابستہ کی جارہی تھیں لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر ان کا دورہ منسوخ یا موخر کر دیا گیا‘ اس کے پس پردہ محرکات کیا تھے‘ اس کے بارے میں تو ارباب اختیار کو ہی علم ہو گا لیکن اب صدر پیوٹن کا بھارت آنا اور وہاں دفاعی معاہدے کرنا‘ پاکستان کے پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ بھارت روس کی مدد سے ہی بہتر نہیں بنا رہا بلکہ وہ امریکا، برطانیہ ، فرانس حتیٰ کہ اسرائیل سے بھی مدد لے رہا ہے۔ اس نے سول ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی خاصی پیش رفت کی ہے۔
ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ چین کے ساتھ تنازعات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔بھارت مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے۔ پاکستان کو اس خطے میں ہونے والی سرگرمیوں اور تبدیلیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی لڑ رہا ہے۔پاکستان کے دشمنوں کی بھی کمی نہیں ہے ، اس لیے پاکستان کو اپنے دوستوں کی تعداد بھی بڑھانی چاہیے۔جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو اپنے دفاع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔