فوجی افسران کی سول عدالتوں میں طلبی ڈسپلن کی تباہی ہے

آئی این پی  بدھ 26 دسمبر 2012
انکوائری درکار ہو تو ان حکمرانوں سے کی جائے جو فوج طلب کرتے ہیں،، بریگیڈیئر (ر) مسعود فوٹو: فائل

انکوائری درکار ہو تو ان حکمرانوں سے کی جائے جو فوج طلب کرتے ہیں،، بریگیڈیئر (ر) مسعود فوٹو: فائل

راولپنڈی: پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اور عسکری امور کے ماہر بریگیڈئر (ر) سید مسعود الحسن نے فوجی افسران کی سول عدالتوں میں طلبی کو فوج کے ڈسپلن کی کو تباہ اوراس کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف قراردیئا ہے۔

انھوں نے منگل کو راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فوجی افسرسے کسی معاملے میں انکوائری مطلوب ہو تو سول حکمرانوں سے پوچھ گچھ کی جائے جو فوج کو معاونت کیلیے طلب کرتے ہیں۔ فوجی افسران کو سول عدالتوں میں طلب کرنے کا کوئی آئینی اور قانونی جواز نہیں، اگرفوج کا کوئی افسر یا جوان کسی غیر قانونی کام کا مرتکب ہو تو ادارے کے اندراسے سزا دینے کیلئے اپنا نظام عدل موجود ہے۔

02

بریگیڈئر (ر) سید مسعود نے کہا کہ کسی بھی ایشو کی انکوائری کرتے ہوئے انفرادی طور پر آرمی افسران یا جوانوں کو سول عدالت میں طلب کیا جانا آئین کے آرٹیکل 145کی خلاف ورزی ہے۔ پاک فوج نے مختلف ہنگامی حالات میں سول حکومت کے کہنے پر ملک و ملت کیلیے عظیم خدمات سر انجام دیں، زلزلہ ہو،سیلاب اور امن و امان کی خراب صورت حال کے موقع پر جب بھی سول حکومت نے مدد کیلیے افواج پاکستان کو طلب کیا،فوج اپنے ہم وطنوں کی جانیں بچانے، انھیں ریلیف فراہم کرنے،آفت زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچانے میں قابل فخر کردار ادا کرتی رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔