لیاری کے مسائل اور ان کا حل (آخری حصہ)

شبیر احمد ارمان  منگل 25 دسمبر 2012
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

لیاری کے مسائل کے سلسلے میں چند مزید مسائل اور ان کا حل درج ذیل ہیں۔

لائبریری: تعلیم و تربیت اور شعور و آگہی کے فروغ میں لائبریریاں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کے نہ ہونے یا توجہ نہ دینے سے تعلیمی انحطاط ظہور پذیر ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں یہ بات خوش آیند تھی کہ کراچی کے ضلع جنوبی کے دیگر علاقوں کی نسبت لیاری زون میں سب سے زیادہ 27 لائبریریاں قائم تھیں، لیکن اب یہ لائبریریاں کم ہوتے ہوتے 7 رہ گئی ہیں، فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کی حالت قابل رحم ہے۔ سب سے بڑی لائبریری ’’لیاری ٹیکسٹ بک لائبریری‘‘ ہے جو ان دنوں زیر مرمت ہے۔ اس لائبریری کی دوسری منزل پر آڈیٹوریم ہے جو معروف بلوچی شاعر ملا فاضل کے نام سے منسوب ہے۔ یہ ہال صرف تعلیمی پروگراموں کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اسے اکثر شادی ہال کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، اب کافی عرصے سے ویران ہے جس کی وجہ سے یہ اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔

کمیونٹی سینٹرز: کمیونٹی سینٹرز جو عرصہ دراز سے اپنی افادیت کھو چکے تھے، ان کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اکثر کمیونٹی سینٹرز کی عمارات از سر نو تعمیر کی گئی ہیں، مگر پھر بھی لوگ انھیں استعمال کرنے کے بجائے شادی بیاہ کے شامیانے اپنے گھروں کے آگے باندھ کر دولت ضایع کر رہے ہیں اور نکاح بھی ان ہال کے بجائے مساجد میں یا پارک و میدان میں تقریبات منعقد کرتے نظر آتے ہیں۔

پارک و کھیل کے میدان: لیاری بھر میں ایک بھی تفریح گاہ موجود نہیں ہے۔ جو پارک ہیں وہ عدم استعمال کی صورت حال سے دو چار ہیں البتہ کھیل کے میدان آباد ہیں جہاں بڑے اور بچے فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں جو صحت مند ماحول کی نشاندہی کرتا ہے۔ اطمینان کی بات ہے کہ پارکوں اور پلے گراؤنڈز کی تعمیر و تزئین و آرائش پر خاص توجہ دی گئی ہے۔

گڈز ٹرانسپورٹ و بس کے اڈے: تمام تر منصوبوں کے باوجود لیاری کے رہائشی علاقوں میں قائم بس اور گڈز ٹرانسپورٹ کے اڈے مکینوں کے لیے پریشانیوں کا باعث ہیں۔ اگرچہ انٹر سٹی بسوں کے لیے شہر سے باہر ایک بس ٹرمینل بنایا گیا ہے کچھ اڈے وہاں منتقل ہوئے لیکن زیادہ تر بس اڈے آج بھی یہاں قائم ہیں۔ اس طرح گڈز ٹرانسپورٹ کو دو تین مرتبہ لیاری سے باہر منتقل کرنے کے لیے جگہ فراہم کی گئی لیکن یہ مافیا وہاں بھی قابض ہیں اور لیاری میں بھی اپنے اڈے جمائے ہوئے ہیں جو ملی بھگت کا شاخسانہ ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ: لیاری بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی اشد ضرورت ہے، لیاری کے مکینوں کو شہر کے وسط تک جانے کے لیے دو، دو گاڑیاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں۔ ماضی قریب میں یہاں جو پبلک ٹرانسپورٹ چلتی تھی وہ بھی وقتاً فوقتاً بند کر دی گئی ہیں جن میں X-9، X-20، 1-H بس جو بالترتیب میوہ شاہ، جہان آباد، لی مارکیٹ، براستہ رنچھوڑ لائن تا صدر، پنجاب کالونی، گذری، رشید آباد سے گلشن اقبال، صفورا گوٹھ، اورنگی ٹاؤن براستہ لیاری لی مارکیٹ اور کیماڑی تک چلتی تھیں شامل ہیں۔ ماضی بعید میں 22-A صدر تک،7-G، 5-B، 19-D بھی بند کر دی گئی تھی جو مہاجر کیمپ و گولیمار تک جاتی تھی۔ کافی عرصے بعد 19-D دوبارہ چلائی گئی۔ ٹرامیں بھی لیاری میں چلتی تھیں جو 1975 سے شہر بھر میں بند کر دی گئیں۔ یہ بہترین پبلک سواری تھی جسے نئی نسل جانتی تک نہیں۔

یاد رہے کہ ’’ہاکس بے اسکیم42‘‘ کا اعلان صرف لیاری والوں کے لیے کیا گیا تھا لیکن عملاً ایسا نہیں ہو سکا۔ اس لیے کہ اس منصوبے میں جو 29 ہزار پلاٹ الاٹ کیے گئے ان میں صرف 9 ہزار لیاری کے ایسے مکین ہیں جو مختلف زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعد ازاں ہاکس بے اسکیم ہی کی حدود میں 500 تیار کوارٹرز لیاری کی بیواؤں کے لیے اعلان کیا گیا مگر عملاً یہ کوارٹر من پسند لوگوں میں تقسیم کیے گئے۔ آج یہ علاقہ 500 کوارٹرز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی لیاری والوں کے لیے ’’سستی بستی‘‘ کا اعلان کر چکی ہے لیکن بازگشت یہی ہے کہ اس مرتبہ بھی من پسند لوگ منظور نظر ہیں۔

کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرات:
وزیراعظم بھٹو نے لیاری کے علاقے میں ’’بسم اﷲ منزل‘‘ کے منہدم ہونے کے بعد یہ حکم جاری کیا تھا کہ آیندہ لیاری بھر میں صرف دو منزلہ عمارتیں تعمیر کی جائیں، مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ انسانی جانوں کا سودا کرنے والی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، لینڈ مافیا اور دیگر متعلقہ قاتلوں نے 1976سے لے کر اب تک لیاری کی سیکڑوں عمارتوں کے لیے صرف فرسٹ فلور کے پلان منظور کیے جانے کے باوجود بعض افسران اور بلڈرز کی ملی بھگت سے عدالت سے نان ٹیکنیکل بنیاد پر جاری ہونے والے حکم امتناعی کی آڑ میں کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر شروع کر دی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس صورت حال کی روشنی میں ضروری ہے کہ عدالتیں قانونی حکم عدولی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائیں۔

ماحولیاتی آلودگی: ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے انسان اور جانور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ سینے، پھیپھڑوں، دماغ، دل اور خون کے امراض غیر معمولی طور پر بڑھ رہے ہیں۔ غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ لیاری میں آلودگی کے خاتمے کے نام پر قائم سماجی اداروں کی کارکردگی صرف اخباری بیانات جاری کرنے اور رپورٹ مرتب کرنے اور اس سلسلے میں وسائل حاصل کرنے تک محدود ہے۔ اس طرح ان کا عملی کام نظروں سے ’’اوجھل‘‘ یا ناپید ہے۔

مہنگائی، بے روزگاری اور نوجوان: بات تو افسوس کی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج تک نوجوانوں کو ایسا ماحول فراہم نہیں کیا گیا کہ جس میں رہ کر ان کی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع مل سکے۔ نوجوانوں کو یہ بتانے سے گریز کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کس طرح سے اپنی خداداد صلاحیتوں کو مثبت سمت میں استعمال کر سکتے ہیں۔ مقصد یہ کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں، جو لوگ نوجوان نسل کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، انھیں اپنے ذاتی مفاد کی خاطر لوٹ کھسوٹ سے ہی فرصت نہیں۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث دس فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جب کہ نوے فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ڈگریاں حاصل کر کے بھی نوجوان بے روزگار ہیں اور ہمارا معاشرہ ان سے بے زاری کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ لیاری کا نوجوان کسی سے کم نہیں ہے۔ انھیں صرف مناسب رہنمائی کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قومی فریضہ کون نبھائے گا؟ حکمران اور لیڈران قوم اپنے اپنے مسائل میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نصیحتیں کی جاتی ہیں کہ نوجوان راہ راست پر آ جائیں اور اپنی تمام تر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز کریں، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ آج کا نوجوان ڈپریشن کا شکار کیوں ہے؟ سچ پوچھیں تو نوجوانوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں اور یہی وجہ ہے کہ کمزور اعصاب کے نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ گینگ وار کا عذاب غربت، احساس محرومی اور بیوروکریسی کی مجرمانہ غفلت کا ہی منطقی نتیجہ ہے۔

مذکورہ بالا شکایتیں اور حکایتیں عرصہ دراز سے سننے، پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت تھم گیا ہے۔ موسم بدلتے رہتے ہیں لیکن لیاری کے نوجوانوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ انھیں حل کرنے کے لیے سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔