آپ کا کیا ہو گا جنابِ عالی؟!!

نصرت جاوید  منگل 25 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کراچی میں بے پناہ مصروفیت کے تین دن گزارنے کے بعد ہفتے کی شام تھکا ماندہ گھر پہنچا تو بیوی سے گرما گرم چائے کی فرمائش کر دی۔ تھوڑا سنبھلنے کے بعد ریموٹ دبایا تو اسکرین پر پشاور دھماکے کی خبریں چل رہی تھیں۔ گرما گرم چائے کا کپ آنے کے ساتھ ہی بشیر بلور کی شہادت کی خبر آ گئی اور میں پشاور جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ میں جب بشیر بلور کے گھر پہنچا تو ان کی میت کو غسل دیا جا رہا تھا۔ ان کا نوجوان بیٹا عثمان بلور بڑے اعتماد کے ساتھ مرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنے کا عہد کر رہا تھا۔ شاید یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گی کہ بشیر بلور24/7 سیاست ہی سیاست میں مصروف رہا کرتے تھے۔

ان کی واحد تفریح مہینے میں ایک آدھ بار ہفتے کو رات کا کھانا کھانے کے بعد اپنے بستر پر لیٹ کر کوئی فلم دیکھنا ہوا کرتی تھی۔ جس دن ان کی شہادت ہوئی، اس رات وہ ’’جب تک ہے جان‘‘ دیکھنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔ کیا عجیب اتفاق تھا کہ یہ شخص بھی جب تک اس میں جان رہی بڑے ہی دبنگ انداز میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا، اپنی بات کہتا رہا۔ ان کے سب سے بڑے بھائی غلام احمد بلور اب بھی خوفزدہ نہ تھے۔ ’’بہادر آدمی تھا۔ خوش قسمت بھی کہ جیسی موت چاہتا تھا، اسے نصیب ہوئی‘‘ وہ پرسہ دینے والوں کے سامنے دہراتے رہے۔ ان کے دوسرے بھائی الیاس بلور لوگوں کے ساتھ ملتے اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیتے۔ انھیں دُکھ اس بات کا تھا کہ وہ اس بھائی کی میت کو غسل دینے کے غم سے گزرے ہیں جس نے انھیں اس موقعہ پر ’’قبر کے لیے تیار کرنا تھا۔‘‘

بشیر بلور کے بھائیوں اور بیٹوں کے حوصلے کے باوجود مجھے رات گئے تک جو صحافی اور سیاسی کارکن پشاور میں ملا وہ حواس باختہ تھا۔ سب کا یہ خیال تھا کہ پاکستان کی ریاست اور اس کے امن و امان کو یقینی بنانے والے اداروں میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ اپنے ان شہریوں کی حفاظت کر سکیں جو اپنے نظریات پر شرمندہ نہیں بلکہ ان کا کھل کر اظہار کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ دھند میں لپٹی پشاور۔ اسلام آباد موٹروے پر واپسی کا سفر کرتے ہوئے میں مسلسل اپنے آپ سے سوالات کرتا رہا۔

کئی موقعوں پر دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ معاملات جن پر لکھنا اور بولنا تقریباََ خود کشی کے راستے پر چلنا بن گیا ہے،ان پر خاموشی اختیار کر لی جائے۔ خلقت شہر کو تو کہنے کو بے پناہ فسانے چاہیے ہوتے ہیں۔ ترکی سے اردو میں ڈب ہو کر چلائے جانے والے ڈراموں سے ہماری اقدار کی جو ’’تباہی‘‘ ہو رہی ہے اس پر واویلا کرنا بھی ہم صحافیوں کا دھندا چلا سکتا ہے۔ الماس بوبی اور اس کے ہم نوائوں کو شناختی کارڈ اور جائیداد میں حصہ مل گیا ہے۔ اس امر کی ستائش بہت مزے دار کالم لکھوا سکتی ہے۔

سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ ملک ’’اسلامی نظام‘‘ کے نفاذ کے لیے بنا تھا۔ بہتر تو یہی ہے کہ اس نظام کے قیام کے لیے کسی ’’امیر المومنین‘‘ کو ڈھونڈا جائے۔ وہ نہ مل سکے تو جدید زمانے کے تقاضوں کی روشنی میں انتخاب وغیرہ کا ڈھونگ رچاتے ہوئے اس ملک میں صدارتی نظام کے قیام کی اہمیت اجاگر کرنے میں کیا حرج ہے؟ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں تیس سال سے زیادہ عرصے تک پہلے ایوب خان، پھر یحییٰ، بعد ازاں ضیاء الحق اور بالآخر پرویز مشرف نے یہ نظام چلایا تھا۔ مگر وہ فوجی بغاوت کے بعد ریفرنڈم وغیرہ کرا کے صدر بنا کرتے تھے۔ 1973 میں بالآخر پاکستان کو ایک متفقہ آئین بھی مل گیا۔ غازی ضیاء الحق نے مگر اسے کالعدم نہ کیا بلکہ معطل کر دیا۔ اسے بہت عرصہ معطل رکھ کر انھوں نے فوجی عدالتوں کے ذریعے اس ملک میں صالح ا ور ایمان دار لوگ پیدا کرنے کی کوشش کی۔

پھر نہ جانے کیا ہوا کہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرا دیے اور ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلیوں نے پارلیمانی نظام کو بحال کر دیا۔ پھر اسمبلیاں ٹوٹتی اور بنتی رہیں۔ کوئی بات نہ بن پائی تو بالآخر 12 اکتوبر1999کو جنرل مشرف تشریف لے آئے۔ انھوں نے تین سال تک 1973کے آئین کو معطل رکھتے ہوئے چیف ایگزیکٹو بن کر اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آخر میں نہ جانے کیا ہوا۔ 2002میں انتخابات کرا کر ’’فرسودہ نظام‘‘ کو بحال کر بیٹھے۔ اسی ’’فرسودہ نظام‘‘ کی وجہ سے 2007 بے نظیر کے ساتھ این آر او کرنے پر مجبور ہوئے جسے وہ اقتدار میں واپس نہ لانے کا عہد کیے بیٹھے تھے۔ وہ تشریف لائیں تو ان ہی قوتوں نے انھیں شہید کر دیا جن کا بشیر بلور گزشتہ ہفتے نشانہ بنے۔

اب پھر نئے انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مگر ہمارے مستعد اور بے باک میڈیا نے موجودہ سیاستدانوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے شہروں کے متوسط طبقے کی اکثریت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ نئے انتخابات ’’فرسودہ نظام‘‘ کو نئی زندگی دے کر مزید توانا کر دیں گے۔ ضرورت تو ’’تبدیلی‘‘ کی ہے۔ میڈیا کی بے باکی کے سبب آہستہ آہستہ عمران خان ’’تبدیلی کا نشان‘‘ بن رہے تھے۔ بڑے واضح امکانات دکھ رہے تھے کہ پرچی کی طاقت سے تحریک انصاف اہل اور صاف ستھرے لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیج کر تبدیلی کے عمل کا آغاز کر دیں لیکن شیخ اسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے نظر بظاہر رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے۔ عمران خان کی طرح وہ بھی ’’دھرنے‘‘ کے ذریعے تبدیلی لانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ مگر اِدھر اُدھر وقت ضایع کرنے کے بجائے دس جنوری تک انتظار کریں۔ اس وقت تک اسلام آباد والوں نے ان کی پسند کی عبوری حکومت بنا کر آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کے تحت ’’صادق و امین‘‘ لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجنے کا بندوبست نہ کیا تو دھرنا ہو گا اور پھر دمادم مست قلندر۔

میرے جیسے لوگوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ اپنے لیے بشیر بلور جیسی موت کا بندوبست کرنے کے بجائے پاکستانی سیاست میں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی ایمان افروز رہ نمائی میں ’’اہل، ایمان دار اور محب الوطن‘‘ لوگوں پر مشتمل عبوری حکومت کے قیام کی راہ کا بندوبست کریں۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ حکومت جنہوں نے بنانی ہے وہ تو کئی مہینوں سے اس کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ میری مخالفت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ سوچنا تو نواز شریف اور عمران خان کو چاہیے کہ ان کا ’’رومال چرانے‘‘ کا بندوبست کون کر رہا ہے۔ اپنی تو جیسے کیسے کٹ جائے گی۔ آپ کا کیا ہو گا جنابِ عالی؟!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔