سانحہ درپیش ہے

شاہد سردار  ہفتہ 24 دسمبر 2016

وطن عزیز میں آج کے دن یعنی 25 دسمبر کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے۔ گزشتہ 69 برسوں سے ہمارے سبھی حکمران اور سبھی سیاسی جماعتیں تواتر سے قائداعظم سے عقیدت کا اظہار کرنے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد یہ وعدہ کرتی رہی ہیں کہ قائداعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے گا۔ جب یہی جماعتیں یا لیڈران اقتدار کی وادیوں سے نکل کر حزب مخالف کے ریگستان میں قدم رکھتے ہیں تو پھر انھیں قائداعظم کے پاکستان کی یاد ستانے لگتی ہے، لیکن جوں ہی وہ اقتدار کا دربار سجاتے ہیں تو قائداعظم کو بھول جاتے ہیں۔ کیوں کہ اقتدار میں رہ کر قائداعظم کے نقش قدم پر چلنا جان جوکھوں کا کام ہے۔

قائداعظم پاکستان کو ایک جمہوری، فلاحی، اسلامی اور ماڈرن ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں قانون کی حکمرانی، انسانی برابری، سماجی و معاشی عدل، انصاف کی فراوانی ہو اور جس میں مسلمان اپنے مذہب، کلچر، اصولوں اور روایات کے مطابق زندگی گزارتے۔ بلاشبہ قائداعظم کے تصور کا اہم ترین ستون جمہور تھا، عوام کی حاکمیت اور جمہوری طرز حکومت، لیکن ہم نے پاکستان کے قیام کے گیارہ برس بعد ہی اس اصول کو پاش پاش کردیا اور ایوب خان نے مارشل لا لگا کر پاکستان کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتار کر اسے فوجی یا سیکیورٹی ریاست بنادیا۔ یوں جمہور، جمہوری حقوق، انسانی مساوات، سماجی و معاشی عدل اور فلاحی ریاست کا تصور پس پشت چلا گیا۔ نتیجے میں فلاحی و اسلامی ریاست کی ساری ترجیحات سیکیورٹی کے تصور تلے دب کر رہ گئیں اور آج تک دبی ہوئی ہیں۔

برسہا برس گزر جانے کے بعد بھی ہمارے ملک میں غریب اور امیر کے لیے، بااثر اور بے اثر کے لیے مختلف پیمانے اور مختلف قوانین نافذ ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ’’ملک کے تمام سرکاری ادارے کرپشن سے لدے پھندے ہیں‘‘۔ کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ ہمارے ہاں قانون کا تصور محض ایک تمسخر بن کر رہ گیا ہے اور معاشرے کو لاقانونیت نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر انصاف دینے والے اداروں تک سبھی پر عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔

قائداعظم جس طرح قومی خزانے کو امانت کا درجہ دیتے تھے اور اس پر ایک پائی کا بھی غیر ضروری بوجھ نہیں ڈالتے تھے وہ انھی کا حصہ یا خاصا تھا۔ ان کے بعد اس غریب ملک کے بگڑے اور مطلب پرست حکمرانوں نے جس طرح قومی خزانے کو ذاتی ملکیت بلکہ ’’مال غنیمت‘‘ سمجھ کر لوٹا، اربوں روپے گاڑیوں، جہازوں، محلات، آسائشوں اور ذاتی عیاشی پر لٹا دیے اور قومی وسائل کی بندر بانٹ کے نئے ریکارڈ قائم کیے وہ انتہائی المناک کہانی ہے۔ آج تک کسی بھی حکومت یا پارٹی نے پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کی مخلصانہ کوشش نہیں کی۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قومی زندگی کے ہر شعبے میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دیے ہوئے تین اصولوں اتحاد، یقین محکم اور تنظیم کو گزرے عشروں میں پیش نظر رکھا جاتا تو بیشتر مشکلات سے بچا جاسکتا تھا اور اب بھی ان پر عمل کرکے ملک ہی نہیں خطے کی ترقی و خوشحالی میں وطن عزیز ایک نیا باب رقم کرسکتا ہے۔ آفاقی سچائی ہے کہ حکمران یا لیڈران قوم کے رول ماڈل ہوتے ہیں، وہی گورننس کے کے نمونے قائم کرتے، کردار اور ایثار کی مثالیں قائم کرکے ملک میں مخصوص کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔

کہاوت ہے کہ فوج کا سربراہ کسی باغ سے ایک سیب اتار لے تو فوج پورا باغ کھا جاتی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ حاکم ایمان دار، باکردار، ایثار و قربانی کا اعلیٰ نمونہ اور خدمت کی مثال ہو تو اس کا نہ صرف بیوروکریسی بلکہ پورے ملک پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ 14 اگست 1947 کو ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے۔ کبھی ہمارے حکمران خدمت کے لیے اقتدار حاصل کرتے تھے اور اب طویل عرصے سے اقتدار ذات کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔

1918 میں جب قائداعظم محمد علی جناح کی شادی ہوئی تو انھوں نے اپنے غسل خانے کی تعمیر پر 50 ہزار خرچ کر ڈالے، مگر یہی قائداعظم جب پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو ڈیڑھ روپے کا موزہ خریدنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ غریب ملک کے گورنر کو اتنی مہنگی چیز نہیں خریدنی چاہیے۔ ایک بار کہیں جاتے ہوئے قائداعظم کی گاڑی کو ایک بند ریلوے پھاٹک پر رکنا پڑا تو ڈرائیور نے کہا ’’سر میں جاکر پھاٹک والے کو بتاتا ہوں کہ گاڑی میں گورنر جنرل ہیں تاکہ وہ پھاٹک کھول دے۔‘‘ یہ سن کر قائداعظم نے کہا ’’پھاٹک کھلنے کا انتظار کرو، میں کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا کہ جس سے لگے میں کوئی خاص آدمی ہوں۔‘‘

قائد اعظم کوئی معمولی گورنر جنرل نہیں تھے، وہ بابائے قوم اور بانی پاکستان تھے۔ غیر ملکی علاج ان کا استحقاق تھا، لیکن ہمیشہ وطن کی خدمت کا جذبہ اور سرکاری خزانے کا پاس ان کی ذات پر حاوی رہا، کبھی اپنے علاج معالجے کے لیے بیرون ملک نہیں گئے اور نہ ہی غیر ملکی ڈاکٹروں کو دکھایا۔ اس قسم کے ان گنت واقعات سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہے کہقائد اعظم نے ذاتی محنت اور قابلیت سے دولت کمائی تھی۔

دنیا سے رخصت ہونے سے قبل اس دولت کا چھوٹا سا حصہ اپنی بہن فاطمہ جناح اور اپنی بیٹی کو دے کر باقی ساری دولت قوم کو دے دی جس کا معتدبہ حصہ مدرسۃ الاسلام کراچی، اسلامیہ کالج پشاور، انجمن حمایت اسلام لاہور کے تعلیمی اداروں کو ملا اور ایک حصہ ممبئی کے ایک مدرسے کو دیا جہاں یتیم بچے زیر تعلیم رہتے تھے۔

افسوس صد افسوس یہ مملکت خداداد اس عظیم قائد، عظیم رہنما اور اپنے عظیم لیڈر سے بہت جلد محروم ہوگئی اور پھر ان کے بعد اس ملک کو دوسرا قائداعظم میسر نہ آسکا۔ 69 سال سے ملک و قوم کو نوچتے کھسوٹتے گدھ وطن کی کھلی فضاؤں میں وطن کے خزانے، نعمتوں یا اثاثوں کو نوچ نوچ کر کھانے میں مصروف ہیں۔

ملک کے آئین کو اس ملک کے حکمرانوں نے توڑا، ملک کے دو ٹکڑے کردیے، بندوق اور اندھے قانون کے زور پر من مانیاں کیں یا جو جہالت کے کندھوں کو سیڑھی بناکر کرسی اقتدار تک پہنچے اور جو کرپشن کے چمپیئن نکلے یا جو اقربا پروری میں ورلڈ ریکارڈ تھے، وہ قائداعظم کے بنائے ہوئے پاک وطن کے کرتا دھرتا بن گئے۔ وطن کی تاریخ گواہ ہے اس بات کی کہ یہاں قائد کا جانشیں وہ بھی ٹھہرا کہ جو اکثر اپنے قریبی دوستوں سے کہا کرتا کہ ’’ہندوستان کی تقسیم ایک تاریخی غلطی تھی۔‘‘ ہمارے قائد کے بنائے ہوئے وطن میں قائداعظم کا گدی نشین وہ بھی بنا جسے خود قائداعظم نے شٹ اپ کال دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’آیندہ مجھے اپنا چہرہ مت دکھانا۔‘‘

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو جس قدر وطن عزیز سے محبت تھی اتنا ہی اس کے خزانے کو انھوں نے ہمیشہ مقدم اور قوم کی امانت جانا۔ لیکن قائداعظم کے بعد آنے والے کسی حکمران نے اس کا پاس نہ رکھا اور سرکاری خزانے کو اپنے باپ دادا کا مال سمجھا۔ عوام کی جیبوں سے نکالے گئے اربوں روپے ٹیکس کی مد میں اپنے اللے تللوں پر خرچ کردینا ہمارے حکمرانوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔انھیں نہ وطن سے محبت ہے نہ اس کا پاس ہے اور نہ ہی اس کے بانی کا کوئی لحاظ اور احترام۔ امر واقعی ہے کہ بدعنوانی، کرپشن کا تعلق صرف اخلاقیات سے نہیں بری سیاست سے بھی ہوتا ہے۔

ہمیں بہتر گورننس، مضبوط اور مستحکم جمہوریت اور معاشی ترقی کی ضرورت ہے لیکن کیا ہے کہ ہمارے حکمران اپنی سمندر پار جائیداد یا اثاثوں کے طلسم کے ہی اسیر بنے ہوئے ہیں۔ زر اور املاک میں الجھے ہمارے ارباب اختیار کو نہیں معلوم کہ وطن میں کیا چل رہا ہے اور وطن کی حرمت کیا کہہ رہی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہماری نظروں کے سامنے جمہوریت کی کمزور سی ناؤ نااہل ملاحوں کے ہاتھ طوفانی لہروں کی زد میں ہے اور گہرے ہوتے ہوئے پانیوں کے دوش پر ملاح اپنی اپنی جائیدادوں کی سوچ و فکر میں غرق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔