قہقہہ کی نہیں، زخموں پر مرہم کی ضرورت ہے

شبیر رخشانی  جمعـء 23 دسمبر 2016
درحقیقت یہ وہ قہقہہ تھا جو قیام پاکستان کے بعد سے ہی حکمرانوں کے ایک خاص طبقے کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے لئے لگایا جارہا ہے

درحقیقت یہ وہ قہقہہ تھا جو قیام پاکستان کے بعد سے ہی حکمرانوں کے ایک خاص طبقے کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے لئے لگایا جارہا ہے

میں بچپن سے جوانی کے دور میں آگیا ہوں، لیکن اُس وقت جو باتیں سنا کرتا تھا آج بھی وہی سنتا چلا آرہا ہوں بلکہ شاید اب اُس کو محسوس بھی کرنے لگا ہوں کہ بلوچستان اور یہاں رہنے والے غریبوں کے ساتھ مسلسل نااںصافیوں کی وجہ سے صوبے کے عوام اور وفاق کے درمیان ایک گہری دیوار کھنچ چکی ہے۔ جوں جوں وقت آگے بڑھتا چلا جارہا ہے دونوں کے درمیان فاصلہ اتنا ہی وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ فاصلہ خود سے نہیں بڑھ رہا بلکہ گزشتہ 70 سالوں سے بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ بڑھ رہا ہے۔

آج صورتحال یہ ہے کہ مقامی بلوچ وفاق کے ساتھ ساتھ اپنی صوبائی حکومت سے بھی نالاں نظر آتا ہے، اور اس ناراضگی کی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر وفاق نے صوبے کو کچھ نہیں دیا تو یہاں کی اپنی حکومتوں نے بھی سوتیلوں سے کم سلوک نہیں کیا۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بظاہر اختیارات کی منتقلی سے یہ امید ہوچلی تھی کہ ان کی آمد سے بلوچستان میں پسماندگی اور حالات کی روش میں تبدیلی کی ہلکی سی جھلک دیکھنے کو ملے گی، لیکن تمام تر توقعات اور تجزیے ڈھائی سالہ دور حکومت میں مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئے۔

سی پیک منصوبہ شروع ہوتے ہی بلوچستان کے حلقوں میں نہ صرف قیاس آرائیوں نے جنم لیا بلکہ سوالات بھی اٹھنے لگے، لیکن آج تک اس پروجیکٹ کے بارے میں بلوچستان کو آگاہ نہیں کیا گیا یا شاید ضروری ہی نہیں سمجھا گیا یہی وجہ ہے کہ سوالات اب بھی باقی ہیں۔ انہی سوالات کو لے کر لاہور میں آئے ہوئے گوادر کی ایک طالبہ نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سامنے کچھ اہم مگر تلخ حقائق رکھ دئیے۔ طالبہ نے وزیراعلیٰ پنجاب سے کہا کہ سی پیک کا سن سن کر تھک چکے ہیں، منصوبہ گوادر میں بن رہا ہے اور ترقی لاہور میں ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس پینے کے لئے نہ تو صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی کپڑے استری کرنے کے لئے بجلی لیکن جب سیاستدان گوادر کا دورہ کرتے ہیں تو لوڈ شیڈنگ ختم ہوجاتی ہے۔ بات یہاں بھی نہیں رکی بلکہ طالبہ نے یہ بھی کہا کہ سی پیک کی وجہ سے چینی زبان سیکھنے کے لیے بھی گوادر یا دیگر صوبوں کے بجائے لاہور کے طلبہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اِن تلخ مگر افسوسناک سوالات پر ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ شہاز شریف طالبہ سے ہمدردی کرتے اور اس کو دلاسہ دیتے کہ بہت جلد آپ کے علاقے میں بھی ترقی کا آغاز ہوگا، لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بجائے ایک زور دار قہقہہ ماردیا۔ جناب یہ قہقہہ کوئی نیا نہیں، بلکہ درحقیقت یہ وہ قہقہہ تھا جو قیام پاکستان کے بعد سے ہی حکمرانوں کے ایک خاص طبقے کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے لئے لگایا جارہا ہے، اور انہی قہقہہوں کی وجہ سے خرابی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔

اگر یہ سوال کسی اور صوبے سے تعلق رکھنے والی طالبہ کرتی تو میں یہ سمجھنے کی پوری کوشش کرتا کہ جو کچھ طالبہ نے وزیراعلیٰ پنجاب سے شکایت کی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن افسوس کہ چاہتے ہوئے بھی میں یہ نہیں مان سکتا۔ اس کی دو اہم ترین وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ اس طالبہ کا تعلق گوادر سے ہی ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر ان سارے مسائل کا سامنا کرتی ہے جس کا ذکر اس نے شہباز شریف کے سامنے کیا تھا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میرا تعلق بھی بلوچستان سے ہی ہے اور میں گوادر اور پورے صوبے کے حالات سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔

اب ایسی صورت میں جب گوادر اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ پنجاب آئیں اور لاہور میں ہونے والی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو لازم ہے کہ اُن میں یہ احساس محرومی پیدا ہو کہ ہمارا صوبہ ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود اتنا پیچھے کیوں؟ اور یہاں کچھ نہ ہونے کے باوجود اتنی ترقی بھلا کس طرح ہوسکتی ہے؟

اگرچہ لوگ اس بات کو دبانے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں عرصہ دراز سے جن محرومیوں کا سامنا یہاں کے باشندہ کررہے ہیں وہ ان محرومیوں کا ذمہ دار پنجاب ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں نے بلوچستان کے عوام کے دلوں کے اندر پنجاب اور پنجاب میں رہنے والے باشندوں کے خلاف نفرت کی فضاء پیدا کردی ہے، لیکن اس سے بھی افسوس کا مقام یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان محرومیوں کا ازالہ کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے طالبہ کے سوال کا جواب دینے کے بجائے زور دار قہقہہ لگاکر کیا۔

جیسے ہی یہ واقعہ رونما ہوا، یہ خبر پاکستان کی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں موضوع بحث بھی رہی۔ طالبہ کی اس ہمت و جرات کو یقیناً پاکستان کے بعض حلقے حوصلہ افزا اقدام قرار دے رہے ہیں اور یقیناً اُن میں بھی کافی عرصے سے بے چینی کی فضا بھی موجود تھی کہ آج کا بلوچ سوال کیوں نہیں اٹھاتا؟ اپنے حقوق کیوں نہیں مانگتا؟ وہ اپنے آپ کو پاکستان کا حصہ کیوں نہیں سمجھتا؟ طالبہ کے سوالات سے ایسے حلقوں کو قدرے اطیمنان تو نصیب ہوا ہوگا، لیکن جہاں ایک طرف اُن کو اطمینان نصیب ہوا وہیں وزیراعلیٰ پنجاب کی قہقہہ سے ان کی مایوسی میں اضافہ بھی ہوا ہوگا۔

بلوچستان میں احساس محرومی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ انہیں سی پیک روٹ سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ وفاق اور بلوچستان کے عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو ختم کرنے کے لئے اعتماد کی فضاء قائم کی جائے، لیکن یہ تمام تر امکانات اس وقت پیدا ہونگے جب بلوچستان میں رہنے والے افراد کو اس منصوبے کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کی جائے گی، بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا، بلوچستان میں بے ساکھی کے سہارے چلنے والے ٹیکنیکل شعبے کو معیاری بنایا جائے گا، جسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے اس بات کی ضمانت دی جائے کہ سی پیک کی مکمل تعمیر کے بعد یہاں پیدا ہونے والی نوکریوں کے لئے مقامی افراد کو ہی ترجیح دی جائے گی۔

یہ اصول صرف بلوچوں کے لئے نہیں ہے، بلکہ ہر اس علاقے اور ہر اس قوم کے لئے ہے جن میں کسی بھی وجہ سے احساس محرومی پایا جاتا ہو۔ مملکت خداداد ایک گلدستے کی مانند ہے اور یہ گلدستہ اُس وقت تک ہی خوشبو پھیلاتا رہے گا جب تک اس میں موجود ہر پھول اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کھلا رہے۔ اگر کوئی ایک پھول بھی مرجھاتا ہوا محسوس ہونے لگے تو گلدستے کی رونق ماند پڑسکتی ہے۔ اس لئے گلدستے کی نگہبانی جن جن لوگوں کے سپرد ہے، ان سے درخواست ہے، التماس ہے، التجا ہے، خدادارا اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیجیئے اور ملک میں ہونے والی ناانصافیوں کو روکئے۔ تمام افراد کو ایک آنکھ سے دیکھئے، اپنے لوگوں کو نوازنے اور دوسروں کے ساتھ زیادتی کی روش کو بدلیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔