شام کا المیہ

عابد محمود عزام  جمعـء 23 دسمبر 2016

بشارالاسد کی فورسز نے ایک تباہ کن اور ظلم سے بھرپور کارروائی کرکے بالآخر اپنے مخالفین کے گڑھ شام کے سب سے بڑے تجارتی شہر حلب کو فتح کرلیا۔ شدید اور تباہ کن فوج کشی نے اسکولوں، گھروں اور اسپتالوں سمیت تمام انفرااسٹرکچر کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ وحشیانہ کارروائیوں کے دوران بچوں اور خواتین سمیت سیکڑوں بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ حلب میں ایک اسپتال کے پورے عملے کو یرغمال بنانے کے بعد انھیں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔

مقتولین میں اکثریت بچوں اور خواتین کی بتائی جاتی ہے، جن کا جنگ سے دور دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ حلب کے حالات انتہائی المناک ہیں۔ پورا شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جگہ جگہ بے گور و کفن لاشیں پڑی ہیں۔ گزشتہ پانچ سال سے پورے شام کے عوام ان ہی دردناک حالات سے دوچار ہیں۔ شام کا انسانی المیہ انتہائی بڑا المیہ ہے، لیکن عالمی برادری نے پانچ سال بعد بھی شام کی تباہی کو رکوانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

عالمی برادری کو حلب اور شام کی بربادی اور خونریزی سے کوئی سروکار نہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ شام اور مشرق وسطیٰ کے حالات عالمی طاقتوں کی سازشوں کا ہی مظہر ہے، جو روز اول سے خونریزی اور جنگوں کو چھیڑ کر اسلامی دنیا کو تقسیم کرنے کے لیے کوشاں رہی ہیں۔

حال ہی میں شام، عراق، لیبیا، یمن اور دیگر عرب ممالک میں جاری خانہ جنگی سے متعلق نیویارک ٹائمز کی اسٹوری میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ 1916ء میں کیے جانے والے سائیکس پیکو نامی خفیہ معاہدے، 2003ء میں امریکا کا عراق پر حملہ، عرب بہار اور داعش کو مشرق وسطیٰ میں کھڑا کرنے کا مقصد مسلم دنیا کو تقسیم کرکے ان کے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میں روس امریکا، برطانیہ، فرانس سمیت ساری عالمی طاقتیں ایک پیج پر ہیں، جو مسلم دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکے رکھنا چاہتی ہیں۔ آج جنگیں بہت منافع بخش کاروبار ہیں۔ پہلے زمانے میں جنگ لڑنے کے لیے اسلحہ تیار کیا جاتا تھا، لیکن اب اسلحہ بیچنے کے لیے جنگیں تیار کی جاتی ہیں۔

شام میں برسرپیکار بڑی بڑی طاقتوںکی خواہش ہے کہ خانہ جنگی کی یہ آگ بڑھتی رہے، تاکہ اسلحہ بیچنے اور دوسروں کے وسائل لوٹنے میں آسانی رہے۔ ایک جانب پانچ لاکھ افغانیوں، ایک لاکھ پاکستانیوں اور پندرہ لاکھ عراقیوں کے اپنے مفادات کی جنگ میں قتل کرنے والے امریکی اور نیٹو ممبران ممالک کے حکام اپنے مفادات کی خاطر شام میں مختلف عسکری تنظیموں کو سپورٹ کرکے شام کی جنگ کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ یہ جنگ ختم ہو۔ حلب کی تباہی میں اگر یہ کہا جائے کہ امریکا کی ہٹ دھرمی اور دھوکا بازی شامل تھی تو بے جا نہ ہوگا،

کیونکہ سقوط حلب سے ایک ماہ قبل شام و روس نے امریکا کو جنگ بندی کا پیغام بھیجا، جسے امریکا نے نہایت روکھے انداز میں رد کر دیا۔ دوسری جانب روس بشار الاسد کے ساتھ تعاون کرکے اس جنگ کو ختم نہیں ہونے دے رہا۔ پانچ دسمبر 2016 کو مصر، نیوزی لینڈ اور اسپین کی طرف سے حلب میں جاری وحشیانہ بمباری کو عارضی طور پر روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی، سلامتی کونسل کے 11 ارکان نے اس قرارداد کی حمایت کی، لیکن روس اور چین نے مل کر اس قرارداد کو ویٹو کردیا۔ شامی خانہ جنگی کے حوالے سے روس چھ اور چین پانچ مرتبہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے۔ اس سے بخوبی یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ عالمی طاقتیں شامی خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہیں۔

سامراجی قوتوں نے اپنی جنگیں مسلم ملکوں میں لڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، جب کہ مسلکی بنیاد پر بعض اسلامی ممالک سامراج کی لگائی گئی آگ کو مزید بھڑکا کر ان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اگرچہ شام میں خونریزی کی آگ جلانے میں پیش پیش امریکا و روس تھے، لیکن اس آگ کو بھڑکانے میں اہم کردار شیعہ سنی کی فرقہ وارانہ سوچ نے ادا کیا ہے، جس میں سعودی عرب اور ایران سرفہرست ہیں۔ مسلم دنیا کے لوگ عالم اسلام کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنی ہمدردیوں کے اسیر بن چکے ہیں۔ ایک طبقہ یمن کو روتا ہے، لیکن حلب پر خاموش ہو جاتا ہے اور ایک گروہ حلب پر خون روتا ہے اور یمن پر اسے چپ لگ جاتی ہے۔

ہم لوگ مظلوم اور ظالم کا عقیدہ دیکھتے ہیں، پھر اس کی حمایت و مخالفت کرتے ہیں۔ مظلوم اگر ہمارے مسلک و عقیدے کا ہے تو ہم بول پڑتے ہیں اور اگر مخالف فرقے و نظریے کا ہے تو ہماری زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ ظالم اگر مخالف فریق کا ہے تو ہم اس کی مخالف میں نکل پڑتے ہیں اور اگر ظالم خود ہمارے ہی فریق سے ہے تو ہم اس کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ مظلوم دنیا کے کسی کونے، کسی مذہب، کسی ملک، کسی مسلک اور کسی نظریے کا فرد ہو، اس کی حمایت کرنا ہر انسان پر ضروری ہے اور ظالم دنیا کے کسی کونے، کسی مذہب، کسی ملک، کسی ملک اور کسی بھی نظریے کا فرد ہو، اس کی مخالفت کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔

شام کے معاملے میں عالم اسلام کی بے حسی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک قوم ہیںاور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند اور ایک مسلمان کی تکلیف سارے مسلمانوں کی تکلیف قرار دیا ہے، لیکن افسوس عالم اسلام نے ان سب باتوں کو بھلادیا اور خود کو محض وطنیت اور قومیت میں منحصر کرکے مظلوم شامیوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔

عالم اسلام کے ممالک کی تعداد پانچ درجن کے قریب ہے، جن میں ترکی، سعودی عرب، ایران، انڈونیشیا، قطر، عمان، ملائیشیا، پاکستان، برونائی دارالسلام اور کویت جیسے ممالک شامل ہیں، لیکن کسی نے بھی شام میں جنگ کی لگی آگ کو بجھانے کی کوشش نہیں کی۔ شام میں جاری قتل عام میں ہر ملک اپنے مفاد کو سامنے رکھے ہوئے ہے۔ کسی ملک نے اس خانہ جنگی کو رکوانے کی کوئی سبیل نکالنے کی کوشش تک نہیں کی۔ نقصان صرف شام کے مظلوم عوام کا ہورہا ہے۔

57 اسلامی ممالک پر مشتمل عالم اسلام کی نمایندہ تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس نے بھی شام کے معاملے میں مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔ شام 2011 سے مقتل بنا ہوا ہے۔ اس خانہ جنگی میں تمام بیرونی قوتیں شامیوں پر ظلم کر رہی ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر روس، چین، امریکا، اسرائیل، ایران، ترکی اور عرب ممالک، بشار الاسد، حزب اللہ، داعش، القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں نے شام کو بارود کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ شام میں جاری کشیدگی کے باعث ڈھائی لاکھ سے زاید افراد مارے جاچکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

بیرون ملک ہجرت کرنے والوں کی تعداد 40 لاکھ اور اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کی تعداد 70 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ہر ماہ تقریباً پانچ ہزار افراد قتل کیے جارہے ہیں، لیکن مجال ہے کہ او آئی سی نے آنکھیں کھولی ہوں۔ اگر اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم او آئی سی چاہے تو شام میں جاری درندگی رک سکتی ہے۔ شام میں جاری سفاکیت کو ختم کرانا اور وہاں امن کا قیام عالم اسلام اور اوآئی سی کی ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔