طلاق، خلع اور اثرات  (آخری حصہ)

رئیس فاطمہ  اتوار 25 دسمبر 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

طلاق کے منفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر پڑتے ہیں۔ آہستہ آہستہ بچے احساس کمتری کا شکار تو ہوتے ہی ہیں، ساتھ ساتھ ماں اور باپ دونوں متنفر بھی ہو جاتے ہیں۔ بیس سال پہلے ایک خاتون محض اس لیے طلاق کا مطالبہ کر دیتی ہیں کہ ان کے شوہر کو بیوی کا آئے دن میکے جانا پسند نہیں تھا، بات معقول تھی، مگر انا اور خودمختاری کا جھنڈا بلند کر کے محترمہ میکے آ بیٹھیں، باپ کا انتقال ہو چکا تھا۔ والدہ، بہو بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔

یہ بھی اپنے ایک سالہ بیٹے کو لے کر میکے آ گئیں۔ والدہ اور بھائی نے بجائے سمجھانے کے الٹا شاباشی دی۔ میاں اور ساس کئی بار لینے آئے تو الگ گھر کا مطالبہ کر دیا، جسے شوہر نے مسترد کر دیا اور ماں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یہ دو بہن بھائی تھے۔ بہن نے بھی بھاوج کو منانے کی کوشش کی، لیکن محترمہ کسی طرح راضی نہ ہوئیں۔ انھیں یہ گمان تھا کہ چونکہ ان کا شوہر بچے سے بہت محبت کرتا تھا اس لیے ہر جائز و ناجائز بات مان لے گا۔ لیکن اس نے بوڑھی ماں کو چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا۔ چھ ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔

ماں نے بیٹے سے کہا کہ وہ الگ گھر لے لے اور انھیں اسی گھر میں رہنے دے، جہاں انھوں نے چالیس سال گزارے اور جہاں سے ان کے شوہر کا جنازہ اٹھا۔ لیکن بیٹے نے صاف انکار کر دیا۔ پھر جب کورٹ سے اسے خلع کا نوٹس ملا تو اس نے فوراً طلاق دے دی۔ بچہ ماں کے پاس ہی رہا۔ باپ ہر ماہ ایک مخصوص رقم بیٹے کے اخراجات کے لیے ادا کرتا تھا۔ کچھ عرصے بعد محترمہ کے بھائی بھاوج کا رویہ بدلنے لگا۔ اسی دوران ایک رشتہ آیا ایسے شخص کا جس کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا، بچہ کوئی نہیں تھا۔ لیکن شرط یہ تھی کہ محترمہ اپنے بچے کو ساتھ نہیں رکھیں گی۔ لہٰذا بیٹا جس کا نام فرخ تھا وہ نانی اور ماموں کے پاس رہا اور والدہ گھر بس کر رخصت ہوئیں۔

ادھر فرخ کی ہر بات پوری کی جاتی تھی، اسے نانی نے بہت لاڈ سے پالا۔ کوئی اسے کچھ نہیں کہتا تھا کہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے اکیلا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شدید احساس محرومی کا شکار ہو گیا۔ کرکٹ کا شوقین تھا، جان بوجھ کر بیٹنگ بہت جارحانہ انداز میں کرتا۔ آئے دن لوگوں کے گھروں کے اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹتے، اب اس کی پٹائی بھی ہونے لگی تھی۔ لیکن اس کی خودسری بڑھتی جا رہی تھی۔

باپ نے تو بالکل ہی ناتا توڑ لیا تھا کہ ماں اور نانی نے باپ کے خلاف بہت زہر بھر دیا تھا۔ لہٰذا باپ ملنے بھی آتا تو فرخ کا رویہ نہایت جارحانہ ہوتا تھا۔ وہ اس حد تک خودسر ہو گیا تھا کہ جس بات سے منع کیا جائے وہی کرتا تھا۔ ماں سے نفرت کرنے لگا تھا۔ جب ماں اپنی بیٹی جو دوسرے شوہر سے تھی لے کر آتی تو وہ گھر سے چلا جاتا تھا۔ اور پھر ایک دن، احساس محرومی اور مایوسی کا شکار فرخ اپنی جان سے کھیل گیا۔

ایک لیکچرر کی شادی خاصی بڑی عمر میں ہوئی۔ جہاں رشتہ ہوا اس شخص کی آمدنی بہت زیادہ نہیں تھی۔ پانچ ماہ خیریت سے گزر گئے، چھٹے مہینے میں جب وہ ماں بننے والی تھیں، الگ گھر کا مطالبہ کر دو کہ بیوہ نند ساتھ رہتی تھیں۔ ماموں سارا خرچہ اٹھاتے تھے۔ نند کا بیٹا پڑھنے میں بہت ہوشیار تھا۔ ماموں نے بیوہ بہن اور بھانجے کی خاطر بہت دیر میں شادی کی۔ کہاں تو یہ محبت کہ گھر کی اوپری منزل بہن اور بھانجے کو دے دی۔ بہن بھی کسی اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ لیکن شادی کے چند ہفتوں بعد ہی لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔

ایک بیٹا ہوا اور موصوفہ میکے جا بیٹھیں جہاں لوگوں نے بجائے سمجھا بجھا کر گھر بھیجنے کے، طلاق لینے کا مشورہ دیا۔ اس صورتحال میں بہن نے بھائی کا گھر چھوڑ دیا کیونکہ بھائی کا رویہ بھی تبدیل ہو گیا تھا۔ بہرحال اتنا ضرور ہوا کہ بھائی فارغ اوقات میں جو ٹیوشن پڑھاتے تھے اس میں سے کرائے کی رقم بہن کو دے دیتے تھے۔ لیکن بیوی پھر بھی آنے پر راضی نہ ہوئیں اور صاف کہہ دیا کہ وہ گریڈ 17 کی آفیسر ہیں اور میاں ایک کمپنی میں سپروائزر۔ انھیں میاں کا تعارف کراتے شرم آتی ہے۔ نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔ لیکن نقصان کس کا ہوا؟

موصوفہ کو یقین تھا کہ دوسری شادی ان کے کسی ہم پلہ سے ضرور ہو جائے گی۔ کیونکہ ایک صاحب نے انھیں خاصے سبز باغ دکھائے تھے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ صاحب پہلے سے شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے بھی ہیں۔ شادی تو محترمہ نے کر لی، لیکن سارے اخراجات وہ خود اپنے اور اپنے بیٹے کے اٹھاتی تھیں۔ شوہر نے پہلی بیوی سے چھپ کر دوسری شادی کی تھی، دن میں کسی وقت آ جاتے تھے، لیکن رات کو کبھی نہیں رکے۔ اس عرصے میں وہ ایک بچی کی ماں بھی بن چکی تھیں۔ بچی پانچ مہینے کی تھی کہ شوہر کے گھر والوں کو شادی کا پتہ چل گیا، زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ سارا خاندان پہلی بیوی کے ساتھ تھا۔ دباؤ بہت بڑھا تو انھیں دوسری بیوی کو طلاق دینی پڑی۔

اب وہ ملازمت کر رہی ہیں اور اکیلی بیٹے کے ساتھ رہ رہی ہیں، والدین کے ساتھ رہنا ممکن نہیں کیونکہ چار کمروں کے گھر میں ان کی جگہ نہیں بنتی۔ ساتھ ہی بیٹا بہت سرکش ہوگیا ہے۔ وہ باپ کے پاس جاتا ہے، رہتا ہے، لیکن باپ بھی دوسری بیوی کی وجہ سے اسے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ نتیجہ یہ کہ بیٹا بے چارہ نہ ادھر کا رہا نہ اُدھر کا۔ ایک خاندان میں طلاق صرف اس لیے ہو گئے کہ میاں آؤٹنگ پہ لے کر نہیں جاتے تھے۔ جب کہ بیوی کے فیس بک (facebook) فرینڈز ہر دوسرے تیسرے دن باہر جاتے موج اڑاتے اور انٹرنیٹ پہ حال احوال سناتے۔

وہ ہر روز میاں پہ زور ڈالتیں، لیکن شوہر مجبور تھے وہ مہینے میں ایک بار تو یہ عیاشی افورڈ کر سکتے تھے، لیکن ہر ہفتے نہیں۔ لیکن انٹرنیٹ پہ بنا چیٹ گروپ ہر وقت انھیں اپنی دعوتوں اور مزے اڑانے کی ترغیب دیتا۔ چیٹنگ ہی کے دوران ایک معاشقہ بھی وجود میں آ گیا، روز محبت بھرے میسج اور معنی خیز اشعار انھیں ملنے لگے، پھر باقاعدہ اظہار عشق ہوا۔ بات بہت زیادہ آگے بڑھی اور محترمہ نے شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا۔

نتیجہ طلاق کی صورت میں برآمد ہوا۔ لیکن عدت پوری کرنے کے بعد جب انھوں نے اپنے دوست سے رابطہ کرنا چاہا تو مطلوبہ فون نمبر بند تھا۔ گھر کا پتہ بھی غلط تھا۔ اب وہ ایک جگہ ملازمت کر رہی ہیں اور پچھتاوؤں کی آگ میں جل رہی ہیں۔ والدین نے بھی دھتکار دیا ہے۔ بہت پریشان ہیں اور کسی رشتے کی تلاش میں ہیں۔ زندگی تو اجڑ گئی، رہی سہی عزت بھی گئی۔ پتہ نہیں آگے کیا ہو گا۔

کاش طلاق لینے اور دینے سے پہلے فریقین سوچ بچار ضرور کریں، اگر بچے ہیں تو ان کے متعلق ضرور سوچنا چاہیے۔ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کی شخصیت بری طرح بکھر جاتی ہے۔ عموماً طلاقوں اور خلع کے واقعات میں لڑکی کے میکے والے زیادہ ملوث ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ شوہر دوسری شادی کے چکر میں بھی پہلی بیوی سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔

آج کل شادی شدہ مردوں کی طرف دوسری شادی کی یلغار زیادہ ہوتی نظر آرہی ہے۔ کیونکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔ ایسے ہی حضرات کی طرف غیر شادی شدہ خواتین کا رجحان زیادہ نظر آتا ہے جو کبھی ان کی کولیگ ہوتی ہیں یا سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی زندگی میں داخل ہو جاتی ہیں۔ نتیجہ عموماً ایسی شادیوں کا بہت بھیانک ملتا ہے۔ افسوس کہ سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔