شیخ ایاز

جاوید قاضی  جمعـء 23 دسمبر 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں تو ہر کوئی اپنے عہد کا عکس ہوتا ہے، وہ اپنے عہد کو کبھی دلکش و دلفریب لفظوں میں، کبھی سحر انگیزسازوں میں، تو کبھی روح کی گہرائیوں سے ابھرنے والے احساسوں میں گاتا ہے۔ مگر شاعر کا من ایک ایسی آنکھ اپنے زماںومکاں، اپنی زمیں، اپنے لوگ، شہر و ثقافتیں و محبتیں اور طرح طرح کے مظہر و جمالیات کچھ اس طرح سے رقم کرتا ہے کہ پڑھنے والے کی حسیات میں اضطراب سا آجاتا ہے۔ وہ اس کے من کو چھو لیتا ہے۔

شاعر وہ نہیں جو قصیدہ خواں ہوتا ہے، وہ بے چارہ اپنے ہونے سے صرف اپنے وجود کے روٹی پانی کی تلاش میں رہتا ہے۔ شاعر وہ ہے جو اشعار کہے، ایسے اشعار جن کا موضوع اگر جمالیات ہو تو پڑھنے والے کے سامنے وہ حسن ایسے پھیل جائے کہ جیسے وہ اس کا حصہ ہے، اور اگر لوگوں پر لکھے، ان مصائب پر قلم اٹھائے جو ان پر صادر ہوئے ، ظلم و ستم پر لکھے تو ان شکنجوں کو توڑنے کو موضوع سخن بنائے مگر اس بات سے بخوبی واقف ہو کہ پابند سلاسل ہونا اس کا مقدر ہے۔ غرض یہ کہ وہ جو کہے دل سے کہے ،مکمل سچائی سے کہے، اور اس سے نکلتے ہر خمیازہ کا اپنے آنگن میں استقبال کرے۔

ہمارے عہد کے عظیم شاعر شیخ ایاز اسی درجہ و معیار کے سندھ کے شاعر بے بدل تھے۔ جب بھی دسمبر کا مہینہ جانے کو ہوتا ہے تو ان کا اب کی بار ایک میلہ سا لگتا ہے، جو اگلے برسوں میں عرس مبارک کی شکل اختیارکرے گا۔ وہ بھی بھٹائی کی طرح، سچل کی طرح، سامی کی طرح، بھلے، باہو اور فریدہ کی طرح، عطار، جامی اور رومی کی طرح، موت کو وصال سمجھتے تھے۔

ہاں مگر ایاز اپنے اس قبیلے میں بہت مختلف بھی تھے، انھوں نے شیکسپیئر، گوئٹے، مارک ٹوئن، مایاکووسکی، سوزی نکسن، بورس پیسٹرنیک، دوستوفسکی، چیخوف، ٹالسٹائی کی تخلیقات کا گہرا مطالعہ کیا ۔ غرض کہ کون سا ماڈرن دنیا کا شاعر ہوگا، اسپین کے لورکا سے لے کہ لاطینی امریکا کے پابلو نرودا، نثر میں گارشیا مارکیز ہوں یا ژاں پال سارتر یا البرٹ کامیو، وہ دنیا کے ہر رگ جاں میں الجھے ہوئے ہیں۔ کیوں نہ دو ہزار سال پہلے کا شاعر ’’ہومر‘‘ ہو یا کوئی اور۔ وہ چاہے کال مارکس کا فلسفہ ہو، اشتراکی یا کوئی اور تحریک ہو، یا کوئی مسلک، کلٹ وغیرہ۔ ہر چیز جو ہوتی ہو اس کی جان کاری کو چھونا اس کے لیے لازم تھا۔ مجھے کہنے دیجیے کہ کم ازکم سندھ میں اس جیسا مدلل و فہیم زاویہ مطالعہ شاید ہی کسی اور کا ہو۔ اور پھر اتنا تفصیلی علم اتنی گہری مشاہداتی نگاہ ،ان کا یہی ژرف نگاہی ان کے تفکرانہ کلام کی بنیاد ہے جو مشام جاں کو معطر کردیتی ہے، دل میں ہلچل مچادیتی ہے،ایاز کے تخلیقی ہنر ، ان کے علم کا محور ، ان کی سندھی زبان اور سندھی زبان میں ان کی شاعری خود ایک آئینہ اور باقی سب کچھ ثانوی۔

وہ آرٹ کے طالب بھی تھے، تو آرٹ برائے زندگی یا آرٹ برائے حقیقت یا آرٹ برائے تبدیلی کے بھی اتنے ہی مداح تھے۔ اس کی شاعری میں جمالیات بھی موضوع سخن ہے تو اس کے محکوم دہقان سندھی، ماڑو، ملیر بھی، تو دوسری طرف اتنی ہی شدّومد سے وہ دنیا کا اپنے آپ کو ایک ذمے دار شہری بھی سمجھتے ہیں۔ وقت رفتار پر ان کی نظر ہٹتی نہیں، وہ کائناتوں میں بھی رہنے والا ہے۔ وہ گرجا، کلیسا، مندروں اور مسجدوں کے گنبدوں کو بھی دیکھتا ہے۔ جوشؔؔ کا شعر ہے،

زمیں سے تا بہ فلک ایک موجِ دجلۂ آہ
کہاں کہاں ہے تصرف تری نگاہوں کا

اس آفاقی نگاہ سے شیخ ایاز کی نظر دوچار ہوتی رہتی ہے، شاہ سائیں کی طرف لوٹ چلیں تو یوں کہیے کہ ایاز بہت سادہ، بہت سلیس الفاظ میں شاہ لطیف کا تسلسل ہیں ۔ جہاں شاہ لطیف کی انگلیاں و احساس ساکن ہوجاتے ہیں، وہاں سے ایاز اس لحد سے سانس لیتے اپنے عہد میں سفیر بن کر شاہ لطیف کو ہی لکھتے ہیں۔

وہ لطیف بھلا کیا جانے آرٹ برائے آرٹ، آرٹ برائے زندگی کی حقیقت کی باتیں۔ وہ تو جو تھا سو تھا۔ وہ تو نقاد کہتا ہے کہ وہ اور اس میں وہ عوامل تھے، سب مظہر تھے، ہاں مگر ایاز کا نقادوں سے سامنا ہوا تھا، دنیا میں جو گھمسان کی جنگ ہوئی تھی، جو فکر و فلسفے میں ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی ہوئی تھی، وہ سب ان بحث و مباحثوں کا طالب تھا۔ لیکن کہتا ہے میں جو ہوں، سو وہ ہی ہوں، جو بھٹائی تھے۔کتنا بڑا اعتراف ہے۔

وہ ماڈرن زمانے کے وکیل اور ایک بھرپور وکیل بھی تھے، کہ اگر ان کو شاعری کی بیماری نا ہوتی تو اپنے پروفیشن میں بڑے بڑے طرم خانوں کو پیچھے چھوڑ دیتے۔حقیقت میں اس نابغہ روزگار شخص کو اپنے عہد کا گیت گانا تھا، اسے ساہیوال کی جیلوں میں رہنا تھا، اس کو پابہ جولاں چلنا تھا اور پھر یوں تھا کہ اسے بالآخر دشت تنہائی راس آگئی اور الفاظ آبشاروں کی طرح اس پر امڈتے تھے۔ وہ بوڑھا ہوچکا تھا، کلفٹن برج کے پاس ایک کشادہ فلیٹ میں باقی ماندہ زندگی اپنے کواڑوں کو مقفل کرکے، کھڑکی سے روشنیوں کے شہر کو دیکھتے ہوئے، سمندر کی عیال لہروں و سورج کو الوداع کرتے کرتے، لکھتے لکھتے راتوں کو جاگتے رہتے، وہ ایسی شمعیں منور کرگیا جس کا اب کی بار بجھنا ممکن نہیں۔

اب کے زمانوں میں تو سندھ کا بے تاج بادشاہ شاہ بھٹائی ہے، مگر آیندہ زمانے میں ایاز ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنی انھوں نے شاعری کی ہے، اتنا ہی انھوں نے نثر میں بھی لکھا ہے۔ جتنی ان کی شاعری لازوال ہے، اتنا ہی ان کی نثر بھی۔ ایاز اگر سندھ ہے تو ایاز عالمگیر بھی ہے۔ غرض کہ یوں کہیے کہ جو سدا بہار بھٹائی نے کہا ’’سائیں ہمیشہ رکھنا سندھ کو بہتر، رکھنا پوری دنیا کو بہت بہتر‘‘ ایاز اپنے مرشد بھٹائی کے ان دو جملوں میں پڑے اس پیغام میں تکمیل سمجھتا ہے اور ان کی ساری زندگی اپنے مرشد بھٹائی کے ان دو جملوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ وہی پیغام ہے جو سندھ کے پاس ہے، جس کی بات جی ایم سید بھی کرتے تھے۔ جاتے جاتے نہ صرف یہ کہتا جاؤں کہ ایاز اس شراب کی مانند ہے کہ جتنی پرانی ہوتی جائے گی اس کا خمار اور دیرینہ ہوتا جائے گا۔ غالب کی زبان میں ارشاد ہوتا ہے،

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔